میرا کالم سید امتیاز الدین
ہمارا ملک بھی دنیا سے نرالا ملک ہے ۔ یہاں اتنے مذاہب اور فرقوں کے لوگ بستے ہیں ، اتنی زبانوں کے بولنے والے آباد ہیں کہ ان کی گنتی مشکل ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ایک تہوار کی گہماگہمی ابھی ختم نہیں ہوتی کہ دوسرا تہوار آجاتا ہے ۔ ابھی رمضان کا مہینہ ختم ہوا تھا کہ بونال کے دن شروع ہوگئے ۔ بونال بھی مرکزی نوعیت کا الگ ہوتا ہے ۔ پھر محلوں کے بونال الگ ہوتے ہیں ۔ اب کی بار بقرعید اور گنیش فیسٹول تقریباً ساتھ ساتھ آئے ۔ دیکھا جائے تو مسلمانوں کی دو ہی عیدیں ہوتی ہیں ۔ عیدالفطر اور عیدالاضحی،لیکن دونوں عیدوں کا مزاج بالکل الگ ہے ۔ رمضان کی تیاریاں پورے ایک مہینہ چلتی ہیں بلکہ آج کل دور اندیش لوگ کپڑوں کی خریدی اور سلائی کا کام رمضان سے پہلے ہی شروع کردیتے ہیں ۔ ہمارے بچپن میں رمضان کے موقع پر دودھ کی فراہمی ایک مسئلہ ہوا کرتا تھا ۔ آج کل دودھ کی فراوانی ہے ۔ بقرعید کی تیاری دوسری نوعیت کی ہوتی ہے ۔ ہر سال عیدالاضحی سے پندرہ دن پہلے افواہیں گشت کرنے لگتی ہیں کہ اس سال بکرے بہت کم تعداد میں مارکٹ میں آئیں گے اور بکرا کم سے کم دس ہزار میں ملے گا ۔ ہم ہمیشہ ایسی باتوں کو سنی ان سنی کردیتے ہیں ۔ اگرچہ کہ ہمارا تجربہ اس میدان میں صفر کے برابر ہے ،لیکن ہمارا خیال ہے کہ دنیا کی ہر چیز کی قیمت کا تعین کیا جاسکتا ہے ، لیکن بقرعید کے بکروں کی قیمت کا تعین نہیں کیاجاسکتا ۔ کسی جگہ بکروں کے دام کچھ ہوتے ہیں اور کسی جگہ کچھ اور ۔ صبح کے وقت کچھ ہوتے ہیں ، دوپہر میں کچھ اور رات میں کچھ ۔ ہمارے ایک دوست اپنے آپ کو بہت عقلمند سمجھتے تھے ۔
ان کا خیال تھا کہ عید سے ایک دن پہلے بکرے مہنگے ملتے ہیں اس لئے وہ عید کے دن قربانی نہیں دیتے تھے ۔ عید کے دن وہ صرف عزیز و اقارب اور دوست احباب کو مبارکباد دیتے ہوئے پھرتے تھے ۔اسی بہانے وہ بکروں کی رائج الوقت قیمت ، قصابوں کا محنتانہ ، رکشاؤں کے کرائے ، بکروں کا چارہ جیسی معلومات کا مارکٹ سروے کرتے تھے ۔ دوسرے دن بکرا خریدنے کے لئے نکلتے اور ایک دن پہلے حاصل شدہ معلومات سے لبریز دماغ کی مدد سے بکرا خریدتے اور اگلی بقرعید تک اپنی دانائی اور فہم و فراست کا ڈنکا پیٹتے رہتے ۔ ایک سال اتفاق سے عید کے دوسرے دن بکروں کی قیمتیں پتہ نہیں کیوں آسمان سے باتیں کرنے لگیں ۔ اس کے بعد ہمارے دوست نے توبہ کرلی اور مارکٹ سروے کا کام چھوڑ دیا ۔ اسی طرح ہمارے ایک اور دوست اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ عمدہ بکرے کا انتخاب صرف وہی کرسکتے ہیں ۔ وہ ہمیشہ دن کے وقت بکروں کی خریدی کے لئے نکلتے ۔ پہلے سب سے زیادہ صحت مند بکرے کو ٹٹولتے پھر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیر تک دیکھتے رہتے ۔ یہاں تک کہ بکرا شرما کر آنکھیں جھکالیتا ۔ بکرے کے سینگوں کا بغور مشاہدہ کرنے کے بعد اس کے کانوں کو دیر تک مسلتے رہتے ۔ اس کے دانت گنتے ۔ غرض زفرق تابہ قدم ہر کجا کہ می نگرم کی منزل سے گزرنے کے بعد بکروں کی تاجر سے اس دل شکن پیرائے میں گفتگو کرتے کہ بیچنے والا پسپا ہوجاتا اور ان کو جلد سے جلد رخصت کردینے کی کوشش کرتا تاکہ ان کی باتیں دوسری گاہک نہ سن لیں ۔ لیکن ہمارے ایسے مشّاق دوست سے بھی ایک بار چوک ہوگئی ۔ ہم آپ کو یہ بتانا بھول گئے کہ ہمارے دوست کچھ پستہ قد بھی تھے ۔ جب وہ خوب سے خوب تر کی جستجو میں بکروں کے جھنڈ میں گھس جاتے تو ان کو تلاش کرنا مشکل ہوجاتا ۔ ایک بار وہ بکروں کے ہجوم میں گھرے ہوئے تھے کہ کسی نالائق شخص نے ایک بکرے کی ٹانگ کھینچی ۔ بدقسمتی سے اس بکرے کی ٹانگ کے ساتھ ہمارے دوست کی ٹانگ کا بڑا حصہ بھی اس شخص کے ہاتھ میں آگیا ۔ ہمارے دوست بری طرح گرے اور ان کو کافی چوٹیں آئیں ۔ اس طرح جو کفایت خریدی میں ہوئی تھی وہ مرہم پٹی میں گئی ۔
اب کی بقرعید میں ہم کو بھی اچھا سبق ملا ۔ ہوا یوں کہ ہر سال ہمارا ایک مخصوص قصاب عید کی نماز کے ساتھ ہی آجایا کرتا تھا ۔ لیکن اس کے ساتھ قباحت یہ تھی کہ وہ ہم سے کٹائی کے پیسے بہت لیتا تھا اور گوشت بھی کافی مقدار میں لے کر چلا جاتا تھا ۔ اب کی بار بھی اس نے آتے ہی کہا ’’میں فی بکرا بارہ سو روپے لوں گا‘‘ ۔ ہم نے کہا ’’ہم چھ سو دیں گے‘‘ ۔ یہ سننا ہی تھا کہ وہ الٹے پاؤں لوٹ گیا ۔ اب ہمارے لئے مشکل یہ ہوگئی کہ قصاب کہیں نہیں مل رہے تھے ۔ ہم گھر گھر کے چکر کاٹ رہے تھے اور غیر ضروری طورپر گلے مل مل کر لوگوں سے عاجزی کررہے تھے کہ براہ کرم اپنا کام ہونے کے بعد اپنے قصائی کی خدمات مستعار دیں ۔ کوئی دو گھنٹے کے بعد ایک جگہ کامیابی ملی ۔ وہ بھی اس طرح کہ قصابوں کا ایک اعلی سطحی وفد ہمارے غریب خانے پر آیا جو تین افراد پر مشتمل تھا ۔ ایک صاحب صرف چمڑا اتارتے تھے ، دوسرے صاحب پیٹ کا سامان نکالتے تھے اور تیسرے گوشت کاٹتے تھے ۔ ہم نے ایسا سائنٹیفک عملِ جراحی اب تک نہیں دیکھا تھا ۔ جب ہم اس جھنجھٹ سے فارغ ہوئے تو جمعے کی اذان ہورہی تھی ۔ بہرحال ہم نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ دیر سے سہی کام تو ہوگیا ۔
یوں تو عید ہر سال آتی ہے لیکن اس سال ہم نے بعض باتوں پر غور کیا تو ہم کو یک گونہ مسرت ہوئی ۔ مثال کے طور پر ہماری حکومت روزگار کے مواقع فراہم کرنے کی کوشش میں رہتی ہے ۔ عید بھی روزگار کے مواقع فراہم کرتی ہے ۔ بقرعید کو ہی لیجئے ۔ بکروں کا کاروبار روزگار کا ایک موقع ہے ۔ وہیں بعض بچے گھاس کا بیوپار کرلیتے ہیں ۔ بکرا کاٹنے والے اچھی خاصی کمائی کرلیتے ہیں ۔ سہ پہر کے قریب گلی کوچوں میں لوگ چولھے لگا کر بیٹھ جاتے ہیں ۔ یہ لوگ سر اور پائے جلا کردیتے ہیں ۔ ان سے ذرا دور انہی سوختہ ساماں سر اور پایوں کو چھیلنے والے بیٹھتے ہیں اور چند گھنٹوں کی محنت کے منہ مانگے دام پاتے ہیں ۔ چرم قربانی کسی نیک مقصد میں کام آجاتا ہے ۔
