تھپڑ کا قندِ مکرر

میرا کالم سید امتیاز الدین
ہمارے ملک میں عجیب عجیب واقعات ہورہے ہیں اور اس تیزی سے ہورہے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے ۔ عام آدمی پارٹی کے کنوینر اروند کجریوال ہمارے سیاسی افق پر بالکل عجیب طریقے سے نمودار ہوئے ۔ ان کو دہلی کے اسمبلی انتخابات میں ایسی کامیابی ملی کہ ان کے مخالفین کے ہوش اڑگئے ، لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کو حکومت چلانے سے زیادہ حکومت گرانے سے دلچسپی ہے ۔ پہلے تو الیکشن میں کامیابی کے ذریعے انھوں نے کانگریس کو گرایا پھر صرف انچاس دن حکومت کرنے کے بعد اپنی حکومت کو گرادیا ۔

اروند کجریوال نے چار دن میں دو مرتبہ تھپڑ کھا کر ایک عالمی ریکارڈ قائم کیا ہے ۔ 4 اپریل کو ایک 19 سالہ لڑکے نے جنوبی دہلی میں ان پر حملہ کیا تھا یعنی طمانچہ رسید کیا تھا ۔ 8 اپریل کو اس لڑکے سے دگنی عمر یعنی ایک 38 سالہ آٹو ڈرائیور للی نے دہلی کے سلطان پوری علاقے میں پہلے کجریوال صاحب کی گلپوشی کی اور اس کے بعد تھپڑ مارا ۔ اگرچہ طمانچہ لگانا نہایت خراب حرکت ہے ، لیکن اس قدر کم وقفے میں یعنی صرف چار دن کے اندر دوسرا طمانچہ اور بھی بُری بات ہے ۔

سنا ہے کہ کجریوال صاحب تھپڑ کھانے کے بعد سیدھے مہاتما گاندھی کی سمادھی راج گھاٹ پہنچے اور دھرنے پر بیٹھ گئے جس کی انھیں پہلے سے ہی کافی مشق ہے ۔ ان کے حامیوں نے ان پر حملے کو گاندھی جی کی شہادت کی طرح سنگین معاملہ قرار دیا ۔ کجریوال صاحب پر پچھلے ایک مہینے میں جملہ پانچ حملے ہوچکے ہیں ۔ انھوں نے اپنے حملہ آوروں کو کھلا دعوت نامہ دے دیا ہے کہ ان کے مخالفین وقت اور مقام کا قبل از قبل تعین کردیں تو وہ مقررہ مقام پر پہنچ جائیں گے تاکہ حملہ کرنے والے ان کے ساتھ جی بھر کے دست درازی کرلیں۔ ’’سر تسلیم خم جو مزاج یار میں آئے‘‘ ۔
کجریوال صاحب کا کہنا ہے کہ ان پر حملے اس لئے بھی ہورہے ہیں کہ وہ وارانسی سے نریندر مودی کا مقابلہ کررہے ہیں ۔ ادھر بی جے پی کا کہنا ہے کہ کجریوال اپنے اوپر یہ حملے خود کروارہے ہیں تاکہ شہرت اور ہمدردی ملے ۔

ہمارا خیال ہے کہ آج کل سب سے زیادہ خوش نصیب لوگ وہ ہیں جو الیکشن لڑنے کی بجائے اپنے گھروں میں بیٹھ کر ٹی وی دیکھ رہے ہیں ۔ ویسے بھی ہمارا ملک ہو یا دنیا کا کوئی حصہ اگر کوئی نازیبا مثال قائم ہوتی ہے تو ہوتی ہی چلی جاتی ہے ۔ امریکی پریسیڈنٹ پر کسی نے جوتا پھینکا تو دنیا کے مختلف حصوں میں جوتے پھینکنے کا رواج ہی پڑگیا ۔ اب چار دن میں دو مرتبہ ایک ہی رہ نما پر دو تھپڑوں کا پڑنا بھی کچھ اچھا شگون نہیں ہے ۔ ہمارے انتخابی امیدوار یوں بھی پھول بہت شوق سے پہنتے ہیں ۔ اب ان امیدواروں کو چاہئے کہ پھولوں کا ہار پہنتے ہی تیزی سے دور ہٹ جائیں یا پھر اپنے دونوں گالوں پر ہاتھ رکھ لیں ۔ ہم نے سنا ہے کہ جب ہمارے سیاسی لیڈر انتخابی جلسوں کے لئے نکلتے ہیں تو آج کل سلیقہ مند بیویاں احتیاطاً پوچھ لیتی ہیں کہ آپ کھانا گھر پر کھائیں گے یا جلسے سے تھپڑ کھا کر آئیں گے ۔ کجریوال صاحب حفاظتی دستہ کو ساتھ رکھنے کو بالکل پسند نہیں کرتے اور اپنے آپ کو عوام کا حصہ سمجھتے ہیں ۔ نام بھی انھوں نے عام آدمی پارٹی رکھا ہے ۔ اب جو عام آدمی کرتا ہے وہی ان کے ساتھ بھی ہورہا ہے ۔

