تکثیری سماج کے نمائندہ شاعر حضرت امیر خسرو

پروفیسر مجید بیدار
ہندوستان کی سرزمین میں مسلمانوںکی آمد سے قبل سادھوؤں اور سنتوں کی تبلیغ کا سلسلہ جاری تھا جو گاؤں گاؤں اور قریہ قریہ گھومتے پھرتے ہوئے خدا کی وحدانیت کی تعلیم عام کرنے کا فریضہ انجام دیتے تھے۔ ایسے سادھوؤں اور سنتوں میں ناتھ پنتھی سادھوؤں کی تعداد زیادہ تھی ۔ ان سادھوؤں اور سنتوں کی سرزمین میں جب اسلام کی تعلیمات سے وابستہ صوفیہ کرام اور بزرگان دین کا گزر ہوا تو ہندوستان جیسا عظیم ملک تکثیری سماج کا حصہ بنتا گیا ۔ اس ملک میں مسلمانوں کی آمد سے قبل تکثیری سماج کے رجحان کا کوئی ثبوت موجود نہیں تھا ۔ ہندوستان میں ویدک دھرم کے توسط سے چار ذاتوں کے نظام اور وحدانیت کو ضرور فروغ حاصل ہوا تھالیکن انسانوں میں ذات پات ، بھید بھاؤ اور رنگ و نسل کے علاوہ اعلیٰ و ادنیٰ کی بنیاد پر تفریق عروج پر تھی ۔ یہ تفریق برہمن ، دیش ، چھتری اور شودر جیسی ذاتوں کی وجہ سے نمودار ہوچکی تھی ۔ طبقاتی کشمکش اور ذات پات کے فرق کو مٹانے کا مذہبی اور سماجی مزاج رکھنے والی باہر سے ہندوستان میں داخل ہونے والی قوم مسلمانوں کی تھی۔ جنہوں نے اسلامی تعلیمات اور اس کے عقائد کے ذریعہ انسانوں میں اتحاد اور رنگ و نسل کے فرق کے خاتمہ پر توجہ دی ۔ اسی لئے سرزمین ہندوستان میں تکثیری سماج کی بنیاد رکھنے والے طبقے کی حیثیت سے مسلم صوفیہ کرام، بزرگان دین اور مذہب پسند شعراء کے کارناموں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

حضرت امیر خسروؒ نے ہندوستان کی سرزمین پر سب سے پہلے تکثیری سماج کے ورثے کو شعری اظہار کا ذریعہ بنایا، جس کا ثبوت حضرت امیر خسروؒ کی پہیلیوں ، کہہ مکرنیوں، انمیلیوں اور دو سخنوں میں ملتا ہے۔ حضرت امیر خسروؒ کے پیر بھائی حضرت امیر حسن اعلیٰ سنجریؒ بھی دہلی کے باشندے تھے ۔ انہوں نے خلیجی فوج کے ہمراہ حضرت امیر خسروؒ  کی معیت میں دکن کا رخ کیا تھا لیکن امیر خسروؒ کے معاصر ہونے کے باوجود بھی ان کی شاعری میں تکثیری سماج کی جھلکیاں نظر نہیں آتیں کیونکہ علاؤ الدین خلجی کے دکن پر حملے 1294 ء کے بعد امیر حسن اعلی سنجریؒ دولت آباد کے باشندے بن کر رہ گئے اور انہیں دہلی کے تکثیری سماج سے استفادہ کا موقع نہیں ملا۔ اس کے بجائے حضرت امیر خسروؒ نے بھی دکن کا رخ کیا ، لیکن دہلی کے گیارہ بادشاہوں کے درباروں سے وابستگی کے نتیجہ میں ایک جانب فارسی زبان میں کمال حاصل کرنے کا موقع ملا تو دوسری طرف عوام میں پھیلنے والی ملی جلی زبان کو بھی اظہار کا وسیلہ بنانے کا موقع فراہم ہوگیا۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے حضرت امیر خسروؒ کو ’’ہند۔مسلم ثقافت‘‘ کی زندہ علامت قرار دیتے ہوئے انہیں تکثیری تہذیب کے اولین نمائندے کی حیثیت سے قبول کیا ہے۔

