محمد مصطفے علی سروری
ہریانہ کے اسکول کی ایک کلاس کا منظر ہے ۔ ساتویں کلاس کے طلباء کو تین سبجیکٹس میں سے کسی ایک کا انتخاب کرناہے ۔ (12) برس کی ایک لڑکی اپنے لئے سنسکرت کا انتخاب کرتی ہے اور بڑی خوشی خوشی کے ساتھ سنسکرت کی کلاس میں شرکت کرنے جاتی ہے ۔ جب سنسکرت کے ٹیچر اس لڑکی کو اپنی کلاس میں دیکھتے ہیں تو فوراً کہنے لگتے ہیں کہ ’’ارے تم یہاں کیا کر رہی ہو تمہیں تو وہی کام کرنا جو تمہارے ماں باپ نے کیا ہے ، جاؤ لوگوں کے بیت الخلاء صاف کرو، کوشل پنوار نام کی یہ لڑکی ٹیچر کی یہ بات سن کر بھی کلاس نہیں چھوڑتی ہے اور اگلے دن بھی بدستور سنسکرت کی کلاس باضابطہ طور پر اٹینڈ کرتی ہے۔
قارئین کوشل دراصل درج فہرست ذات (ایس سی) طبقے سے تعلق رکھتی ہے اور اس کے والدین بالمیکی ذات سے تھے یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کے بیت الخلاء صاف کرنے کے کام کرتے ہیں لیکن کوشل اپنے والدین کے پیشے کو اختیار کرنا نہیں چاہتی تھی ، وہ تو پڑھ لکھ کر بڑا انسان بننا چاہتی تھی ۔ کوشل نے جب سنسکرت پڑھنے کا فیصلہ کیا تو اس کو پتہ نہیں تھا کہ تعلیم میں بھی بعض (Subjects) ایسے ہیں جو صرف اونچی ذات کے لوگ پڑھ سکتے ہیں اور ایس سی لوگ نہیں پڑھ سکتے۔ مگر اسکول سرکاری تھا اور ٹیچر بھی سرکاری ملازم وہ کوشل کو ستا تو سکتے تھے مگر سنسکرت پڑھنے سے منع نہیں کرسکتے تھے ، اس ٹیچر نے کوشل کو سنسکرت پڑھنے کی اجازت تو دے دی مگر وہ کلاس میں سب سے پیچھے آخری بنچ پر ہی بیٹھ سکتی تھی ، کوشل نے اسکول میں اپنے ساتھ ہورہی اس بے عزتی کو برداشت کیا کیونکہ وہ پڑھنا چاہتی تھی ۔ کوشل کو پینے کے پانی سے لیکر اسکول میں ڈریس پہننے تک ہر معاملے میں امتیاز کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا ۔ کوشل نے ہر قدم پر ہر مشکل کا سامنا کیا ۔ کوشل کے والد اس سے کہا کرتے تھے کہ اونچی ذات کے لوگ جوچاہے کرسکتے ہیں، تم جب تک اس ٹیچر سے زیادہ اور اعلیٰ تعلیم حاصل نہ کرلو کچھ نہیں کرسکتے ۔ حالانکہ کوشل کے والدین غریب اور قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے تھے ۔ کوشل جب بھی اپنے ساتھ ناانصافی کا ذکر کرتی تو اس کے ان پڑھ والدین کہتے تھے کہ تم خود پڑھ لو اور معلوم کرو کہ اونچی ذات اور چھوٹی ذات کیوں ہے اور کس لئے بنائی گئی۔
کوشل نے سنسکرت زبان سے ہی گریجویشن پورا کیا اور جے این یو سے سنسکرت میں ڈاکٹریٹ (Ph.D) کی ڈگری حاصل کی ۔ کوشل کی عمر آج 39 برس ہے وہ دہلی یونیورسٹی کے موتی لال نہرو کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر کارگزار ہے ۔ ایک ایس سی طبقے سے اپنے تعلق کو کوشل نے آج بھی بالکل نہیں چھپایا ، وہ کہتی ہیں کہ ہاں میں بالمیکی ہوں اور لوگوں کے امتیاز سے بچنے کیلئے میں نے اپنی ذات کی شناخت کو نہیں چھپایا ہے ۔ میرے بچپن سے لیکر کالج کے دنوں تک اور دہلی میں رہتے ہوئے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے تک ہر مرحلے پر مجھے میری ذات کا طعنہ دیا گیا ۔ کوشل نے اپنے والدین اور گھر والوں کے پیشے کو کبھی بھی خراب نہیں سمجھا ۔ یہاں تک اپنی ایم اے کی تعلیم کے دوران بھی وہ ایک دن اپنی خالہ کے ہمراہ ایک گھر میں بیت الخلاء صاف کرنے گئی تھی تو وہاںجاکر پتہ چلاکر وہ تو اس کی کلاس میٹ (ہم جماعت لڑکی) کا گھر ہے۔ جے این یو میں اس کے ساتھی طلباء نے اس کی ذات معلوم ہونے پر کہا تھا کہ ہمیں اس بنچ پر ھون کروانا چاہئے جہاں کوشل بیٹھا کرتی ہے۔ اپنی ذات کے متعلق اتنے ریمارکس اور طعنے سننے کے بعد کوشل ہر بار اپنے آپ سے عہد کرتی تھی کہ مجھے اور محنت کرنی ہے اور اچھا پڑھنا ہے ۔ دنیا نے دیکھا کہ کیسے ایک ایس سی کی لڑکی نے سنسکرت میں پی ایچ ڈی کی تک ڈگری حاصل کرلی کہ لوگ اس کی سنسکرت کو سن کر کہنے لگے کہ تم تو اتنا اچھا سنسکرت پڑھ لیتی ہو۔ کیا تم واقعی دلت ہو ؟
