تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
تلنگانہ کے چیف منسٹر نے عوامی جلسوں میں ہمیشہ یہی کہا ہے کہ ان کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے ۔ ان کی حکمرانی بے داغ ہے اور ریاست میں اپوزیشن میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ وہ تلنگانہ عوام کی پسندیدہ حکومت کو کمزور کرسکیں ۔ جلسوں میں بیٹھنے اور نعرے لگانے والوں کو کیا پتہ کہ ٹی آر ایس حکومت کا سیاسی خسارہ کیا ہے ۔ عوامی بہبودی پروگراموں کے نتائج کیا ہیں ۔ ریاست کے خزانے میں گروتھ ریٹ کا خسارہ کیا ہے ۔ چیف منسٹر تو بار بار اپنی حکومت کی چند اچھائیوں کا اعادہ کرتے ہیں ۔ لوڈشیڈنگ کے خاتمہ کی نوید انہوں نے سنائی تھی ، اس پر بہت حد تک عمل ہورہا ہے ۔ شدید گرما کے باوجود آندھرائی حکمرانوں کے برعکس ٹی آر ایس حکومت نے عوام کو برقی سربراہ کی ہے ۔ مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات کے بے پناہ ثمرات کا ذکر کرتے ہیں ۔ تحفظات کی گہری باتوں کا تو بڑے بڑوں کو علم نہیں کہ اس کے اصل فیض یافتگان کون ہیں اور کون ہونے جارہے ہیں ۔ حکومت کے پراجکٹس سے نکلنے والی آمدنی سے کون مستفید ہورہا ہے ۔ ذرا آپ شہری زندگی کا جائزہ لیں تو یہاں سابق حکومتوں نے جو سڑکیں بچھائی تھیں سیوریج لائین ڈالا تھا آج بھی وہی کام باقی ہے نیا کچھ نہیں ہوا ۔ ذرا سی گلی کوچوں کی سیوریج ، سڑک ، فٹ پاتھ ، انڈر پاس اور فلائی اوور یا میٹرو ریلوے کی تعمیر بھی ٹھکیدار کو امیر بنادیتی ہے تو حکومت کے بڑے بڑے پراجکٹس میں کتنے لوگوں کو امیر تر بنا۔۔۔۔ گئے یہ غور کون کرتا ہے ۔ جب سے بی جے پی نے اعلان کیا ہے کہ آئندہ 2019 ء کے انتخابات کے بعد وہ ہی ریاست تلنگانہ میں حکومت بنائے گی اور بی جے پی قومی صدر امیت شاہ کے دورہ تلنگانہ نے چیف منسٹر کے سی آر کی نیندیں اڑادی ہیں ۔ حکومت اپنی ماابقی مدت کے آخری دو سال میں صرف اور صرف عوام سے تحسین کی آرزو رکھتی ہے ۔ امیت شاہ نے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ اور ٹی آر ایس حکومت کے خلاف تلنگانہ عوام کے سامنے جو کچھ کہا ہے اس پر چراغ پا ہوکر کے سی آر نے امیت شاہ سے جھوٹ بولنے کی خاطر معذرت خواہی کا مطالبہ کردیا ہے ۔ سیاسی لیڈر اپنی تقریر میں جو چاہے کہہ سکتا ہے ۔ عوام اس تقریر کا محاسبہ کہاں کرتے ہیں لیکن چیف منسٹر کے سی آر نے امیت شاہ کی تقریر کا محاسبہ کیا تو انہیں بہت ہی دلی تکلیف ہوئی ۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے تلنگانہ کے حق میں بہت کچھ نہ سہی کچھ نہ کچھ کیا ہے تو عوام انہیں اقتدار پر برقرار رکھنے کے متمنی ہوں گے ۔ کے سی آر ہزاردام سے ایک جنبش میں نکلنے کے ماہر ہیں ۔ خوش قسمتی نے زندگی کے ہر موڑ پر ان کا ساتھ دیا ہے ۔ بی جے پی اور امیت شاہ کو جنوبی ہند میں سرچھپانے کے لئے ایک ’’جھونپڑے‘‘ کی ضرورت محسوس ہوتی تھی تو تلنگانہ کے ابتداء میں کے سی آر نے بی جے پی کی جانب جھکاؤ دکھاکر بی جے پی کے لئے تلنگانہ میں جھونپڑے کا انتظام کیا تھا اب اس جھونپڑے کے ذریعہ عالیشان مضبوط سیاسی قلعہ بنانے کی مہم شروع کردی ہے ۔ کچھ ناقدین نے کے سی آر کی بی جے پی کی جانب جھکاؤ کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا تو ٹی آر ایس کے لوگوں نے کہا تھا کہ اس میں حرج ہی کیا ہے ۔ اب یہی حرج سیاسی قرض میں تبدیل ہوگیا ہے یعنی بی جے پی نے تلنگانہ میں اپنی سیاسی جھونپڑے کو مضبوط قلعہ بنانے کی بنیاد ڈالنے سرگرم ہوتی ہے ۔ انگریزی میں ایک محاورہ جو انتباہ دیتا ہے کہ What Goes Around comes Around یعنی جیسی کرنی ویسی بھرنی ۔ ریاست تلنگانہ کو جس مقصد سے حاصل کیا گیا اس کے تحت بی جے پی کی فرقہ پرستی کو فروع دینے کا بھی موقع دیا گیا ۔ فی الحال بی جے پی بظاہر طاقتور نہیں ہے۔ آئندہ انتخابات تک اس نے اپنے کیڈرس کو متحرک کرکے بنیادی کام شروع کردیئے ہیں۔ چیف منسٹر اگر چاہ کر بھی بی جے پی کی لہر کو روکنے کی کوشش کریں تو آیا وہ اس میں کامیاب ہوسکیں گے یہ کہ 2019 ء کے انتخابی نتائج ہی بتائیں گے ۔ جس چیف منسٹر نے اقتدار سنبھالنے کے بعد واستو میں خود کو محصور کرلیا ہے اور سکریٹریٹ جانے سے گریز کرنے لگا ہے تو ایسے واستو کو کٹر طور پر ماننے والے کے لئے کچھ بھی بات غیر واستو ہوسکتی ہے ۔ بی جے پی بھی ان کے لئے واستو کا معاملہ ہوگی ۔ تلنگانہ اپوزیشن تلگودیشم نے کے سی آر کی سکریٹریٹ نہ آنے کی عادت پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ کے سی آر ہی واحد چیف منسٹر ہیں جنہوں نے اپنی ذمہ داریاں سرکاری رہائش گاہ سے انجام دیں ۔ یعنی آج کل جو کلچر چل رہا ہے ورک فرم ہوم سے وہ بھی استفادہ کررہے ہیں ۔ سکریٹریٹ جانے کی زحمت کرنے کے بجائے گھر سے ہی حکمرانی کا کام انجام دے رہے ہیں تو پھر امیت شاہ کو موقع مل گیا تو وہ تلنگانہ اور یہاں کی حکومت پر فقرہ داغ دیں گے ۔ اپنے 3 روزہ دورہ کے دوران امیت شاہ نے ٹی آر ایس حکومت کے خلاف واقعی اندھا دھند جھوٹ پھیلادیا ہے ۔ اب وہ معذرت خواہی نہیں کریں گے بلکہ اپنی پارٹی کے ورکرس کو کے سی آر حکومت کے خلاف مزید مورچہ بندی کی تربیت دیں گے ۔
انہوں نے اپنی مہم کے حصہ کے طور پر بی جے پی کے چار لاکھ ورکرس کو تیار کردیا ہے جو گھر گھر جاکر 8.5 لاکھ بوتھس پر مہم چلائیں گے اور مرکز کی مودی حکومت کی کارکردگی اور کارناموں سے عوام کو واقف کروائیں گے ۔ بی جے پی صدر کا عزم یہ بھی ہے کہ وہ تلنگانہ میں جن سنگھ نظریہ کو فروغ دیں گے ۔ جس کی مدد سے ہی بی جے پی آج سارے ملک پر راج کررہی ہے۔ امیت شاہ کے مطابق ملک میں بی جے پی کے 1387 ارکان اسمبلی ہیں اور 13 ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے پارلیمنٹ میں 330 ارکان پارلیمنٹ کے ساتھ سب سے بڑی پارٹی ہے ۔ مرکز کی حکومت کی طاقت تلنگانہ کی سیاست کو اپنی گرفت میں لے گی تو کے سی آر کا موقف کیا ہوگا ۔ امیت شاہ کا دعویٰ ہے کہ مودی حکومت نے ان تین برسوں میں وہ تمام ترقی حاصل کی ہے جو 70 سال میں کسی بھی سابق حکومتوں نے ترقی نہیں کی تھی ۔