ہم موصوف کے اس خیال سے بالکل متفق نہیں ہیں ۔ ہم نے اپنے بچپن میں ایک واقعہ سنا تھا ۔ سابق ریاست حیدرآباد میں صدراعظم کا عہدہ ہوتا تھا جو ایک لحاظ سے ریاست کے وزیراعظم کے برابر ہوتا تھا ۔ اس عہدے پر یو پی کے ایک بڑے نواب فائز تھے جن کا نام احمد سعید خاں چھتاری تھا اور وہ نواب آف چھتاری کہلاتے تھے ۔ ان کی سرکاری قیام گاہ شاید وہی تھی جسے آج ہم راج بھون کہتے ہیں ۔ اس کا نام شاہ منزل تھا ۔ پتہ نہیں کیا ہوا کہ ایک دن کچھ لوگ احتجاج کرتے ہوئے ان کی قیامگاہ میں گھس گئے اور ایک شخص نے ان کی مونچھیں کھینچ دیں ۔ نواب آف چھتاری کی مونچھیں بڑی بڑی تھیں جنھیں وہ ہمیشہ تاؤ دے کررکھتے تھے اس واقعے کو انھوں نے اتنی بڑی ہتک سمجھا کہ صدارت عظمی چھوڑ کر اپنے وطن واپس ہوگئے ۔ آج کل کسی کو عزت کی پروا ہی نہیں ہے ۔ بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا والا قصہ ہے ۔ آج بھی کسی بڑے آدمی کا ذکر ہوتا ہے تو اس کے بعض جاننے والے کہتے ہیں کہ وہ کالج یا یونیورسٹی میں میرے ہم جماعت تھے یا ایک زمانے میں ہم پڑوسی تھے ۔ اب جوتیوں میں ایسی دال بٹ رہی ہے کہ کچھ دنوں بعد کسی ذی اثر شخصیت کا تذکرہ ہو تو شاید کوئی کہنے لگے ’’ان کو میں بہت قریب سے جانتا ہوں ۔ ایک مرتبہ بھرے جلسے میں میں نے ان کے طمانچہ رسید کیا تھا جس سے انکا چشمہ ٹوٹ گیا تھا اور تھوڑی دیر تک ان کو کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا‘‘ یا پھر ’’فلاں صاحب کو میں نے لات ماردی تھی جس کے زیر اثر وہ ابھی تک لنگڑا کر چلتے ہیں اور میرے حق میں دعائے خیر کرتے ہیں‘‘ ۔

یہ زمانہ جمہوریت کا ہے ۔ ہم بھی جمہوریت کے پروردہ ہیں اور جمہوریت کی نہایت قدر کرتے ہیں ۔ آمریت سے ہم کو نفرت ہے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ حاکم کا دبدبہ ہونا چاہئے ۔ اگر حاکم دھکے کھاتے پھررہا ہو تو پھر حکومت کہاں باقی رہے گی ۔ روس کے ڈکٹیٹر اسٹالن کا نام سب کو یاد ہے ۔ اس کے زمانے میں روس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہاں ہر چیز آہنی پردے کے پیچھے چھپی ہوئی ہے ۔ جب اسٹالن کے بعد خروشچیف اس کی جگہ آئے تو انھوں نے جی کھول کر اس کی برائیاں کیں ۔ ایک مرتبہ لندن کے کسی جلسے میں خروشچیف اسٹالن کے ظلم و ستم کی داستانیں سنارہے تھے ۔ ان کے پاس کسی نے ایک چٹھی بھیجی جس پر لکھا تھا ’جب اسٹالن اتنے ستم ڈھارہا تھا تو آپ کیا کررہے تھے‘ ۔ اس خروشچیف نے جلسہ میں چٹھی پڑھ کر سنائی اور کہا ’’میں اس کا جواب دوں گا لیکن جن صاحب نے یہ چٹھی بھیجی ہے ذرا اپنی نشست سے کھڑے ہوں تاکہ میں انھیں براہ راست جواب دوں‘‘ ۔ کوئی بھی کھڑا نہیں ہوا ۔ خروشچیف نے مسکراکر کہا ’’اس وقت میں وہی کررہا تھا جو میرے دوست اب کررہے ہیں‘‘ ۔

