کے این واصف
اسٹار اسپتال کا کلچر اب گلوبل ہوگیا ہے جس نے علاج معالجہ کو عام آدمی کی پہنچ سے باہر کردیا ہے اور اسی طرح سرکاری اسپتالوں کی ناقص کارکردگی، جدید طبی سہولتوں کی عدم موجودگی ، قابل ڈاکٹرز اور اسٹاف کا نہ ہونا بھی ایک عام حقیقت ہوگئی ہے ۔ یہ چیز ترقی یافتہ ، ترقی پذیر اور غریب ہر ملک میں تقریباً مشترک ہے ۔ سعودی عرب میں بھی اسٹار اسپتالوں کا کلچر عام ہے ، مگر یہاں کے سرکاری اسپتال جدید طبی سہولتوں ، دواؤں کی سپلائی اور عملے وغیرہ کے معیار میں کافی اچھے ہیں لیکن ان اسپتالوں میں غیر ملکی باشندوں کو علاج کی سہولت حاصل نہیں ہے۔ سعودی عرب میں کوئی 80 لاکھ غیر ملکی آباد ہیں، جو برسوں سے یہاں خدمت انجام دے رہے ہیں۔ مقامی قوانین کے مطابق ہر خانگی کمپنی اور ادارے پر لازم ہے کہ وہ اپنے مکفول کا میڈیکل انشورنس کروائے، لیکن اکثر کمپنیاں اپنے ملازمین کو ایسے سستے قسم کے میڈیکل انشورنس ضابطہ کی تکمیل کیلئے فراہم کرتی ہیں جس میں یا تو علاج کی سہولت حاصل ہی نہیں رہتی یا پھر بالکل معمولی نوعیت کے علاج کروائے جاسکتے ہیں اور اگر کوئی خارجی باشندہ کسی ایسے مرض میں مبتلا ہوجائے، جس میں بڑے یا اسپیشلسٹ اسپتال سے رجوع ہونے کی ضرورت پڑے تو ایسے میں اس کے پاس موجود میڈیکل انشورنس کارڈ کام نہیں آتا اور وہ ایک خارجی باشندہ ہونے کے ناطے سرکاری اسپتال سے بھی رجوع نہیں ہوسکتا۔ ایسے واقعات میں خارجی باشندوں کیلئے ایک گمبھیر صورتحال پیدا ہوجاتی ہے۔
پچھلے ہفتہ ایک سرکاری اعلان جاری ہوا جو خارجی باشندوں کیلئے کسی حد تک اطمینان کا باعث تھا ۔ سعودی وزیر صحت ڈاکٹر محمد بن علی الہیازع نے ان سرکاری و نجی اسپتالوں کو انتباہ دیا ہے، جو ایمرجنسی والے مریضوں کے علاج سے انکار کردیتے ہیں۔ وزیر صحت نے واضح کیا ہے کہ جو اسپتال ایمرجنسی والے مریضوں کے علاج سے انکار کرے گا، وہ خواہ سرکاری ہو، یا نجی اسپتال ہو اس کے خلاف سخت کارروائی ہوگی ۔ ایمرجنسی والا مریض ہلال احمر (ایمبولنس سروس) کے ذریعہ اسپتال لایا گیا ہو یا کسی اور ذریعہ سے اسے اسپتال پہنچایا گیا ہو ، ہر حالت میں اس مریض کا علاج سرکاری اور نجی اسپتالوں پر فرض ہے ۔ وزیر نے کہا کہ ایوان شاہی کی تا کید ہے کہ کوئی بھی اسپتال ایمرجنسی والے مریضوں کے علاج سے انکار نہ کرے۔ جس اسپتال میں جو مریض بھی اور جس شکل میں لایا جائے اور اس کا مر ض فوری علاج کا متقاضی ہو تو اس کا علاج کیا جانا ضروری ہے ۔ وزیر صحت نے بتایا کہ تمام اسپتالوں کو اس پابندی سے تحریری طور پر آگاہ کردیا گیا ہے اور انہیں تاکید کردی گئی ہے کہ وہ ایمرجنسی والے مریضوں کے علاج میں ادنیٰ تغافل سے کام نہ لیں یعنی اس اعلان کے بعد اب خارجی باشندوں کیلئے کم از کم ایمرجنسی کی صورت میں طبی سہولت کے حاصل ہونے کا تیقن ہے۔
