تو محنت کر محنت کا صلہ جانے ‘ خدا جانے

محمد مصطفے علی سروری
16مئی کو انگریزی اخبار ’’ ہندوستان ٹائمز ‘‘ نے جئے پور راجستھان سے ایک خبر شائع کی‘ خبر کے مطابق جئے پور کے ایک بزنسمین نے اپنی لکژری کار کیلئے فینسی نمبر حاصل کرنے کیلئے 16 لاکھ روپئے ادا کئے ۔ خبر کی تفصیلات میں بتایا گیا کہ تانیجا نام کے ایک تاجر نے اپنی جاگوار ( Jaquar ) گاڑی کیلئے (0001) نمبر پسند کیا اور اس خاص نمبر کو حاصل کرنے کیلئے 16لاکھ روپئے ادا کئے‘ یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے جب تانیجا نے اپنی گاڑی کیلئے خاص نمبر حاصل کرنے بہت بڑی رقم ادا کی ہو ۔ اس سے پہلے بھی سال 2011ء میں جب اس بزنسمین نے BMW 5 سیریز خریدی تھی تو تب بھی اس شخص نے (0001) کا نمبر حاصل کرنے کیلئے دس لاکھ سے زائد رقم ادا کی تھی ۔ تانیجا کی جانب سے اپنے من پسند نمبر کو حاصل کرنے کیلئے دی جانے والی اس بڑی رقم کے متعلق خبر کو سینکڑوں بلکہ ہزاروں لوگوں نے پڑھا اور دوسروں کو پڑھنے کیلئے سفارش کی ۔ یہ صرف راجستھان کے ایک بزنسمین کی کہانی نہیں ہے ملک بھر میں اور خود ریاست تلنگانہ میں ایسی کئی مثالیں ہیں جب نئی گاڑیوں کے مالکان نے اپنی گاڑیوں کیلئے خاص ‘ من پسند نمبر حاصل کرنے کیلئے لاکھوں روپئے خرچ کئے قارئین اکرام آج کے کالم میں آپ حضرات کو جئے پور کے بزنسمین تانیجا کی جانب سے اپنی کار کیلئے خاص نمبر حاصل کرنے کیلئے 16 لاکھ کی ادائیگی کی خبر اسلئے سنانا چاہتا ہوں کہ ہمیں تانیجا کی زندگی سے سیکھنے کے لئے بہت سارے اسباق ملتے ہیں ۔

بہت سارے لوگ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ ایک شخص کی فضول خرچی بلکہ شاہ خرچی کی خبر اور اس میں بھی سیکھنے کا کوئی سامان ہوسکتا ہے تو میں وضاحت کرنا چاہوں گا کہ میں نے جئے پور کے اس بزنسمین کی فضول خرچی سے نہیں بلکہ اُس کی شخصی زندگی سے بہت کچھ سیکھنے کی بات کی ہے ۔ جی ہاں تانیجا نے آج اپنی نئی گاڑی کیلئے خاص نمبر حاصل کرنے (16) لاکھ روپے ادا کئے ہیں ۔ یہ بھی جان لیجئے کہ تانیجا کی جو نئی گاڑی (Jaguar) ہے اس کو خریدنے کیلئے دیڑھ کروڑ روپئے ادا کئے گئے ۔بظاہر تو ایسا لگ رہا ہے کہ جئے پور کے اس 37 سالہ بزنسمین کا تعلق کسی رئیس خاندان سے ہے لیکن حقیقیت میں ایسا کچھ نہیں ہے اور خبر کا یہی وہ نکتہ جس پر میں قارئین کی توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں ‘ تانیجا کے والد کا تعلق مدھیہ پردیش کے ایک گاؤں سے ہے جہاں پر وہ گاڑیوں کے ٹائیروں کی مرمت کا کام کرتے تھے اور پھر 1984ء میں انہوں نے بہتر مواقع کی تلاش میں جئے پور کا رُخ کیا ۔ شائد اس وقت تانیجا کی عمر صرف تین برس تھی ۔ تانیجا نے عملی طور پر فٹ پاتھ سے اپنی زندگی کی شروعات کی ۔ مگر سنکرانتی کے موقع پر پتنگیں فروخت کی ۔ رکشھا بندھن کا تہوار آتا تو راکھی بیچی‘ ہولی کے موقع پر مختلف رنگ بیچے اور دیوالی کے موقع پر پٹاخے بیچے اور تو اور جب کوئی تہوار نہیں ہوتا تو فٹ پاتھ پر ٹھہر کر لیدر جیاکٹ فروخت کئے اپنے گھر والوں کا پیٹ بھرنے کیلئے پیسے جمع کئے ۔