بہرحال دنیا کے کاروبار اسی وقت ٹھیک ڈھنگ سے چلتے ہیں جب ہر معاملہ میں ایک حد ادب قائم رہے ۔ ماں باپ ضعیف ہوجاتے ہیں لیکن جب غصہ آتا ہے تو اپنی اولاد کو نہایت سختی سے ڈانٹتے ہیں ۔ سعادت مند اولاد سرجھکا کر ان کی بات سنتی ہے ۔ کلاس میں استاد کمزور اور معمر کیوں نہ ہو کسی طاقت ور طالب علم کوکلاس سے باہر ہوجانے کو کہتا ہے تو طالب علم خواہی نخواہی کلاس کے باہر ہوجاتا ہے ۔ دنیا میں وہی ملک مستحکم ہوتے ہیں جہاں عدلیہ کا احترام ہو ۔
آج کل سیاست کا معیار اتنا گھٹیا ہوگیا ہے کہ دوسروں پر کیچڑ اچھالنا سنگ باری کرنا ، گندے انڈے یا ٹماٹر پھینکنا کوئی بات ہی نہیں رہی ۔ آج کل وہ تقریر تقریر ہی نہیں رہی جو زہریلی نہ ہو ۔ کچھ دن ہوئے ہم نے ایک کارٹون دیکھا تھا جس میں ایک صاحب فرمارہے تھے ’’میں فلاں کی بوٹی بوٹی الگ کردوں گا فلاں کا قیمہ بنادوں گا‘‘ وغیرہ وغیرہ ۔اسٹیج پر بیٹھے ہوئے ایک صاحب دوسرے سے پوچھ رہے تھے کہ اس قصائی کو ٹکٹ کس نے دیا ۔ سب جانتے ہیں کہ الیکشن کا ضابطۂ اخلاق کیا ہے ، لیکن جس کو جو کہنا ہو کہہ گزرتا ہے ۔ کارروائی ہوتی ہے لیکن اس کا کوئی خاص نتیجہ برآمد نہیں ہوتا ۔

کجریوال صاحب سے ہم کو نہایت ہمدردی ہے ۔ سچی بات تو یہ ہے کہ کجریوال صاحب کی صحت اور خود ہمارے وطن عزیز کی صحت بہت دنوں سے ٹھیک نہیں چل رہی ہے ۔ ملک مہنگائی کی لپیٹ میں ہے اور کجریوال صاحب بھی کچھ نہ کچھ لپیٹے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔ ہم نے اب تک ان کو صاف طور پر کبھی دیکھا ہی نہیں تھا ۔ حال میں انھوں نے شاید گنگا میں اشنان کیا تھا تو وہ ندی میں صرف ایک مختصر سی ’چڈی‘ میں دکھائی دیئے ۔ چونکہ ہم نے انھیں اتنے مختصر اور جامع لباس میں اب تک دیکھا ہی نہیں تھا اس لئے ہم کو انھیں پہچاننے میں دشواری پیش آئی ۔ چونکہ یہ تصویر دونوں طمانچوں سے پہلے کی تھی اس لئے موصوف کافی ہشاش بشاش دکھائی دے رہے تھے ۔

وارانسی سے کون جیتے گا یہ تو الیکشن کا نتیجہ ہی بتائے گا ، لیکن کجریوال نے جو کہا تھا عملاً کردکھایا۔ جہاں تک ہماری ناقص معلومات کا تعلق ہے کجریوال صرف وارانسی سے مقابلہ کررہے ہیں ۔ اس کے برخلاف مودی جی کامیابی کو یقینی بنانے کے لئے دو جگہوں سے قسمت آزمائی کررہے ہیں ۔ ایک طرف تو دو جگہوں سے مقابلہ کرنے میں خود اعتمادی کی کمی ظاہر ہوتی ہے دوسری طرف وہ اپنے آپ کو ابھی سے ملک کا وزیراعظم سمجھ رہے ہیں اور اپنے اساتذہ کو گھر کا راستہ دکھلادیا ہے ۔

ابھی الیکشن کا یہ شور شرابہ تقریباً ایک مہینہ اور چلے گا ۔ نتیجہ کیا نکلے گا نتیجوں کے بعد کیا ہوگا یہ کوئی نہیں جانتا ۔ ہم اپنے اہل وطن سے صرف اتنا کہنا چاہتے ہیں کہ گفتار میں ہو یا کردار میں ، تہذیب اور اخلاق کا دامن تھامے ریئے ۔ اگر آپ کے دل میں صرف خدمت کا جذبہ ہے تو ’تم ہٹو تاکہ میں بیٹھوں‘ جیسا رویہ ہرگز نہیں ہونا چاہئے ۔