حضرت امیر خسرو کے ہم عصر اور ان کے پیر بھائی حضرت امیر حسن اعلی سجنریؒ کو فارسی شاعری کی وجہ سے ’’سعدی ہند‘ ‘ کا موقف حاصل ہوا ہے ۔ جن کی رحلت 1337 ء میں بمقام دولت آباد ہوئی ۔ انہیں تکثیری سماج کے نمائندہ شاعر ہونے کا شرف حاصل نہ ہوسکا ۔ ان کی ایک ریختہ غزل دستیاب ہے۔ حضرت امیر خسرو کو تکثیری سماج کے نمائندہ شاعر کا مقام حاصل ہوتا ہے ۔حضرت امیر خسرو کا فطری رجحان جو ہندوستانی سماج کی ہندوی خصوصیات اور مسلم معاشرے کی اسلامی خصوصیات کو علحدہ کرنے کے بجائے ان دونوں میں اشتراک قائم کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ اسلام میں موسیقی کی مخالفت موجود ہے ۔ اس کے باوجود اپنے پیر و مرشد کی خوشنودی کیلئے راگ راگنیوں کی بنیاد رکھی۔ اس طرح حضرت امیر خسرو نے ہندوستان کی سرزمین میں ’’پیر پرستی ‘‘ کی مستحکم روایت کا آغاز کیا ۔ انہوں نے تکثیری سماج کی نمائندگی کیلئے ہندوی انداز ہی نہیں بلکہ زبان و بیان کے لہجے کے ہندوی طرز اور الفاظ و محاورے بھی ہندوی سے حاصل کر کے زبان کی انفرادی ساخت کی نمائندگی کی ۔ ان کے اشعار کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ دو کلچر ایک دوسرے سے گلے مل رہے ہیں اور ان دونوں کے آپسی اتحاد کی وجہ سے تیسرے کلچر کی بنیادیں مستحکم ہورہی ہیں۔ حضرت امیر خسروؒ کے ملے جلے کلچر کی وجہ سے ہی اردو زبان کے خد و خال بھی اجاگر ہوتے ہیں ۔ یہ زبان بلا شبہ ترقی پذیر تیسرے کلچر کی ترجمان بن جاتی ہے ۔ یہ تیسرا کلچر ہند المانی اشتراکات کا ثبوت پیش کرتا ہے۔ اسی اشتراک کو ہی سب سے پہلے ہندوستانی تکثیری سماج کا درجہ ہوتاہے ۔ حضرت امیر خسروؒ کی تحریروں کی کوئی ادبی اور معیاری حیثیت ہو یا نہ ہو لیکن ان کے اشعار کی تاریخی اور لسانی اہمیت یہی ہے کہ ان کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوستان میں پہلی مرتبہ وجود میں آنے والے تکثیری سماج کے ذریعہ جس زبان کواظہار کا وسیلہ بنایا جارہا تھا ، اس زبان کے کینڈے اور رنگ و روپ ہی نہیں بلکہ اس کے رواج کے بارے میں بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ دو مختلف قوموں کے زبانوں کے امتزاج سے پیدا ہونے والی تکثیری خصوصیت کی نمائندہ کتاب حضرت امیر خسرو کی تحریر کردہ ’’خالق باری‘‘  اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔ جسے ایسی لغت قرار دیا گیا جس کی تحریر کے ذریعہ شاعر نے عربی اور فارسی الفاظ کے ہندوی مترادفات کو نظم میں بیان کر کے اردو میں ’’ منظوم لغت‘‘ کی بنیاد رکھی ۔ حضرت امیر خسروؒ سے متعلق سب سے نایاب ثبوت دکن میں لکھی ہوئی ملاوجہی کی ’’ سب رس‘‘ مؤلفہ 1045 ھ م 1635 ء میں حضرت امیر خسرو کا ایک دوہانقل کیا گیا ہے جو بطور نمونہ پیش کیا جاتا ہے جس کی صراحت کرتے ہوئے ڈاکٹر جمیل جالبی نے یہ لکھا ہے کہ حضرت امیر خسروؒ کی تصانیف پر صدیوں کی دھوپ چھاؤں نے اضافے اور ملحقات کو جگہ دے کر اس کی شکل تبدیل کردی ہے جس کی وجہ سے محمود شیرانی کو بھی شبہ ہوا۔ حضرت امیر خسروؒ کا سب سے پہلے ’’سب رس‘‘ میں نقل کیا ہوا دوہا اپنے مستند ہونے کی دلیل پیش کرتا ہے ۔ دوہا ملاحظہ ہو۔

پنکھا ہو کر میں ڈلی، سائی تیرا چاؤ
منج جلتی جنم گیا، تیرے لیکھن باؤ
انجمن ترقی اردو پاکستان، کراچی کے ایک بیاض میں موجود حضرت امیر خسروؒ کے کلام کے مطالعہ سے خود اندازہ ہوتا ہے کہ اس غزل میں انہوں نے آدھا مصرعہ فارسی کا استعمال کیا ہے ۔ آدھے مصرعے میں ہندوستانی روایت کی نمائندگی کی ہے ، سے بذات خود ان کی شاعری کو ملک میں بسنے والی دو بڑی قوموں کے آپسی امتزاج کا نتیجہ قرار دیا جائے گا۔ یہی امتزاج حضرت امیر خسرو کو تکثیری سماج کا نمائندہ شاعر قرار دیتا ہے ۔ فارسی اور ہندی آمیز غزل کے اشعار مختلف محفلوں میں دہرائے جاتے ہیں ۔ان اشعار میں دو سماجوں کی زبانوں کی بھرپور نمائندگی ملتی ہے ۔ اس لئے غزل کے اشعار سے مستفیض ہونے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے۔
زحال مسکیں مکن تغافل دورائے نیناں بتائے بتیاں
کہ تاب ہجراں ندارم اے جاں ، نہ لیہوے کا ہے لگائے چھتیاں
شبانِ ہجراں ، دراز چوں زلف ، و روز و صلش، چو عمر کوتاہ
سکھی پیاکوں جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاکاٹوں ، اندھیری رتیاں
چوں شمع سوزاں چوں ذرہ حیراں زمہر آں مہ بگشتم آخر
نہ نیند نیناں نہ انگ چیناں نہ آپ آوے نہ بھیجے پتیاں
بہ حق روز وصالِ دلبر کہ داد مارا فریب خسرو
پسیت من کہہ دورائے راکھوں دوجائے پاؤں پیا کی کھتیاں
دہلی میں حضرت نظام الدین اولیاء کے مزار پر حضرت امیر خسرو کا تحریر کردہ شعر موجود ہے ۔ اس شعر میں بھی جہاں تکثیری سماج کی کیفیت جلوہ گر نظر آتی ہے ، وہیں ہندوی روایت بھی اپنے ترقی کے مدارج طئے کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے ۔ یہی خوبی حضرت امیر خسرو کی شاعری میں دو اہم قوموں کے ملاپ کا وسیلہ بنتی ہے ۔