آج ہم کو مودی کی قیادت پر فخر ہے کہ ہندوستانی معاشی سطح پر ساری دنیا میں تیزی سے ترقی کرنے والا معاشی ملک بن رہا ہے ۔ امیت شاہ نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ مرکز نے تلنگانہ کے لئے ان 3 سال میں ایک لاکھ کروڑ روپئے کا زائد فنڈ جاری کیا ہے ۔ تلنگانہ عوام کے حق میں مرکز نے بہت کام انجام دیئے ہیں ۔ جن سنگھ کا جب قیام عمل میں آیا تھا تو اس کے صرف 10 ارکان تھے ۔ اب آج کی جن سنگھ بی جے پی کی شکل میں 11 کروڑ ارکان والی دنیا کی سب سے بڑی پارٹی بن گئی ہے ۔ مہاراشٹرا ، ہریانہ ، جھارکھنڈ جموں و کشمیر ، آسام ، اتراکھنڈ ، اترپردیش ، گوا اور منی پور میں حکومت بنانے کے بعد بی جے پی کو جنوبی ہند کی نوخیز ریاست تلنگانہ سے کافی دلچسپی ہے ۔ اس لئے کے سی آر کو امیت شاہ کے عزائم میں خطرہ نظر آرہا ہے ۔ مگر اس خطرہ کو قوی بنانے والے خود کے سی آر ذمہ دار ہیں اور انہیں خود اس خطرے سے نمٹنا ہوگا ۔ اس لئے انہوں نے امیت شاہ کی دروغ گوئی کا کچا چٹھا نکالنے کے لئے ہنگامی پریس کانفرنس بھی بلائی اور مرکز یا بی جے پی کی پالیسیوں کے حوالے سے بتایا کہ ریاست تلنگانہ کو جو کچھ فنڈ دیا گیا وہ ایک مرکزی حکومت کا علاقائی حکومت کے حق میں ذمہ داری پوری کرنا ہے ۔ مرکز نے ریاست کو فنڈ دیا ہے ۔ بی جے پی نے نہیں جبکہ صدر بی جے پی تلنگانہ میں عوام کو یہ باور کرارہے ہیں کہ بی جے پی نے اپنی جیپ سے فنڈس فراہم کئے ہیں ۔ تاہم چیف منسٹر کے سی آر کو مرکز کی طاقت کا اندازہ بھی ہے اس لئے انہوں نے وزیراعظم نریندر مودی کی بڑی عزت کرنے کا اعادہ کرکے خود کو مودی کے عتاب سے بچائے رکھنے کی بھی کوشش کی ہے ۔ کے سی آر نے نریندر مودی حکومت کے ساتھ دستوری تعلقات برقرار رکھنے کی خواہش ظاہر کی ہے ۔ ایسا تو ہر ریاست کی حکومت کو کرنا ہی پڑتا ہے ۔ امیت شاہ کے دورے اور ان کے بیانات کے جواب میں کے سی آر کا فوری طور پر شدید ردعمل ظاہر کرتا ہے کہ انہیں خطرے کی گھنٹی سنائی دے رہی ہے اور آنے والے دنوں میں سیاسی سنگینوں کا اندازہ ہوچکا ہے لیکن انہیں یہ یقین رکھنا چاہئیے کہ ریاست تلنگانہ کے عوام نے ان پر کافی اعتماد کیا ہے اور یہ اعتماد اس حد تک بحال رہے گا جب تک وہ عوام سے کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے میں کامیاب ہوں گے ۔ بلکہ وہ ایک ریاست تلنگانہ کو مال مفت دل بے رحم کی مثال بننے نہیں دیں گے ۔ اس سال کی تلنگانہ یوم تاسیس منانے کے بعد ان کے پاس صرف ایک سال رہ جاتا ہے کہ وہ عوام کو اپنے انتخابی وعدوں کے ثمرات سے لطف اندوز یا مستفید ہونے کا موقع دیں ایسے ہی کام ان کے لئے اقتدار سے قریب رکھنے میں معاون ثابت ہوں گے ۔