تین طلاق بل کے قانون نافذ ہونے کے بعد مسلم گھر ٹوٹنے کا خدشہ : سرکردہ مسلم خواتین کا شدید رد عمل 

سہارنپور : مودی سرکار کے ذریعہ پارلیمنٹ میں تین طلاق بل دوبارہ اکثریت کے ساتھ پاس ہونے پر سرکردہ مسلم خواتین جہاں مودی او ربی جے پی پر سخت تنقیدیں کی ہیں ۔ اور کہا کہ اس کے نفاذسے مسلم گھر ٹوٹنے کا اندیشہ ہے ۔ اور مسلمانوں کے گھر آباد نہیں برباد ہوجائیں گے ۔ خواتین کی فلاح و بہبود کیلئے کام کرنے والی تنظیم پرچم کی صدر اور ہندو گرلز کالج کی پرنسپل ڈاکٹر قدسیہ انجم نے طلاق بل بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ خالص سیاسی کھیل ہے جس میں خواتین کو مہرہ بنایا جارہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس کے بننے کے بعد خواتین کو کوئی راحت نہیں ملے گی ۔ ایک مصیبت کے بعد سو مصیبتوں سے جھیلنا پڑے گا ۔

ڈاکٹر انجم نے مزید کہا کہ مرد جیل چلے جانے کے بعد خاتون اور اس کے بچوں کی کفالت کون کرے گا ۔ ان کو اپنے حق کے لئے عدالتوں کے چکر کاٹنے پڑیں گے ۔ دراؤن ووڈ پبلک اسکول کی ڈائریکٹرصفیہ صبوحی نے کہا کہ یہ بل مسلمانوں کی مذہبی آزادی پر سوال کھڑا کرے گا ۔ اس کے بننے کے بعد مسلم گھر نہیں بلکہ جیل مسلمانوں سے آباد ہوں گے۔ شمسی بیسک اسکول کی پرنسپل فرزانہ شاہد نے کہا کہ مودی سرکار اور بی جے پی حکومت نے یہ سارا تماشہ ۲۰۱۹ء کے پارلیمانی انتخابات کے پیش نظر کیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اگر مودی حکومت کی مسلم خواتین کے ساتھ اتنی خیرخواہی کا جذبہ ہے تو ان بیس لاکھ غیر مسلم خو اتین کی بھی فکر کرنی چاہئے جنہیں ان کے شوہروں نے بلا وجہ انہیں چھوڑ رکھا ہے ۔

نہ انہیں ساتھ رکھتے ہیں او رنہ ہی انہیں چھوڑتے ہیں ۔ اور نہ ان کی کفالت کرتے ہیں ۔اور یہ مرد دوسری شادی کر کے مزے میں ہیں ۔ او ر ہندو مذہب کے مطابق جنم جنم کا یہ ساتھ صرف غیر مسلم خواتین کے گلے میں طوق بن جاتا ہے ۔جس سے انہیں آزادی نہیں مل پارہی ہے ۔