تیر وتفنگ قانونی، سیاسی، ادبی، شخصی مضامین اور افسانے

سعید حسین
دُعا ہے کہ سلامت رہے تیری ہمت
یہ ایک چراغ کئی آندھیوں پہ بھاری ہے
سینئر ایڈوکیٹ عثمان شہید حیدرآباد اور حیدرآبادیوں کے لئے کوئی تعارف کے محتاج نہیں ہے۔ اب تک آپ کی انگریزی زبان میں 3 کتابیں شائع ہوچکی ہیں زبان اردو میں ’’شمشیروسناں‘‘ ، ’’تیر و تفنگ‘‘ اور ’’سنگ و خشت‘‘ شائع ہوکر مقبول ہوچکی ہیں۔ اس کے علاوہ اردو زبان میں ’’قانونی مشورے‘‘ کے نام سے ایک کتاب اور شائع ہوچکی ہے جو اخبار ’’سیاست‘‘میں شائع شدہ سوال و جواب پر مشتمل ہے۔
مصنف کی پہلی کتاب شمشیر و سناں ہندوستان میں مسلم جدوجہد کی دستاویز پر مشتمل ہے۔ مذکورہ کتاب پر میرے عزیز دوست محمد مجاہد سید حال مقیم جدہ میں صحافی کی حیثیت سے انگریزی روزنامہ ’’عرب نیوز‘‘ و ’’سعودی گزٹ، جدہ، سعودی عربیہ میںخدمات انجام دے رہے ہیں۔ پچھلے تین دہوں سے جدہ میں مقیم ہیں۔ آپ کا تعلق لکھنؤ سے ہے۔ لیکن ان کا حلقہ احباب زیادہ تر حیدرآبادی ہیں۔ پچھلے دو دہوں سے راقم بھی ان کی صحبت بابرکت سے فیضیاب ہورہا ہے۔
مصلح الدین سعدی مرحوم ابن حضرت معزالدین ملتانی ، نائب صدر اقبال اکیڈمی اور تعمیر ملت محمد ضیاء الدین نیئر ، ڈاکٹر عابد معز ،نعیم الدین شریف ، محمد باقر سابقہ صدر اکنامک فورم آف انڈیا ایوب علی خان وغیرہ وغیرہ آپ کے اہم دوستوں میں شامل ہیں۔ آپ کی کئی کتابیں نثری اور شعری مجموعے شائع ہوچکے ہیں جن میں دو شعری مجموعہ ’’جنات‘‘ اور ’’حرف معتبر ‘‘ بہت مقبول ہوئے ہیں۔

فاضل مصنف ’’تیر و تفنگ‘‘ محمد عثمان شہید صاحب عمرہ کی غرض سے جدہ تشریف لائے تھے ، آپ کی تہنیت کے سلسلہ میں ایک جلسہ کا انعقاد عمل میں آیا تھا۔ راقم بھی اُس جلسہ میں شریک تھا۔ اُس وقت عثمان شہید نے اپنی کتاب ’’شمشیر و سناں‘‘ مجاہد سید کو تحفہ میں دی تھی۔ مذکورہ کتاب پر تبصرہ لکھ کر محمد مجاہد سید نے جدہ سے شائع ہونے والا روزنامہ اردو نیوز میں شائع کیا تھا۔ وہی تبصرہ فاضل مصنف نے اپنی کتاب ’’تیرو تفنگ‘‘ میں شامل کیا ہے۔ جس میں مجاہد سید ، فاضل مصنف کے تعلق سے یوں رقمطراز ہیں۔ ’’ہندوستان میں مسلم جدوجہد کی دستاویز ’’شمشیر و سناں‘‘ مضامین کا انداز تحریر ادبی ہے۔ جو نہ صرف ایک قانون داں بلکہ نفیس ادبی ذوق کے حامل درد مند مسلمان عثمان شہید نے تحریرکیا ہے۔ شمشیر و سناں اس لئے اسم بامسمی ہے اس مجموعہ مضامین میں نشتر کی کاٹ اور ادبی لطافت موجود ہے۔ بصیرت اس کی دوسری صفت ہے جو مضامین کے مطالعہ کا حاصل ہے۔ کیونکہ یہ مضامین نہ صرف ایک قانون داں بلکہ نفیس ادبی ذوق کے حامل ایک درد مند مسلمان نے تحریر کئے ہیں۔ یوں تو ’’شمشیر و سناں‘‘ سیاسی قانونی اور اصلاحی مضامین پر مبنی ہے لیکن اس کا انداز تحریر ادبی ہے۔‘‘