یہ ایک دلت لڑکی کی کہانی نہیں بلکہ ہمارے ملک ہندوستان کے بیشتر دلتوں (نچلی ذات) کے ساتھ کا معاملہ ہے ۔ کوشل پنوار نچلی ذات کی ہونے کے باوجود اس حوالے سے خوش قسمت ہے کہ اس نے کامیابی حاصل کی اور آج دہلی یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدہ پر فائز ہے ، بی بی سی سے لیکر بڑے بڑے میڈیا کے گھرانے اس کا انٹرویو کرتے ہیں۔ آج کے کالم میں ایک دلت خاتون کی جدوجہد کو بیان کرنے کا مقصد اردو قارئین کو اور مسلمانوں کو اس جنگ کے بارے میں واقف کروانا ہے جو ہما رے ملک ہندوستان کے بہت سارے دلت حضرات لڑ رہے ہیں، یہ ایک دن کی بات نہیں ، آزادی کے بعد سے ہر روز ان کی جنگ جاری ہے اور سماجی ، معاشی ، تہذیبی ہر سطح پر ان لوگوں کے ساتھ امتیاز اور تعصب برتا جارہا ہے ۔
ہندوستان میں شیڈولڈ کاسٹ SC کل آبادی کا 16.6 فیصد ہیں اور ان کے خلاف جرائم کے اعداد و شمار کا تجزیہ کریں تو پتہ چلے گا کہ ان کیلئے اس ملک میں کتنے سنگین مسائل درپیش ہیں۔ سال 2015 ء کے دوران نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (NCRB) کے مطابق درج فہرست ذاتوں کے خلاف (45003) کیس درج کئے گئے جو کہ کل جرائم کا 22.3)) فیصد ہے ۔ اگر اب بھی ان جرائم کے متعلق قارئین آپ اندازہ نہیں کر پارہے ہیں تو ذرا اس خبر کو پڑھ لیجئے کہ ابھی 28 جون 2017 ء کو نیوز 18 نے ایک خبر دی کہ آندھراپردیش کے ضلع مغربی گوداوری میں ایک گا ؤں کے دلتوں (نچلی ذاتوں) کو دو مہینوں سے سماجی بائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور یہ جان کر بڑا تعجب ہوگا کہ یہ بائیکاٹ اس لئے کیا جارہا ہے کہ گا ؤں کے دلتوں نے وہاں بھیم راؤ امبیڈکر کا ایک مجسمہ نصب کردیا ہے ۔ یہی نہیں امبیڈکر کے مجسمے کو نصب کرنے میں گا ؤں کے جن دوسرے لوگوں نے دلتوں کی مدد کی ، ان پر بھی 500 تا ایک ہزار روپئے کا جر مانہ لگایا گیا ہے ۔
کتنی معمولی معمولی باتوں پر دلتوں کو جان سے تک مار ڈالا جاتا ہے ، یہ جاننے کیلئے 25 جولائی 2017 ء کو ہندوستان ٹائمز اخبار میں شائع ہونے والی دو حصوں کی نیہا ماسی کی رپورٹ ملاحظہ کی جاسکتی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق ہریانہ کے 17 سالہ شیو کمار کو صرف اس لئے ستایا جاتا ہے کہ دلت ہونے اور پاؤں میں جوتے نہیں ہونے کے باوجود یہ نوجوان گاؤں میں دوڑ کے ہر مقابلے میں اول آتا ہے ۔
1991 ء کا ایک واقعہ رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ آندھراپردیش میں 8 دلتوں کو صرف اس لئے موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا کہ ایک دلت کا پاؤں کسی اونچی ذات کے شخص کو لگ گیا اورایک دلت کو اونچی ذات والوں نے اخبار پڑھتے ہوئے دیکھ لیا ، بس کیا تھا 8 دلتوں کو قتل کر کے تھیلوں میں ان کی نعشوں کو ڈال کر پانی میں بہا دیا گیا ۔
