تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
وفاقی محاذ بنانے کا خواب سجانے والے کے سی آر کو پیالی میں طوفان اٹھانے کی ضرورت کیسے اور کیوں محسوس ہوئی اور اس طوفان سے کس کو کیا فائدہ پہونچایا جارہا ہے؟ کیا کے چندر شیکھرراؤ اور وزیراعظم نریندر مودی میں ڈیل ہوگئی ہے یا خفیہ طور پر تلنگانہ کو آر ایس ایس کا گڑھ بنانے کی کوشش ہورہی ہے ؟ دوبارہ اقتدار ملنے کے بعد آخر کے سی آر کے پیچھے ایسی کونسی قوت کارگر ہے جو کہ انہوں نے اب تک کابینہ تشکیل نہیں دی ۔ کابینہ میں وزراء کو اہم قلمدان دینے میں تاخیر کے پیچھے کیا مقاصد کارفرما ہیں ۔ آئندہ لوک سبھا انتخابات 2019 تک وہ سیاسی جوڑ توڑ کو عروج پر لے جانا چاہتے ہیں ۔ یہ ایسے سوالات ہیں جوان دنوں سیاسی صحافتی حلقوں میں اُٹھ رہے ہیں ۔ کے سی آر کے فرزند کے ٹی راما راؤ کو اہم ذمہ داریاں دینے کے بعد وہ اب پارٹی کیڈر کو سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں ۔ لوگوں سے ملاقات کر کے نئی کابینہ کی تشکیل میں تاخیر کے بارے میں وضاحت بھی کرتے دکھائی دے رہے ہیں کیوں کہ اب کے ٹی آر ہی ٹی آر ایس کے ’ باس ‘ ہیں ۔ لہذا پارٹی کیڈرس کو ان کے حکم کی پابندی کرنی ہی ہوگی ۔ کابینہ میں تاخیر کی وجہ صرف ہریش راؤ نہیں ہیں بلکہ ٹی آر ایس میں کے ٹی آر کی مخالفت کرنے والے طاقتور گروپ بھی ہیں ۔ کے سی آر اپنی کابینہ میں صرف پسندیدہ بلکہ کے ٹی آر کے قریبی آدمیوں کو شامل کریں گے ۔اس کے علاوہ کانگریس کے چند ارکان اسمبلی کو وزارتوں کا لالچ دے کر ٹی آر ایس میں شامل ہونے کی بھی ترغیب دینے کی کوشش ہورہی ہے ۔ اگر کانگریس کے چند ارکان اسمبلی کو حکمراں پارٹی کی صف میں لایا گیا تو پھر اسمبلی میں کانگریس اپنے اپوزیشن پارٹی کے موقف سے محروم ہوجائے گی ۔ حکومت اپنے سامنے اپوزیشن کے عدم وجود کا زبردست فائدہ اٹھا سکتی ہے ۔ کانگریس لیڈر اور سابق کرکٹ کیپٹن اظہر الدین کو بھی ٹی آر ایس میں گھسیٹنے کی افواہیں گشت کررہی تھیں تاہم اظہر الدین نے اس کی تردید کی ہے لیکن اقتدار اور سیاسی طاقتور پارٹی کا ساتھ کوئی بُرا فیصلہ نہیں ہوتا ۔ آئندہ پانچ سال تک سیاسی بیروزگار بن کر رہنے سے تو اچھا سیاسی روزگار حاصل کیا جائے چاہے وہ کسی بھی پارٹی کی دہلیز سے ہی کیوں نہ ملے ۔ سیاسی طور پر خود کفیل قائدین کو اپنے مستقبل کی فکر نہیں ہے ۔ تلنگانہ کے میدان سیاست میں سرخاب کا پر لگائے پھرنے والے سیاستداں بھی ہیں جو ہر حکمراں پارٹی کے لاڈلے ہوتے ہیں ۔ دو تلگو ریاستوں کے دو چیف منسٹرس کو بھی اس وقت ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سرخاب کا پر لگا ہوا ہے اور وہ جنوبی ہند کی عوام کے ووٹوں سے مرکز میں بہت بڑا رول ادا کرنے کی حماقت میں مصروف ہیں ۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ آیا یہ دونوں چیف منسٹرس اپنی اپنی سیاسی منزل حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکیں گے ۔ آندھرا پردیش کے چیف منسٹر چندرا بابو نائیڈو نے ایک لمبے عرصہ تک فرقہ پرستوں کا ساتھ دیتے ہوئے اچانک سیکولر ہندوستان کا خیال آیا تھا وہ ہندوستانی جمہوریت اور قوم کو بچانے کے لیے غیر بی جے پی پارٹیوں کو یکجا کرنے کی کوشش کررہے تھے لیکن اب ان کی جگہ کے سی آر نے لے لی ہے اور تلنگانہ اسمبلی انتخابات میں زیادہ کامیابی کے بعد تازہ دم ہوکر غیر بی جے پی غیر کانگریس پارٹیوں کو متحد کرنے کے مشن پر ہیں ۔
لیکن ان کا یہ مشن آگے بڑھنے سے قبل ہی سرد پڑتا دکھائی دیتا ہے ۔ کے سی آر کی ان حرکتوں پر تنقید کرنے والوں نے پہلے ہی یہ کہہ دیا ہے کہ کے سی آر اب نریندر مودی کے سکریٹری کی طرح کام کررہے ہیں ۔ تلگو عوام کے نمائندہ کم بلکہ فرقہ پرستوں کے ایجنٹ بن گئے ہیں ۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ چندرا بابو نائیڈو اور کے چندر شیکھر راؤ کی سیاسی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھے لوگوں نے انگور کے باغ کے لومڑی قرار دیا ۔ مرکز کی منزل ہاتھ لگے تو ٹھیک نہیں تو ’ انگور کھٹے ‘ کہہ کر اپنے رائے دہندوں کو اُلو بنانے میں سرگرم ہوجائیں گے اور رول آف دی رولر کے ذریعہ من مانی کی جائے ۔ تلگو ریاستوں کے سیاسی باغ کے ان دو رولرس کو ایک دوسرے پر تنقیدیں کرتے ہوئے بھی دیکھا گیا ہے ۔ چندرا بابو نائیڈو نے کے سی آر پر تنقید کی تو کے سی آر نے نائیڈو کو حکمراں نہیں بلکہ ایک ’ منیجر ‘ قرار دیا کیوں کہ ان میں حکومت کرنے کی صلاحیتوں کا فقدان ہے اور منیجر کا کام کرنے والا بیوریوکریٹ قرار دیا ۔ کون کیا ہے اور کس کو مرکز کی منزل نصیب ہوگی یہ نیا سال 2019 ہی بتائے گا ۔ اس سال بہت اہم فیصلے ہونے والے ہیں ۔ مودی حکومت کو دوبارہ اقتدار ملتا ہے تو تلنگانہ کی ٹی آر ایس حکومت کی چاندی ہی چاندی ہوگی اور آندھرا پردیش کے حصہ میں خشک کانٹے آئیں گے ۔ وقت کے فاصلے پر کھڑے ہو کر ماضی میں جھانکے تو پتہ چلتا ہے کہ چندرا بابو نائیڈو کل تک مودی کے نور نظر تھے اب کے سی آر نے یہ مقام بنالیا ہے ۔ سیاسی واقعات کا نظارہ بھی خوب ہوتا ہے ۔ ہر رائے دہندہ اپنی آنکھوں کے سامنے ہونے والی سیاسی مفاد پرستی کی دھاندلیوں کا مشاہدہ کرتا ہے یاس و امید کی ایسی کئی وجودی وارداتوں سے گذر جاتا ہے جو ناقابل یقین پوشیدہ رموز اور پیچیدہ حقائق آشکار کردیتی ہیں ۔ اگر آپ 5 سال پچھلے کے فاصلہ پر کھڑے ہو کر دیکھیں تو آپ کو نائیڈو اور کے سی آر کی سیاسی وفاداری کا منظر دکھائی دے گا جو اب اس کے برعکس ہورہا ہے ۔ اصل کہانی یہ ہے کہ سیاسی قائدین اپنے مفادات کے لیے کسی بھی حد تک جاتے ہیں ۔ کوئی جو کچھ کہتا ہے کہتا رہے انہیں علت ، قلت اور ذلت کے لیے تیار رہنا ہے ۔ اپنی عادتوں پر شرمندہ نہیں ہوتے ۔ فیس بک ہو یا سوشیل میڈیا پر ان کے بارے میں طرح طرح کے کمنٹس آتے ہیں ٹوئیٹر پر بھی یہ لوگ مزے لے کر تبصرے کرتے ہیں ۔ فیس بک یا سوشیل میڈیا اب ایسا ہوگیا ہے کہ اس میں سیاسی ، سماجی ، مذہبی اور دیگر شعبہ ہائے حیات کے لوگ مصروف ہیں ۔ سیاستداں ایک دوسرے میں کیڑے ڈال رہے ہیں ۔ ہر ایک کو ہر ایک کا عیب نظر آنے لگا ہے ۔ 2014 کے انتخابات بھی اس سوشیل میڈیا کے ذریعہ جیتا گیا تھا ۔ اب انسٹگرام ، فیس بک ، واٹس ایپ کے علاوہ ذاتی ویب سائٹس بھی چل رہے ہیں ۔ کڑوی کسیلی باتیں ہورہی ہیں ۔ لیکن مقام شکر یہ ہے کہ آپ اس کے لیے اپنے فون کا بٹن بند کر کے سوسکتے ہیں ۔ بے تکی باتیں کرنے والے کا اپنے گھر یا موبائل فون میں داخلہ بند کرسکتے ہیں ۔ اسے ان فرینڈ بھی کرسکتے ہیں ۔ اس کو بلاک کرسکتے ہیں اور یہی نہیں اس کو ان فالو بھی کرسکتے ہیں یعنی اس سے پیچھا چھڑا سکتے ہیں ۔ لیکن سوشیل میڈیا سے اتنا جلدی بیزار آجانا ممکن ہے ؟ اس سوشیل میڈیا پر ایک پوسٹ آئی ہے جس میں بیرون ملک روزگار کے حالات خراب ہونے کی خبریں سننے اور این آر آئیز کی پریشانیوں کی داستانیں معلوم ہونے کے باوجود کئی نوجوان اپنے ملک میں روزگار حاصل کرنے کی کوشش کرنے کے بجائے بیرون ملک ہی جانے کے لیے سرگرداں نظر آتے ہیں ۔ اپنے شہر میں تیر مارنے کی صلاحیت رکھنے کے باوجود بیرون ملک جاتے ہیں ایسے لوگوں کے لیے پوسٹ آئی ہے وہ اس طرح ہے کہ ایک مرتبہ ایک غیر ملکی وفد ایشیا کے چیڑیا گھر کا دورہ کیا اور وہاں شیر کو اپنے ملک لے جانے کا فیصلہ کیا ۔ شیر سے کہا گیا کہ تمہیں بیرون ملک لے کر جانا ہے ۔ شیر بڑا خوش ہوا کہ بیرون ملک میں ٹھاٹ سے رہوں گا ۔ اے سی ہوگا اور روزانہ ایک یا دو بکرے کھانے کو ملیں گے جب شیر بیرون ملک پہونچا تو پہلے دن ۔ ایک لڑکا شیر کے لیے ناشتے میں مونگ پھلی اور کچھ خشک میوے پنجرے میں رکھ کر چلا گیا ۔ شیر سمجھا تھوڑی دیر میں گوشت آئے گا ۔ دوپہر میں پھر لڑکا شیر کے لیے چند گاجریں اور کچھ سبزیاں رکھ کر چلا گیا ۔ چند دن یہی سلسلہ چلتا رہا تو شیر کو فکر ہونے لگی ایک دن شیر لڑکے سے بولا یار تم کو معلوم ہے میں جنگل کا بادشاہ ہوں ، گوشت کھاتا ہوں ، اور تم مونگ پھلی اور سبزیاں لے آتے ہو ۔ لڑکا بولا … مجھے پتہ ہے تم جنگل کے بادشاہ ہو گوشت کھاتے ہو مگر اس وقت تم یہاں ’ بندر ‘ کے ویزے پر ہو ۔۔
kbaig92@gmail.com