فاضل مصنف کی ایک اور اہم کتاب قانونی مشورے، اخبار ’’سیاست‘‘ میں شائع شدہ سوال و جواب پر مشتمل دستاویز ہے۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے پروفیسر محمد عبدالرزاق فاروقی سابقہ صدر شعبہ اردو، گلبرگہ یونیورسٹی رقمطراز ہیں۔’’ایک اچھا شہری وہ ہوتا ہے جو اپنے ملک کے قانون کا احترام کرے اس کا وفادار رہے اور اس کا پاسبان بھی۔ روزنامہ ’’سیاست‘‘ کے ایڈیٹر جناب زاہد علی خان نے یہ ذمہ داری حیدرآباد کے ایک ممتاز ماہر قانون اور قومی جذبہ رکھنے والی شخصیت محمد عثمان شہید کے سپرد کی ہے۔ عثمان شہید نہ صرف ایک قانون داں ہیں بلکہ وہ ایک صاحب طرز ادیب اور انشاء پرداز بھی ہیں۔ قومی مسائل، خاص طور پر ناانصافیوں کے خلاف ان کے مضامین ’’ضرب کلیمی‘‘ کا اثر رکھتے ہیں۔ یہ شاعر نہیں ہیں لیکن ان کی نثر نگاری میں شاعری کا حسن و جمال نظر آتا ہے۔ بے باکی ان کا طرز حیات ہے اور صداقت شعاری ان کا مقصد حیات ہے۔ انہوں نے اپنے متعدد مضامین میں جس بے باکی، خلوص اور قومی شعور کا اظہار کیا ہے وہ ان کی شخصیت کی پہچان ہے۔‘‘فاضل مصنف کی بے باکی کے لئے یہ شعر پیش کرنا چاہتا ہوں۔
اصولوں پر اگر آنچ آئے تو ٹکرانا ضروری ہے
جو زندہ ہوں تو ،پھر زندہ نظر آنا ضروری ہے
پروفیسر عبدالرزاق فاروقی کسی تعارف کے محتاج نہیں آپ کی سرپرستی اور رہنمائی میں بے شمار طلباء و طالبات نے پی ایچ ڈی کی ہے جن میں آپ کا ایک شاگردڈاکٹر زاہد عرفان تماپوری نے آپ کی سرپرستی میں ’’نواب محمد بہادر یارجنگ ؒ کے فن خطابت پر مقالہ لکھ کر اپنی پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی ہے۔ ڈاکٹر زاہد عرفان تماپوری تعمیر ملت کے سابق صدر غوث خاموشی کے داماد ہوتے ہیں۔ موصوف سے میری شخصی ملاقات ہے۔ ’’ممتاز صحافی جناب زاہد علی خانصاحب مصنف کی کتاب ’’شمشیر و سناں‘‘ کے تعلق سے رقمطراز ہیں…’’شمشیر و سناں میں شامل تمام مضامین سیاست میں شائع ہوچکے ہیں اور قارئین ’’سیاست‘‘ کی نظروں میں توقیر حاصل کرچکے ہیں‘‘مصنف کی کتاب ’’شمشیر و سناں‘‘ کے تعلق سے عزیز آصف علی ایم اے ایس اے ایس ریٹائرڈ انچارج ڈپٹی کمشنر حکومت اے پی راقمطراز ہیں۔

’’محمد عثمان شہید بہترین ادیب اور منفرد لب و لہجہ کی شخصیت کے حامل انسان ہیں۔ محمد عثمان شہید شہر حیدرآباد کے ممتاز و مقبول ایڈوکیٹ ہیں وہ آندھرا پردیش ہائی کورٹ میں ایڈیشنل پبلک پراسیکیوٹر کے اعلیٰ عہدہ پر فائز ہیں اور ممبر آندھرا پردیش لیگل اتھاریٹی کے اعزاز کے بھی حامل ہیں۔ وہ سائنس کے گریجویٹ اور قانون کے پوسٹ گریجویٹ ہیں۔ وسعت علم و تجربہ و دانشوری کی بنیاد پر وہ ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری کے بلاتعمل مستحق ہیں۔ عثمان شہید نے سابق صدر جمہوریہ کے نام دو جامع و بسیط کھلے خطوط لکھے ہیں۔ جو موقر روزنامہ ’’سیاست‘‘ میں شائع ہوچکے ہیں۔ یہ خطوط موصوف کی دلیری، بے باکی، مواخذہ اور اعلیٰ قلم کاری کا نمونہ ہیں ان خطوط میں انہوں نے ملک کے مفادات پر مختلف نوعیت کے حساس و نازک مسائل، مشکلات و بے قاعدگیوں پر زور دیا ہے۔ ادیب کی حیثیت سے عثمان شہید ایک باشعور نثر نگار ہیں اور اعلی ادیبانہ صلاحیتوں سے متصف ہیں۔ ناانصافی اور ظلم کے خلاف بڑی جرأت اور بے باکی سے لکھتے ہیں ۔‘‘سابق ممتاز سینئر جج ای اسمٰعیل یوں رقمطراز ہیں۔ عثمان شہید کی ایک اور کتاب ’’ہبہ‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے ای اسمٰعیل نے کہا کہ یہ کتاب بھی اپنی افادیت اور اہمیت رکھتی ہے۔ عثمان شہید کی کتابوں سے وراثت، شادی بیاہ، ترکہ، طلاق اور اپنے کئی معاشرتی مسائل پر روشنی پڑتی ہے۔

ممتاز ادیب ماہر قانون ضیاء الحق ایڈوکیٹ اور معزز سابق جج اے پی ہائی کورٹ محترم بلال نازکی کے علاوہ پروفیسر احمد اللہ خاں کے جی کنابیرن ایڈوکیٹ اس کتاب کا تنقیدی جائزہ لینے کے بعد کہتے ہیں، ہم یہ لکھنے میں حق بجانب ہیں کہ آج تک قانون ہبہ پر ایسی مسبوط کتاب نہیں لکھی گئی ہے اور اس قانون کی ایسی تفصیلی تشریح (سینکڑوں فیصلوں کے حوالے کے ساتھ) کسی نے بھی نہیں کی ہے۔ اس کتاب میں ہبہ کی تعریف اور اس قانون کے مختلف پہلوؤں پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے۔ جس کی روشنی میں قانون ہبہ کو جائز اور قابل عمل قرار دیتے ہوئے تمام عدالتوں نے متفقہ طور پر تسلیم کیا ہے کہ ایک مسلمان اپنی مملوکہ وہ مقبوضہ منقولہ و غیر منقولہ جائیداد کو ذریعہ ہبہ (زبانی) کسی بھی فرد یا ادارہ کے حق میں منتقل کرسکتا ہے۔ اس کے لئے نہ کسی دستاویز کی ضرورت ہے نہ رجسٹر شدہ مقالہ کی۔ ہمیں فخر ہے کہ حیدرآباد کے ایک سپوت نے یہ عظیم کارنامہ انجام دیا۔ ‘‘مصنف کی کتاب ’’تیر و تفنگ‘‘ پر تبصرہ سے پہلے مصنف کا مکمل تعارف اور عوام میں آپ کی شخصیت اور مقبولیت کا تعارفضروری ہے۔ یوں تو مصنف کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں لیکن میں اپنا یہ فرض سمجھ کر دانشوران ملت ، ماہر قانون حضرات کی نظر میں آپ کی عزت اور توقیر کیا ہے اسی لئے میں نے پچھلی کتب پر تبصروں کا حوالہ دیا ہے۔
فکر و خیال، تجربے یا مشاہدے کے نتیجے میں جو چیز ظہور پذیر ہوتی ہے، وہ بہرحال اس شخص کی معنوی اولاد ہوتی ہے، جس کے تفکر، تخیل، تجربے اور مشاہدے نے اسے وجود بخشا۔ اسی چیز کو شعر و نقد کی زبان میں تخلیق سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ تخلیق اپنے خالق کو بالکل اسی طرح محبوب و عزیز ہوتی ہے، جس طرح کہ اُس کے سلب سے جنم لینے والی اولاد محبوب اور عزیز ہوتی ے۔ کوئی بچہ خواہ شکل و صورت کا کیسا ہی کیوں نہ ہو، اپنے ماں باپ کی نگاہ میں بے حد حسین و محبوب ہوتا ہے۔ وہ اپنے بچے کے بارے میں ایک لفظ بھی سننے کے روادار نہیں ہوتے۔ وہ ہر ملنے جلنے اور آنے جانے والے کے سامنے اپنے لخت جگر کے حسن و خوبی کے گن گانا ضروری سمجھتے ہیں۔ جب کوئی ان کے بچے کی کسی ادا کی تعریف و تحسین کردیتا ہے تو وہ خو ش ہوجاتے ہیں اور اسے اپنا دوست و بہی خواہ تصور کرنے لگتے ہیں۔ یہ بہرحال ایک فطری بات ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے، جو ہمارے اور آپ کے مشاہدے میں آئے دن آتی رہتی ہے۔ اس کے لئے کسی دلیل یا برہان کی ضرورت نہیں ہے۔
