تم اپنے آپ کو خود ہی بدل سکو تو چلو

الیکشن اور بیرونی سفر… یہ بھی جاری وہ بھی جاری
مراٹھا ریزرویشن … مسلمان محروم کیوں ؟

رشیدالدین
ملک بھر کی نظریں پانچ ریاستوں کے انتخابات پر مرکوز ہوچکی ہیں۔ 2019 ء میں مرکز میں تشکیل حکومت کے سلسلہ میں نتائج کا گہرا اثر دیکھا جائے گا ۔ چھتیس گڑھ ، مدھیہ پردیش اور میزورم میں رائے دہی مکمل ہوگئی جبکہ راجستھان اور تلنگانہ میں 7 ڈسمبر کو بی جے پی اور ٹی آر ایس حکومتوں کے مستقبل کا فیصلہ ہوگا۔ نتائج کے بارے میں سروے رپورٹس بھلے ہی کچھ ہوں لیکن بی جے پی اور کانگریس کی دعویداری اپنی جگہ برقرار ہے۔ رائے دہندے بی جے پی کی حکومتوں سے کس حد تک مطمئن ہیں ، نتائج سے ظاہر ہوجائے گا۔ کانگریس پارٹی کسی طرح بی جے پی کے قلعوں کو فتح کرنے کیلئے مہم جوئی پر ہے اور دہلی میں مخالف بی جے پی اتحاد کی تشکیل کا انحصار ریاستوں کے نتائج پر ہوگا ۔ یوں تو اسمبلی چناؤ مقامی مسائل پر لڑے جاتے ہیں لیکن مذکورہ ریاستوں کے نتائج پر مرکز کی نریندر مودی حکومت کی کارکردگی بھی اثر انداز ہوسکتی ہے۔ راجستھان ، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ کا سیمی فائنل بی جے پی کے مرکز میں اچھے یا برے دن کا فیصلہ کریں گے۔ سیمی فائنل میں کانگریس اور بی جے پی نے اپنی طاقت جھونک دی ہے لیکن وزیراعظم نریندر مودی کے بیرونی دورے انتخابی مہم سے غیر متاثر رہے۔ انتخابی مہم اور بیرونی دوروں دونوں کو وزیراعظم نے بیک وقت جاری رکھا ہے۔ شائد مودی تینوں ریاستوں کے نتائج سے مطمئن ہیں یا پھر بیرونی دورے جاری رکھتے ہوئے اپنے اعتماد کا دکھاوا کر رہے ہیں۔ ویسے بھی بیرونی دورے نریندر مودی کا محبوب مشغلہ ہے۔ مودی نے چار برسوں میں 50 سے زائد ممالک کا دورہ کرتے ہوئے ریکارڈ قائم کیا ہے۔ بعض ممالک کے ایک سے زائد دورہ کو شمار کریں تو بیرونی دوروں کی تعداد 70 سے تجاوز کر جائے گی۔ وزیراعظم کی حیثیت سے بھلے ہی کوئی کارنامہ انجام نہ دیا ہو لیکن بیرونی دوروں اور سفر پر 1200 کروڑ سے زائد خرچ یقیناً ورلڈ ریکارڈ ہوگا۔ مودی کو شائد دوسری میعاد کا یقین نہیں، اسی لئے وہ باقی 6 ماہ میں دنیا کے بچے ہوئے ممالک کی تفریح کرنے کے موڈ میں ہیں۔ بیرونی دوروں کا سلسلہ اگر اسی طرح جاری رہا تو مودی ہندوستان کے واسکوڈی گاما بن کر کسی نئے ملک کی کھوج کرلیں گے اور دنیا کے نقشہ پر نئے ملک کا اضافہ ہوگا۔ پنڈت جواہر لال نہرو جنہیں جدید ہندوستان کا معمار کہا جاتا ہے، انہوں نے بھارت ایک کھوج کتاب لکھی جو ملک کی تاریخ اور تہذیب پر مشتمل ہے۔ ٹھیک اسی طرح نریندر مودی ’’دنیا ایک کھوج‘‘ کتاب لکھ سکتے ہیں ۔ 2019 ء کے انتخابات کے بعد جب گھر پر آرام فرما ہوں گے تو شائد سفرنامہ تحریر کریں گے۔ نریندر مودی نے 2014 ء میں عوام سے جو وعدے کئے تھے، ان کی تکمیل میں سنجیدگی ہوتی تو مودی کو بیرونی دوروں کا خیال بھی نہیں آتا لیکن یہاں تو وعدے محض ووٹ حاصل کرنے کیلئے کئے گئے اور کئی اہم وعدوں کو چناوی جملہ قرار دے کر ٹال دیا گیا۔ بیرونی ممالک سے کالا دھن واپس تو نہیں آیا لیکن حکومت کے نور نظر صنعت کار بینکوں سے عوام کی محنت کی کمائی ہزاروں کروڑ کا سفید دھن لوٹ کر ملک سے فرار ہوگئے۔ ایک بھی لٹیرے کو ملک واپس لانے میں حکومت کو کامیابی نہیں ملی۔ دراصل حکومت انہیں واپس لانا بھی نہیں چاہتی۔ بینکوں کے لٹیرے تو ملک سے فرار ہوگئے لیکن یہاں بھی رافیل جنگی طیاروں کی خریدی کی معاملت میں مودی حکومت نے امبانی کو 30 ہزار کروڑ کا فائدہ پہنچایا۔ اس طرح سرکاری خزانہ کو اندھا دھند طریقہ سے لٹا گیا۔ بات جب وزیراعظم کے بیرونی دوروں کی چل پڑی ہے تو ہمیں مودی کے بیرونی سفر پر اعتراض نہیں کیونکہ حکومت کے سربراہ کی حیثیت سے یہ ضروری بھی ہوتا ہے لیکن ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ کاش نریندر مودی ملک کی تمام 29 ریاستوں کا بھی دورہ مکمل کرتے اور 2014 ء میں کئے گئے وعدوں کی تکمیل پر توجہ دیتے۔ 4 برس 6 ماہ میں مودی نے ملک کی تمام ریاستوں کا دورہ نہیں کیا۔ شائد 2019 ء میں تمام ریاستوں کی پھر سے یاد آئے گی ۔ مودی کو بیرونی ممالک کے نام تو اچھی طرح یاد ہوں گے لیکن ملک کی ریاستوں اور زیر انتظام علاقوں کے نام شائد ہی وہ دہرا سکیں۔ بیرونی دوروں پر 2000 کروڑ کا خرچ کیا سرکاری خزانہ پر بوجھ نہیں ہے ؟ یوں بھی عوامی رقومات کے بیجا استعمال میں مودی اور ان کے حواریوں کا جواب نہیں۔ گجرات میں سردار پٹیل کے 182 میٹر طویل مجسمہ کی تنصیب پر تقریباً 3000 کروڑ خرچ کئے گئے ۔ اس مجسمہ کے بجائے سینکڑوں گاؤں میں بجلی اور پانی جیسی بنیادی سہولتیں فراہم کی جاسکتی تھیں۔ اسمبلی انتخابات میں کامیابی کی صورت میں مرکز میں لوک سبھا کے وسط مدتی انتخابات کے امکانات بڑھ جائیں گے ۔ برخلاف اس کے اگر ایک بھی ریاست میں بی جے پی ہارتی ہے تو 2019 ء کیلئے مختلف شہرت پسند اسکیمات کا اعلان کیا جاسکتا ہے۔
تلنگانہ میں اسمبلی انتخابات قومی قائدین کی آماجگاہ بن چکے ہیں۔ ریاستی اسمبلی کے چناؤ کے باوجود جس انداز میں قومی قائدین مہم میں شریک ہیں، ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے لوک سبھا کی انتخابی مہم ہو۔ وزیراعظم نریندر مودی ، بی جے پی کے قومی صدر امیت شاہ ، مرکزی وزراء ، بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں کے چیف منسٹرس ایک طرف تو دوسری طرف سونیا گاندھی ، راہول گاندھی ، چندرا بابو نائیڈو ، مایاوتی اور دیگر قائدین کی مہم نے نئی جہت دی ہے۔ راہول گاندھی اور چندرا بابو نائیڈو کا ایک پلیٹ فارم پر دکھائی دینا قومی سطح پر اپوزیشن اتحاد کے آغاز کا ثبوت ہے۔ نظریاتی طور پر شدید اختلافات کے باوجود دونوں پارٹیوں نے فرقہ پر ستی سے مقابلہ کیلئے اتحاد کرلیا۔ تلنگانہ کے علاقوں میں چندرا بابو نائیڈو کی جس طرح پذیرائی کی گئی ، اس سے صاف ظاہر ہے کہ تلنگانہ اور آندھرا عوام کے درمیان کوئی نفرت اور تعصب کے جذبات نہیں ہیں۔ بی جے پی 2019 ء کیلئے ابھی سے نفرت پر مبنی ایجنڈہ کو تیار کر رہی ہے ۔ رام مندر کی تعمیر کیلئے پارلیمنٹ میں بل کی پیشکشی یا آرڈیننس کی اجرائی پر ہندوتوا تنظیموں میں مباحث جاری ہیں۔ آر ایس ایس کی جانب سے حکومت پر دباؤ بنایا جارہا ہے کہ طلاق ثلاثہ کی طرح رام مندر کیلئے بھی آرڈیننس جاری کردیا گیا۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ آرڈیننس کا فیصلہ انتخابات سے عین قبل کیا جاسکتا ہے۔ دوسری طرف مہاراشٹرا کی دیویندر فڈنویس حکومت نے مراٹھا کمیونٹی کو تعلیم و روزگار میں 16 فیصد تحفظات فراہم کرتے ہوئے قانون سازی کی ہے۔ اس طرح مہاراشٹرا میں مجموعی تحفظات 52 سے بڑھ 68 فیصد ہوجائیں گے۔ بی جے پی حکومت کا یہ اقدام اس لئے بھی باعث حیرت ہے کیونکہ مرکز کی بی جے پی حکومت نے دیگر ریاستوں میں تحفظات میں اضافہ کی مخالفت کی ہے۔ مہاراشٹر میں سابق میں دو مرتبہ مراٹھا کمیونٹی کو تحفظات فراہم کرنے کی ناکام کوشش کی گئی تھی۔ اب جبکہ 2019 ء میں لوک سبھا کے ساتھ مہاراشٹر اسمبلی کے انتخابات ہیں، لہذا بی جے پی نے جملہ آبادی کے 30 فیصد مراٹھا عوام کو خوش کرنے کیلئے یہ سیاسی کھیل کھیلا ہے۔ دیگر ریاستوں کے سلسلہ میں مرکز کا جب یہ موقف ہے کہ تحفظات 50 فیصد سے تجاوز نہیں کرنے چاہیں تو پھر مہاراشٹرا میں یہ اصول کارکرد کیوں نہیں ؟ تلنگانہ حکومت نے مسلمانوں اور درج فہرست قبائل کے تحفظات میں اضافہ کیلئے اسمبلی میں بل کو منظوری دی تھی لیکن مرکزی حکومت نے بل کو واپس کردیا۔ مسلمانوں سے نفرت اور ان کے تحفظات کی مخالفت آخر کیوں ؟ بی جے پی کا اپنی زیر اقتدار ریاستوں اور اپوزیشن ریاستوں کے درمیان جداگانہ موقف یہ ظاہر کرتا ہے کہ پارٹی کو محض مسلمانوں سے نفرت ہے اور وہ انہیں ترقی کرتا ہوا دیکھنا نہیں چاہتی۔ جس طرح مراٹھا کمیونٹی کو پسماندگی کی بنیاد پر تحفظات کا فیصلہ کیا گیا ، ٹھیک اسی طرح تلنگانہ میں بی سی کمیشن کی سفارشات کی بنیاد پر تحفظات کا فیصلہ کیا گیا تھا ۔ دیکھنا یہ ہے کہ نریندر مودی کیا مہاراشٹرا کے اضافی تحفظات کو منظوری دیں گیا پھر سپریم کورٹ کا حوالہ دے کر بل کو واپس کردیا جائے گا۔ مہاراشٹرا میں بی جے پی حکومت سے عوام کی ناراضگی کو دیکھتے ہوئے فڈنویس سرکار نے مراٹھا طبقہ کی تائید حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ مسلمان کیا مراٹھا طبقہ سے زیادہ پسماندہ نہیں ہیں؟ راجندر سچر کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ مسلمانوں کی پسماندگی دلتوں سے بھی زیادہ ہے۔ ایسے میں مسلمانوں کو قومی سطح پر تحفظات کی فراہمی ضروری ہے۔ ایسے وقت جبکہ نریندر مودی اور امیت شاہ تلنگانہ کی انتخابی مہم میں مسلم تحفظات کی مخالفت کرتے رہے ، دوسری طرف فڈنویس سرکار نے مراٹھا تحفظات کا فیصلہ کرتے ہوئے بی جے پی کی دو عملی کو ثابت کردیا ہے۔ مہاراشٹر ہو یا ملک کی کوئی اور ریاست پسماندگی کی بنیاد پر تحفظات حاصل کرنے کیلئے جدوجہد کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا ہے۔ ندا فاضلی نے اسی بات کو کچھ اس طرح بیان کیا ہے ؎
کسی کے واسطے راہیں کہاں بدلتی ہیں
تم اپنے آپ کو خود ہی بدل سکو تو چلو