جب کسی نوجوان کے خواب بڑے ہوتے ہیں تو اس کو اپنے خوابوں کو پورا کرنے کیلء دن بھی چھوٹا نظر آتا ہے ‘ ایسا ہی کچھ تانیجا کے ساتھ معاملہ تھا اس کے خواب بہت بڑے تھے اور اُس کو دن چھوٹے نظر آنے لگتے تھے ۔ اس نے طئے کیا کہ وہ اپنے خوابوں کو پورا کرنے کییلئے دن میں ہی نہیں رات میں بھی محنت کرے گا ۔ اخبار ’’ ہندوستان ٹائمز ‘‘ کے رپورٹر پی سرینواسن نے اپنی 16 مئی 2018ء کی رپورٹ میں لکھا ہے کہ تانیجا جس نے اپنی جاگوار گاڑی خریدنے دیڑھ کروڑ خرچ کئے اورگاڑی کا پسندیدہ نمبر حاصل کرنے کیلئے 16لاکھ روپئے ادا کئے ۔ اس مقام پر پہنچنے کیلئے دن رات محنت کی اور رات میں تانیجا کیا کرتا تھا ‘ اس کے متعلق رپورٹ میں لکھا ہے کہ تانیجا روزآنہ رات میں 9بجے سے لیکر آدھی رات تک آٹو چلاتا تھا‘ تانیجا کی مجبوری یہ تھی اس کے پاس آٹو چلانے کیلئے لائسنس نہیں تھا اور رات کے وقت ٹریفک پولیس کی جانب سے پکڑے جانے کا ڈڑ بھی کم تھا ۔ اپنی عمر کے 18برس تانیجا نے اس طرح دن رات محنت کرتے ہوئے کسی بھی کام کو معمولی نہیں سمجھا اور ہر طرح کے کام کو بخوشی کرتا رہا ۔ تانیجا نے فٹ پاتھ پر کاروبار سے لیکر آٹو چلانے تک کا ہر کام کیا اور اس کے چہرے کے خد و خال اور خوبصورتی کو دیکھ کر کسی نے اس کو ماڈلنگ کرنے کا مشورہ دیا تو تانیجا نے مسٹر جئے پور سے لیکر مسٹر راجستھان کے ٹائیٹل جیتے اور پھر آگے بڑھ کر خود کی اپنی ایک ایونٹ Manage کرنے والی کمپنی شروع کردی ۔ تانیجا نے اخباری انٹرویو میں بتایا کہ اس کو ہمیشہ سے ہی نمبر ایک رہنا پسند ہے وہ جس کسی کام کو کرتا ہے تو اس کی پہلی پسند اس کام میں نمبر ایک پوزیشن حاصل کرنا اس طرح اس کا نمبر ایک سے پیار ہی ہے کہ وہ اپنی گاڑی کیلئے RJ 45 CG – 0001 حاصل کرنے 16لاکھ روپئے ادا کرنے سے پیچھے نہیں ہٹا ۔
قارئین ایک منٹ کیلئے ہم تانیجا کی کہانی سے وقفہ لیکر سونچیں کہ ہمارے کتنے نوجوان ہیں جو اپنی فیلڈ میں نمبر ایک پوزیشن حاصل کرنا چاہتے ہیں ‘ ابھی 20مئی کو تلنگانہ حکومت کی جانب سے اردو آفیسر کے عہدے کیلئے تحریری امتحان مقرر تھا ‘ کچھ امیدواروں سے جب دریافت کیا گیا کہ ان کا امتحان کیسا رہا تو بڑے عجیب جوابات ملے ‘ ایک امیدوار نے کہا کہ رمضان میں امتحان دینا مشکل تھا فجر کے بعد ذرا نیند لگ گئی اور جب اٹھا تو دیکھاکہ اب امتحان ہال پہنچنا مشکل ہے ‘ اس لئے نہیں گیا ۔ ایک اور امیدوار نے اردو اکیڈیمی کے ذمہ داروں کو برا بھلا کہتے ہوئے شکایت کی ( یہ امتحانات اردو اکیڈیمی تلنگانہ کی جانب سے منعقد کئے جارہے ہیں) کہ رمضان ہے بول کر ہمارے ساتھ ذرا سی بھی رعایت نہیں کرے ‘ پہلے تو سنٹر اتنی دور رکھے اور ہم پانچ منٹ دیر سے پہنچے تو ہمارے کو اندر جانے نہیں دیئے ۔
رمضان المبارک ہم مسلمانوں کیلئے ایک ایسی عبادتوں کا مہینہ ہے جوہم میں ڈسپلن اور وقت کی پابندی کا جذبہ بدرجہ اتم پیدا کرسکتا ہے ۔ کالم کے آغاز میں جس نوجوان تانیجا کی جدوجہد پر روشنی ڈالی گئی اس سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ تانیجا پیسہ کمانا چاہتا تھا اور پیسہ حاصل کرنے کیلئے اُس نے محنت کا راستہ چنا ۔ ہمارے مسلمان نوجوان بھی پیسہ کمانا چاہتے ہیں ‘ مذہب اسلام نے محنت کرنے اور یپسہ کمانے تجارت کرنے ‘ منافع کمانے سے کسی کو منع نہیں کیا ہے ۔ ہاں ہر چیز کے اصول بتائے ہیں۔ آزادیاں کیا ہے وہ بھی بتلائی ہیں اور پابندیاں کیا ہیں اس سے بھی واقف کروایا ہے لیکن بڑے افسوس کے ساتھ یہ لکھنا پڑرہا ہے ہیکہ مسلم نوجوان آج دولت خرچ کرنا تو جان چکے ہیں لیکن دولت کمائی کیسے جاسکتی ہے اس کے متعلق وہ کچھ بھی نہیں جانتے ‘ انہیں کامیابی چاہیئے ۔ منزل چاہیئے اور دولت بھی چاہیئے مگر وہ پیسہ کمانا نہیں چاہتے ہیں وہ گھر بیٹھے لاٹری جیتنا چاہتے ہیں وہ گھر بیٹھے کروڑ پتی بننا چاہتے ہیں مگر سیدھے طریقے سے نہیں ۔ اس سال جنوری میں حیدرآباد سٹی پولیس نے ایک چار سال کے کم عمر بچے کے قتل کے معمہ کو حل کرنے کا دعویٰ کیا تھا ۔ 11جنوری 2018ء کو پولیس اسٹیشن بھوانی نگر نے ایک تفصیلی پریس نوٹ جاری کرتے ہوئے مکمل تفصیلات سے واقف کروایا تھا ۔ اس قتل کے واقعہ کو جان کر قارئین مسلم نوجوانوں کی ذہنیت کا اندازہ لگاسکتے ہیں کہ دولت کی چاہت تو ان کے ہاں موجود ہیں مگر محنت کرنا نہیں چاہتے ہیں اور کسی شارٹ کٹ کی تلاش میں رہتے ہیں ۔

35سال کا ایک نوجوان پرانے ٹائرس کا کاروبار کرتا ہے ۔ تقریباً 12سال قبل اس نوجوان نے ایک لڑکی سے عاشقی کے بعد شادی کرلی اور کپڑوں کا کاروبار کرنے لگا ‘ کاروبار کیلئے اس نے لوگوں سے قرضہ لیا اور قرضوں کے جال میں ایسا پھنس گیا کہ ایک قرضہ چکانے دوسرا قرضہ لیتا ہوں ‘ قرضوں کے بڑھتے ہوئے دباؤ اور قرضوں کو واپس کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوکر یہ نوجوان گھر پر ہی رہنے لگا اور اس دوران اس کو خیال آتا ہے کہ اس کے سسرال میں تو پیسوں کی کافی ریل پیل ہے کیوں نہ سسرال سے ہی پیسے حاصل کئے جائیں ۔ شادی کو 12برس ہوگئے تھے سسرال والوں نے اب مزید پیسے دینے سے منع کردیا ‘ تب اس 35 برس کے نوجوان نے اپنے ہی سسرال کے گھر میں گھس کر چوری کرنے کا فیصلہ کیا اور گھر میں لگے سی سی ٹی وی کیمروں سے بچنے کیلئے پیچھے کی دیوار پھاند کر گھر میں کود گیا لیکن قسمت سے آدھی رات کے بعد اس نوجوان کے سالے کا چار سالہ لڑکا بیت الخلاء جانے کیلئے کمرے سے باہر نکلا اور اپنے ہی پھوپا کو دیکھ لیا ۔ لڑکا کہیں شور نہ مچادے یہ سونچ کر 35 سالہ نوجوان نے اس کا منہ اور گلہ دباکر اس کو مار دیا اور ایک پردے میں اس کی نعش کو لپیٹ کر گھر سے باہر پھینک دیا ۔ ڈسمبر 2017ء کے اس قتل کے واقعہ کو سٹی پولیس نے اندرون ایک ماہ حل کرلیا اور سسرال کے گھر میں چوری کے ارادے سے داخل ہوکر سالے کے بچے کو مارنے کے الزام میں داماد کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا ۔
قارئین ہم اس بات کو فراموش نہ کریں کہ حکمت کی باتیں مومن کا گمشدہ اثاثہ ہے جہاں سے بھی ملے اس کو حاصل کرلینا چاہیئے ۔ اگر تانیجا نام کے جئے پور کے نوجوان کی زندگی سے ہمیں محنت کا درس ملتا ہے تو اس کو سیکھنے میں کوئی قباحت نہیں ہونی چاہیئے ۔ یہاں یہ بات یاد رکھئے کہ تانیجا کو اپنے والد سے ورثہ میں ایک پیسہ بھی نہیں ملا لیکن تانیجا نے صرف رونے پر اکتفا نہیں کیا کہ میرے باپ نے مجھے کچھ نہ دیا ‘ نہ تو جائیداد میرے نام چھوڑی اور نہ ہی بینک بیالنس ۔ اپنے والد کی محنت کو دیکھتے ہوئے تانیجابی نے بھی محنت کرنا سیکھا اور ہر طرح سے محنت کی دن میں بھی کام کیا اور رات میں بھی کام کیا اور یہی وہ سبق ہے جو آج ہم سب کو خود بھی پڑھنا ہے اور اپنے بچوں کو بھی پڑھانا ہے ۔ بقول شاعر
تو محنت کر محنت کا صلہ جانے ‘ خدا جانے
جلاکر تو دیا رکھ دے ہوا جانے ‘ خدا جانے
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمارے لئے اکل حلال کے دروازے اس ماہ مبارک کی برکت سے کھول دیئے ( آمین )
sarwari829@yahoo.com