بچے کی ولادت کے وقت ماں جس کرب، اضطراب، دکھ اور تکالیف و شدائد سے دوچار ہوتی ہے، اس کا احساس صرف اسی عورت کو ہوسکتا ہے، جسے خود ان حالات سے دوچار ہونا پڑا ہو۔ کسی کنواری یا بانجھ عورت کو قطعی نہیں ہوسکتا۔ لیکن اس لذت و مسرت کو بھی صرف ماں ہی محسوس کرسکتی ہے، جو ولادت کے وقت کی تکلیف اور شدت اضطراب میں پوشیدہ ہوتی ہے۔ایک شاعر یا ادیب اپنے فن پارے کو بالکل اسی طرح محبوب و عزیز رکھتا ہے، جس طرح کہ ماں اپنی حقیقی اولاد کو عزیز و محبوب رکھتی ہے۔ وہ اس کی تعریف و تحسین پر جھوم اٹھتا ہے۔ فاضل مصنف کے لئے میں یہاں یہ شعری پیش کرنا چاہتا ہوں۔
اردو کی ترقی و ترویج میں اخبار ’’سیاست‘‘ کا حصہ
اردو کی مانگ سے ’’دہلی کی افشاں‘‘ اس کی جبیں سے ’’لکھنؤ کا ٹیکہ‘‘ اس کے ہاتھوں سے ’’بہار کی مہندی‘‘ اس کی کلائیوں سے ’’بنگال کی چوڑیاں‘‘ اس کے لبوں سے ’’بھوپال کی سرخی‘‘ اس کے بدن سے ’’حیدرآباد کا حسین پیرہن‘‘ غرض سب کچھ نوچ لیا گیا تھا۔ اس نے بالآخر ایک ’’بیوہ‘‘ کی طرح دکن کے ویرانوں میں پناہ لی۔

ان لمحات میں ’’سیاست‘‘ نے مادر مہربان اردو کی جس انداز میں پذیرائی کی اس کی سرپرستی کی، اس کے جسم ناتواں میں نئی روح پھونکی۔ اس کے شجر بے برگ و بار کو سرسبز و شاداب کیا، جس طرح اس کی دوبارہ شیرازہ بندی کی۔ اس کے بھیگے ہوئے پروں کو دوبارہ پرواز کرنے کی صلاحیت عطا کی وہ تاریخ ادب اردو کا روشن باب بن گئی۔
ایک طرف ریاستوں کی لسانی بنیادوں پر تشکیل، دوسری طرح اردو کی مستحقہ مقام سے محرومی ، تیسری طرف آندھرا پردیش کے قیام کے بعد اس ریاست میں اردو کے ساتھ ناانصافی، یہ وہ حالات تھے جبکہ 1958ء میں انجمن ترقی اردو آندھرا پردیش نے ایک کانفرنس منعقد کی اس کانفرنس میں اس وقت کے چیف منسٹر مسٹر ڈی سنجیویا نے اردو کے بارے میں سرکاری اعلانات کرتے ہوئے اس کو ریاست کی دوسری سرکاری زبان کا درجہ دینے کا اعلان کیا۔ ایک سرکاری زبان قانون مدون کیا گیا جو ملک بھر میں اپنی نوعیت کا واحد قانون تھا۔ ایسے قانون کی تدوین اور اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دلانے میں ادارہ سیاست اور اس کے بانی محترم عابد علی خاں مرحوم نے جو مساعی کی وہ ناقابل فراموش ہے۔مذہب اسلام اور جشن آزادی کے تعلق سے فاضل مصنف نے مختلف کتابوں اور مختلف ممالک میں آزادانہ جنسی اختلاط کی وجہ سے معاشرہ میں جو غلاظت پنپ رہی ہے، اس پر تفصیل سے بحث کی گئی ہے۔ کتاب کا آخری باب افسانے کے عنوان سے ہے جس میں 6 مضامین شامل ہیں جن میں دلہن، پاشاہ، پھسلن، ترقی، ساسوماں کے عنوان سے مضامین لکھے گئے ہیں۔