اس عید پر خوشی اور اطمینان کی ایک بات اور ہوئی ۔ جیسا کہ ہم نے ابتداء میں لکھا اور آپ بھی خوب جانتے ہیں کہ اس بار بقرعید اور گنیش تہوار ساتھ ساتھ آئے ۔ تہوار ہو یا عید خوشی کے مواقع ہیں اور سب کو مل کر منانا چاہئے ۔ ایک دوسرے کا لحاظ اور احترام کرنا چاہئے ۔ بسا اوقات غیر ضروری خدشات پھیلائے جاتے ہیں ۔ اب کی بار ہم نے اخبار میں پڑھا کہ بعض مسلم نوجوانوں نے گنیش جلوس میں امن و امان کی برقراری میں تعاون کیا اور اسی طرح بعض ہندو نوجوانوں نے عید کے موقع پر صفائی ستھرائی میں مدد دی ۔ بالاپور کا مرکزی جلوس دیر سے شروع ہوا تاکہ مکہ مسجد پہنچتے پہنچتے ظہر کی نماز ہوجائے ۔ اس طرح عید اور تہوار نہایت سکون سے گزرے ۔ عوام کے تعاون کے ساتھ ساتھ پولیس کا انتظام بھی اچھا رہا ۔ امن پسند شہریوں کو اور کیا چاہئے ۔
اس سال سب سے زیادہ تکلیف دہ سانحے مکہ مکرمہ میں پیش آئے ۔ جن پر نہ صرف سارا عالم اسلام بلکہ عالم انسانیت غم زدہ ہے ۔ کرین کا حادثہ اور رمی جمار کا سانحہ نہایت دل گداز ہے ۔ ہم شہدا کے لئے دعائے مغفرت کرتے ہیں اور زخمیوں کی عاجلانہ صحت یابی کے لئے دعاگو ہیں ۔ ہمیں امید ہے کہ سعودی حکومت حالات کا پورا جائزہ لے گی اور ایسے اقدامات کرے گی کہ پھر کبھی ایسے سانحات نہ ہونے پائیں ۔
قصہ مختصر عید ہو یا تہوار ، آج کل ماضی سے کہیں زیادہ شاندار پیمانے پر منائے جاتے ہیں ۔ بعض چیزیں ختم بھی ہوگئی ہیں ۔ پہلے عید کارڈ بہت آتے تھے ۔ اب دکھائی نہیں دیتے ۔ ان کی جگہ ایس ایم ایس اور ای میل نے لے لی ہے ۔ عید کارڈ جس کا رواج ختم ہونے کا ایک فائدہ تو یہ ہوا کہ ہم بے تکی تحریروں اور ناموزوں اور بے موقع اشعار پڑھنے سے محفوظ ہوگئے ۔ ہمارے بچپن میں ڈاکئے عید کے دن انعام کے لئے آتے تھے اور اس مقصد کے لئے کبھی وہ ایک دن پہلے کی ڈاک روک لیتے تھے ۔ حتی کہ کبھی منی آرڈر کی رسید یا رجسٹری کی وصولیابی کا کاغذ عید کی مبارکباد کے طور پر پیش کرتے تھے ۔ اب ماشاء اللہ تنخواہیں اتنی بڑھ گئی ہیں کہ انھیں چھوٹے موٹے انعام کی پروا نہیں رہی ۔ البتہ ہر گھر میں فریج (بلکہ بہت سے گھروں میں ایک سے زیادہ) کا ہونا بھی ایک مصیبت ہے ۔ بہت سی سلیقہ مند بیبیاں اس بقرعید کا گوشت اگلی بقرعید تک چلاتے رہنے کی فکر میں معلوم ہوتی ہیں ۔ ہمارے ایک عزیز نے اپنے بیٹے کی شادی اس طرح مقرر کی تھی کہ ولیمہ بقرعید کے دو تین دن بعد آجائے ۔ خود ہم اپنا یہ باسی کالم بقرعید کے کم و بیش دس دن بعد اپنے یخ بستہ ذہن سے نکال کر آپ کی خدمت میں پیش کررہے ہیں ۔
ایک بات اور بھی ہم عرض کرنا چاہیں گے ۔ قربانی کا گوشت عام طور پر لوگ عزیز و اقارب اور قریبی دوستوں کے پاس بھیجا کرتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ادھر سے گوشت گیا اور ادھر سے آگیا ۔ نتیجہ یہ کہ آپ کا خزانہ جوں کا توں رہا بلکہ ہم کبھی کم بھیجتے ہیں دوسرے کی طرف سے زیادہ مقدار میں آجاتا ہے ۔ ہمارا خیال ہے کہ ہمیں ان لوگوں کو فوقیت دینی چاہئے جن کے گھر قربانی نہیں ہوئی ۔ اسی طرح ایسے احباب کے پاس ضرور بھیجنا چاہئے جو نان ویجیٹرین ہیں تاکہ ان کو اس حسن سلوک سے خوشی ہو ۔ خود ہمارے پاس دیوالی میں مٹھائی آتی ہے اور کرسمس کے موقع پر کیک اور بعض گھر میں تیار کردہ میٹھی چیزیں جیسے روز کوکری ، کلکل وغیرہ ۔ ایسی چیزوں کے تبادلے ہی سے ہمارا ملک عیدوں اور تہواروں کا ملک کہلاتا ہے ۔
ہے رنگ لالہ و گل و نسریں جدا جدا
ہر رنگ میں بہار کا اثبات چاہئے