سال 2016 ء کی بات ہے ، اخبار انڈین اکسپریس کی رپورٹ کے مطابق گجرات کے اناؤ علاقے میں چار دلتوں کو گائے مارنے کے الزام میں برسر عام مارپیٹ کا نشانہ بنایا گیا ۔ سر عام اس تذلیل سے تنگ آکر اناؤ کے دلتوں نے بدھ ازم اختیار کرلیا۔ بدھسٹ سوسائٹی آف انڈیا کے چیرمین پی جی جیوتیکار کے مطابق اناؤ میں ہوئے واقعہ کے بعد ایک ہزار سے زائد دلتوں نے بدھ ازم اختیار کرلیا ہے ۔ ڈی این اے انڈیا کی 23 جولائی 2016 ء کی رپورٹ کے مطابق کیرالا سے تعلق رکھنے والی ایک دلت لڑکی جو کرناٹک کے ایک نرسنگ کالج میں پڑھ رہی تھی کو اس کے ساتھی طالبات نے بیت الخلاء ٹوائیلٹ صاف کرنے والا کیمیکل پینے پر مجبور کردیا تھا ، لڑکی کو شدید خراب حالت میں دواخانہ سے رجوع کیا گیا۔ اخبار پڑھتا ہوا دلت مار ڈالا گیا ، کسی دلت کا ا ونچی ذت کو پاؤں لگ گیا ، اس کو قتل کردیا گیا ۔ ایک لڑکی پسماندہ ذات سے تعلق رکھتی ہے اور اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہی ہے ، اس کو کیمیکل پینے پر مجبور کردیا گیا ۔ ایک غریب دلت پاؤں میں پہننے کیلئے جوتے نہیں ہونے کے باوجود دوڑ لگانے میں ہر مرتبہ اول آجاتا ہے تو اس کو اونچی ذ ات کے لوگ ستانے لگتے ہیں۔ دلتوں اور پسماندہ ذاتوں پر ظلم کی ملک بھر میں دو ایک نہیں بلکہ سال 2015 میںپینتالیس ہزار شکایات پولیس میں درج ہوتی ہے۔
ٹی آر رامچندرن ایک صحافی ہیں، انہوں نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ ہندوستان میں دلتوں کے خلاف بہت سنگین حالات ہیں، ایک دن میں تین دلت خواتین کی عصمت ریزی کی جاتی ہے ۔ ہر 18 منٹ کے دوران ایک دلت کے خلاف زیادتی کی جاتی ہے ۔ یہاں تک کہ سرکاری اسکولس میں بھی دلتوں کو سب کے ساتھ بیٹھنے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے بلکہ دلتوں کو پولیس اسٹیشن جانے کی بھی اجازت نہیں دی تی ہے ۔ یعنی ان کے ساتھ اگر زیادتی ہوجائے تب بھی ان کو پولیس اسٹیشن جانے سے منع کیا جاتا ہے اور یہ ظلم کوئی پچھلے دو ایک برس کی بات نہیں بلکہ آزادی کے بعد بھی مسلسل جاری ہے ۔
گزشتہ چند برسوں کے دوران ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف جرائم کی شرح میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے ۔ مسلمانوں کو ہی نہیں دیگر برادران وطن کو بھی اس پر تشویش ہے۔ دلتوں پر ہونے والے جرائم اور مظالم کی طویل فہرست گنوانے کا مقصد یہ تھا کہ ملک کی موجودہ صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ مسلمان اپنے ساتھ ہورہی ناانصافی ظلم و زیادتی کو ہی ناانصافی و ظلم زیادتی نہ سمجھیں بلکہ ناانصافی ظلم و زیادتی اگر دلت اور پسماندہ طبقات کے خلاف بھی ہورہی ہے تو اس کو بھی ویسے ہی سنگین سمجھیں اور دیگر برادران وطن کے درد کو بھی سمجھیں اور اس بات کو سمجھ لیں جیسا کہ ایک غیر مسلم دلت اسکالر کا اصرار ہے کہ مسلمان دلتوں کو ہندوؤں میں شمار نہ کریں کیونکہ دلت خود کو ہندو نہیں مانتا اور خود ہندو انہیں ا پنے برابر کا نہیں بلکہ چھوٹی ذات کا مانتا ہے۔
آج کتنے مسلمان اس بات سے واقف ہیںکہ جین ہندو نہیں ، بدھسٹ ہندو نہیں ، سکھ ہندو نہیں ، سب ہندو برہمن نہیں اور سب سے اہم بات کہ ہر ہندو آر ایس ایس سے متعلق نہیں، کاش کہ کوئی سمجھائے ہم ہندوستانی مسلمان ، اس ملک میں دیگر طبقات کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں پربھی آواز اٹھائیں ورنہ کہیں کوئی یہ پوچھے کہ
تمہارا خون خون ہے اور ہمارا خون پانی
عقل مند کیلئے یہ سارا پس منظر کافی ہونا چاہئے اور ہر دانشمند کو سمجھ لینا چاہئے کہ ایک دلت کو آخر کار کیوں صدر جمہوریہ بنایا گیا ہے۔
اللہ تعالی ہم سب کو نیک توفیق عطا فرمائے (آمین)
sarwari829@yahoo.com