ان مضامین میں ’’پھسلن‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون حقیقت پر مبنی اور بڑا سبق آموز ہے کہ کس طرح ایک شریف خاندان کا فرد عورت کے حسن و جمال کے فریب میں آکر اس کے حسن سے متاثر ہو کر اس سے جنسی تعلق قائم کرتا ہے جو ایک ایڈز کی مریضہ ہے اور وہ اس بیماری کا زہر سماج کے آوارہ مزاج مردوں میں منتقل کررہی ہے اور اس مضمون کا اختتام کچھ اس طرح ہے۔ ’’میں زور زور سے چیخیں مار کر روتا ہوں اوراپنا سر پتھر سے ٹکراتا ہوں، لہولہان ہوجاتا ہوں۔ اپنی بیوی کی موہنی صورت یاد کرکے اپنی گڑیا سی بیٹی کو یاد کرکے اپنے پیارے بیٹے کو یاد کرکے لیکن میں کیا کروں۔ ان کے پاس کیسے لوٹ کر جاؤں،کیسے اس اُجڑے دیار کو آباد کروں، میں ایڈز کا مریض ہوں۔‘‘

ادیب کی حیثیت سے عثمان شہید ایک باشعورنثر نگار ہیں اور اعلیٰ ادیبانہ صلاحیتوں سے متصف ہیں۔ ناانصافی اور ظلم کے خلاف لکھتے ہیں۔ ان کے مضامین فکر انگریز اور ترقی پسندانہ ہیں۔ ان کی نگارشات کو قاری فہم و ادراک سے پڑھنے پر مجبور ہے۔ ان کے مضامین علمی، فکری، سیاسی، مذہبی، اخلاقی اور اصلاحی امور و موضوعات پر مبنی ہیں۔ تحریروں میں عوام کے مفاد کا تحفظ ہے۔ زبان جذباتی، شیریں اور جاندار ہوتی ہے۔ ان کے قلم میں جادو اور اسلوب میں عجیب طاقت ہے۔ تحریروں میں بے خوفی حیرت انگیز ہے۔ انسان کے داخلی جذبات اور ملک و قوم کی زبوں حالی سے بخوبی واقف ہیں۔ فن اور موضوع کا امتزاج بڑی خوبی سے کرتے ہیں۔ نگارشات میں بعض اوقات جذباتیت اور سنجیدگی کی ایسی آمیزش ملتی ہے کہ پڑھنے والا نہ صرف محظوظ ہوتا ہے بلکہ مسئلہ کی اہمیت سے متفکر بھی ہوجاتا ہے ان کے مضامین اور نگارشات زیادہ تر موقر روزنامہ سیاست کے صفحات کی زینت بن چکے ہیں۔ مسائل کو فن کارانہ اور عالمانہ قوت سے پیش کرتے ہیں۔ وہ زندگی کے گہرے ثقافتی شعور کے حامل ہیں۔ دنیائے ادب میں وہی شخص معزز و ممتاز ہوسکتا ہے جس میں اعلیٰ تخلیقی استعداد اور سلیقہ موجود ہو۔ وہ ملک کی تاریخ میں اردو کی عظمت اور وقار کا تحفظ کررہے ہیں۔ اردو ہر دور میں اتحاد و اشتراک کی علامت بن رہی ہے۔ اور اس نے انسان دوستی کی طرف کھینچنے کا پرزور وسیلہ کا کام بھی کیا ہے۔ قانونی امور میں ڈوبے رہنے کے باوجود عثمان شہید علم و ادب کے لئے وقت ضرور نکال لیتے ہیں۔
آخر میں اردو کے قارئین سے گذارش کرتا ہوں کہ فاضل مصنف کی کتاب ’’تیر و تفنگ‘‘ کا مطالعہ کریں اور اپنے ذوق کی تسکین اور معلومات میں اضافہ کریں۔ مذکورہ کتاب حسامی بک ڈپو اور ہدی بک ڈپو سے حاصل کی جاسکتی ہے یا پھر مصنف کا آفس رحمن پلازا، عقب تاج محل ہوٹل عابڈس سے حاصل کی جاسکتی ہے۔