سعودی عرب میں چھوٹے پیمانے کے اسپتال اور پولی کلینکس گلی گلی موجود ہیں۔ جن سے کم آمدنی والے غیر ملکی علاج کیلئے رجوع ہوتے ہیں۔ سعودی عرب میں استعمال کے سامان ، کھانے پینے کی اشیاء اور کسی بھی قسم کے عوامی خدمات کے پیش کرنے میں معیار کا بہت خیال رکھا جانا ضروری ہے ۔ ان پر متعلقہ سرکاری ادارے کڑی نظر رکھتے ہیں۔اس ہفتہ طبی خدمات فراہم کرنے والے اداروں کو وزارت صحت نے انتباہ دے دیا ہے ۔ وزارت صحت کے ذرائع نے کہا کہ اقامہ (work permit) قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غیر قانونی طور پر میٹرنٹی کی سہولت فراہم کرنے والے پولی کلینکس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی ۔ ا یک مقامی اخبار نے وزارت صحت کے ذرائع سے خبر دی ہے کہ پولی کلینکس میں غیر قانونی طور پر غیر معیاری میٹرنٹی کے امور انجام دینے کی اطلاعات موصول ہونے کے بعد وزارت صحت نے اس بارے میں سخت کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ غیر معیاری طبی سہولت فراہم کرنے والے پولی کلینکس میں طبی سہولیات کے فقدان کی وجہ سے انتہائی سنگین حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ بعض پولی کلینکس 2500 سے 4 ہزار ریال تک ’’غیر قانونی زچگی‘‘ کیلئے وصول کرتے ہیں ۔ ان پولی کلینکس سے عام طور پر وہ افراد رجوع ہوتے ہیں، جن کے پاس اقامہ نہیں ہوتا ۔ وہ لوگ ولادت کروانے کیلئے ایسے طبی عملے سے رجوع کرتے ہیں جو اپنے پیشے میں ماہر نہیں ہوتے جبکہ ان کے پاس مناسب آلات بھی نہیں ہوتے۔ غیر معیاری میٹرنٹی کروانے کے باعث زچہ و بچہ کی جان کو بھی خطرہ ہوتا ہے ۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ عام طور پر وہ غیر ملکی جو اپنی اہلیہ کو حج ، عمرہ یا وزٹ ویزے پر بلاکر غیر قانونی طور پر مملکت میں روک لیتے ہیں۔ بعد ازاں انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ ذرائع نے مقامی اخبار کی جانب سے گزشتہ برس کے اعداد و شمار کے حوالے سے کئے جانے والے سوال کو نظر انداز کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ اس قسم کے واقعات زیادہ تر مکہ ریجن اور ریاض میں پیش آتے ہیں، جہاں بڑی تعداد میں غیر ملکی مقیم ہیں جو اپنی اہلیہ کو غیر قانونی طریقہ سے مملکت میں ٹھہرا لیتے ہیں جن کی وجہ سے مشکلات پیش آتی ہیں۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ وزارت صحت کی جانب سے اس قسم کی کارروائیوں کے خاتمے اور ان کے سدباب کیلئے جامع حکمت عملی مرتب کی گئی ہے اور تمام پولی کلینکس کو اس بارے میں مطلع کردیا ہے کہ کسی بھی طرح غیر قانونی طریقے کو اختیار نہ کیا جائے جبکہ غیر معیاری پولی کلینکس کے خاتمہ کیلئے بھی جامع کارروائی کی جائے گی ۔
پچھلے ہفتہ اس سلسلہ میں خلیجی تعاون کونسل کا ایک مشترکہ بیان آیا جو صحت سے متعلق ہی تھا جس میں سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک نے طئے کیا ہے کہ اب صرف ایسے افراد ہی کو یہاں ملازمت کا ویزا جاری کیا جائے گا جو مکمل طور پر صحت مند ہوں تاکہ ان کے آجروں پر ان کے علاج معالجے کے اخراجات کا بوجھ نہ پڑے ۔ یہ فیصلہ اس رپورٹ کے آنے کے بعد کیا گیا جس میں بتایا گیا تھا کہ یہاں جو سالانہ دو ملین افراد کو ملازمت کے ویزے دیئے جاتے ہیں ، ان میں دس فیصد تعداد ایسے افراد کی ہوتی ہے جو ایک عرصہ سے ذیابیطس یا ہائی بلڈ پریشر کے مرض میں مبتلا ہیں یا ایسے ہی کسی دیگر امراض میں مبتلا ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے گوکہ یہ امراض متعدی نوعیت کے نہیں ہیں، لیکن پھر بھی اس سے ملازمت کی کارکردگی اور آجر کے اخراجات پر اثر پڑتا ہے ۔ بتایا گیا کہ اس سلسلے میں میڈیکل جانچ کے مسلمہ سنٹرز کو سخت ہدایتیں جاری کی گئی ہیں کہ وہ جاب ویزا پر آنے والوں کی صحت کی جانچ پڑتال میں معمولی سی کوتاہی تک نہ برتیں۔ خصوصاً جو میڈیکل سنٹرز انڈیا ، پاکستان، فلپائن ، بنگلہ دیش اور مصر میں قائم ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ میڈیکل جانچ میں کینسر وغیرہ جیسے طبی امتحانات نہیں کئے جاتے مگر اب مملکت میں عملے کے پہنچنے کے بعد اگر مناسب سمجھا جائے گا تو ایک طبی امتحان یہاں بھی کیا جائے گا ۔
پچھلے ہفتہ جاری ان تمام اعلانات کا تعلق سعودی عرب یا دیگر خلیجی ممالک میں کام کرنے والے خارجی باشندوں کی صحت سے متعلق تھے ۔ علاج معالجے کا شعبہ ایک ایسا شعبہ ہے جو عام خارجی باشندوں کیلئے ایک مہنگا ترین شعبہ ہے۔ جو افراد میڈیکل انشورنس نہیں رکھتے یا ان کا میڈیکل انشورنس کارڈ ہر علاج کے اخراجات کو Coverage نہیں دیتا تو وہ لوگ ایسی بیماری کے تصور ہی سے مرے جاتے ہیں، جن بیماریوں کا علاج مہنگا ہے۔ یہاں ایک بات جس کا ذکر کیا جانا ضروری ہے وہ یہ کہ یہاں خارجی باشندے کئی دہائیوں سے برسرکار ہیں۔ انہوں نے اپنا بہترین وقت ، اپنی جوانی ، اپنی توانائیاں اسی ملک میں کام کرتے ہوئے صرف کی ہیں۔ اب اگر ڈھلتی عمر میں اس کے اعضاء جواب دیتے ہیں یا طبی دیکھ بھال اور علاج معالجے کے متقاضی ہوتے ہیں تو ان کو مکمل طبی سہولت یہیں حاصل ہونی چاہئے کیونکہ انہوں نے اپنی ساری توانائیاں یہیں صرف کی ہیں۔ اس سرزمین پر برسوں کی لگاتار محنت کے بعد جب ان کے قوا جواب دینے لگیں یا انہیں طبی سہولتوں کی ضرورت لاحق ہو تو یہ سہولتیں انہیں یہیں میسر آنی چاہئے کیونکہ انہوں نے یہاں کے مقامی باشندوں کے شانہ بشانہ محنت کی، مملکت کی تعمیر و ترقی میں۔ لہذا جن ہسپتالوں میں مقامی باشندے طبی سہولیات حاصل کرتے ہیں ، انہیں ان ہی اسپتالوں میں مفت طبی سہولت حاصل ہونی چاہئے ۔ جیسا کہ ہم نے اوپر بتایا وزارت صحت مملکت سعودی عرب نے ایمرجنسی کیس میں تو سب کیلئے علاج کی سہولت کا اعلان کردیا ۔ خارجی باشندے شکر گزار ہوں گے اور مملکت کو دعائیں دیں گے ، اگر ان کو نہ صرف ایمرجنسی بلکہ ہر حال میں سرکاری اسپتالوں میں تمام امرا ض کے علاج کی سہولت حاصل ہوجائے ۔ مملکت میں کام کرنے والے خارجی باشندوں کی ایک قابل لحاظ تعداد میڈیکل انشورنس Coverage بھی رکھتی ہے لیکن مشکل ان لوگوں کیلئے ہے جن کو یہ سہولت حاصل نہیں ہے ۔ واقعی تنگ دست اگر تندرستی سے بھی محروم ہوجائے تو اس کی مشکلیں دو چند ہوجاتی ہیں۔
تنگ دستی اگر نہ ہو سالک
تندرستی ہزار نعمت ہے