گوری سووے بیج پہ مکھ پر ڈارے کیس
چل خسرو گھر آپنے سانجھ بھئی چوندیس
محبوب سے رغبت اور عشق مجازی کی جھلکیوں کی نمائندگی کرتے ہوئے بھی حضرت امیر خسرو ہندوی روایت کا پاس و لحاظ رکھتے ہیں۔ اپنے اشعار میں فارسی اور ہندی کی روایت کو فروغ دے کر انہوں نے جو کارنامہ انجام دیا ہے ، وہ تکثیری سماج کی بنیادی خصوصیت ہے ۔ اس شعر میں پیر پرستی کی تمام جمالیات سمٹ کر آگئی ہے ۔ حضرت امیر خسرو نے اپنی اجداد کی زبان یعنی فارسی کو اہمیت دینے کے بجائے ہندوی خصوصیت کی جانب پیش قدمی کی ، جس کا اندازہ حضرت امیر خسرو کی لکھی ہوئی کتاب’’غرۃ الکمال‘‘ کے دیباچے میں لکھے ہوئے اس شعر سے لگایا جاسکتا ہے جس میں انہوں نے فارسی اور ہندوی امتزاج کے بجائے صرف اور صرف ہندوی خصوصیت کو نمایاں کیا ہے۔
آئی آئی ہماں پیاری آئی
ماری ماری برہ ماری آئی
اردو کے شاعروں نے حضرت امیر خسرو کے اس ہندوی اظہار کو ریختہ کا موقف دیا۔ اس وقت تک تکثیریت اور تکثیری خصوصیات سے آگاہی کا مزاج موجود نہیں تھا۔ اس لئے جب بیسوی صدی کے آغاز یعنی 1911 ء کے بعد حیدرآباد کی سرزمین سے پہلی مرتبہ سید علی بلگرامی نے حضرت امیر خسرو کے کلام کی تلاش اور اس کو یکجا کرنے کی آواز بلند کی ، سارے ملک میں تکثیری موقف کی نمائندگی کرنے والے بارہویں صدی کے وسط اور تیرہوں صدی کی ابتدائی تین دہائیوں کے دوران زندگی گزارنے والے اس شاعر کی شعر گوئی اور فنی خصوصیات کی طرف توجہ دی گئی ۔ غرض حضرت ا میر خسرو کی شعری خصوصیات کے ذریعہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ اردو کے ا ولین تکثیری سماج کے نمائندہ شاعر ہیں۔ ان کی شاعری میں دو قوموں کی تکثیریت کا انداز فارسی اور ہندوی کلام کو گلے ملاکر پیش کرنے سے واضح ہوجاتا ہے ۔ اگر حضرت امیر خسرو کے دو سخنے ، پہلیاں ، کہہ مکرنیاں اور انمیلیاں پیش کی جائیں تو ان میں بھی تکثیری سماج کی جلوہ گری نمایاں ہوگی ۔ حالات کے بدلتے ہوئے ہر دور میں امیر خسرو کے نام پر بے شمار اضافوں کے ساتھ ایسے ذخیرے نمایاں ہوگئے کہ جس کے بعد اصل اور نقل کی تمیز دشوار ہوگئی ، چنانچہ حضرت امیر خسرو سے منسوب کے کلام سے اجتناب برتتے ہوئے صرف ایسے کلام کی نمائندگی کی طرف توجہ دی جارہی ہے جو عوامی سطح پر مستند اور شعر و ادب کے پارکھوں کی دسترس میں ہے ۔ غرض حضرت امیر خسروؒ کے کلام میں شامل دو بڑی اہم قوموں کی زبانوں کے  الفاظ کے امتزاج سے یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ حضرت امیر خسرو نے اپنے دور میں تکثیری سماج کے اہم فرد کی حیثیت سے دو قومی زبانوں کی نمائندگی کو ا پنی شاعری کا وسیلہ بنایا ۔ اس لئے امیر خسرو کی مستند شاعری انہیں اپنے دور کے تکثیری سماج کے واحد اور نمائندہ شاعر کی حیثیت سے انفرادیت عطا کرتی ہے۔