غضنفر علی خان
ملک میں عام انتخابات اب بالکل اختتامی مراحل پر ہیں اور ابھی مطلع صاف نہیں ہوا ہے۔ البتہ یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ نتائج کے بعد معلق پارلیمنٹ وجود میں آئے گی۔ اس میں سب سے زیادہ نقصان بی جے پی کو ہوگا۔ لیکن بی جے پی بھی آسانی سے اقتدار کو نہیں چھوڑے گی۔ یہ پارٹی بھی اپنے دائو پیچ اور زور لگائے گی کیونکہ آج جتنی سیاسی پارٹیاں ہیں بشمول کانگریس ان کا مقصد صرف اپنی حکومت بنانا ہے ملک کی آزادی کے دوران سیاسی پارٹیوں کے مقاصدکچھ اور ہوا کرتے تھے جن میں اقتدار کا حصول بھی شامل تھا لیکن یہ واحد مقصد نہیں تھا اب حکومت بنانا ہی اولین مقصد ہوگیا ہے۔ 70 سال پہلے سیاسی پارٹیوں کے پیش نظر ملک، عوام اور ان کی فلاح و بہبود ہوا کرتی تھی۔ اب یہ عالم ہے کہ پارٹیاں تمام اعلی اقدار کو ترک کرچکی ہیں اور صرف یہ چاہتی ہیں کہ بڑا سا بڑا نقصان ہو اور ملک تباہ ہوجائے لیکن اقتدار ہم کو ملنا چاہئے۔ اس نئے سیاسی رجحان نے بی جے پی میں گزشتہ پانچ سالوں میں بے تحاشہ اضافہ کردیا ہے۔ اصول شکنی تو تمام پارٹیاں کرتی ہیں اور کررہی ہیں لیکن اس کو اپنی انتہا تک پہنچانے میں بی جے پی سرفہرست ہے۔ خاص طور پر مودی جی نے اپنی پارٹی اور کچھ ذاتی طور پر اپنے اقتدار کو بچانے اور قائم رکھنے کے لیے ہر قسم کی زور آزمائی کی ہے ابھی نتائج نہیں آئے ہیں لیکن خود بی جے پی کو یہ اندیشہ لاحق ہوگیا ہے کہ اس کو عوام اقتدار نہیں سونپیں گے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر مودی کی پارٹی سب سے بڑی اکثریت حاصل کرنے والی پارٹی بن کر ابھرے تو اس کو دیگر پارٹیوں کی حمایت حاصل کرنی پڑے گی، یہ کام بی جے پی کے لیے کوئی مشکل کام نہیں ہوگا۔ آج جب کہ اقتدار سب کچھ بن چکا ہے۔ کم اکثریت رکھنے والے پارٹیوں کو اقتدار کا مقناطیس اپنی جانب کھینچ سکتا ہے لیکن یہ بات تمام سیاسی پارٹیوں کے لیے نہیں کہی جاسکتی۔ دوسرا گروپ اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد ہے جو اقتدار کا دعوی پیش کرسکتا ہے اگر وہ جماعتیں جو بی جے پی کے فرقہ پرستانہ نظریات سے سخت اختلاف کرتی ہیں وہ ایک طاقت بن کر بی جے پی کے مذموم یاروں اور کوششوں کو ناکام بناسکتی ہے۔ ایسی صورت میں ایک اہم سوال اپوزیشن اتحاد کو یہ رہے گا کہ اس متحدہ حکومت میں وزیر اعظم کون بنے گا؟ صدر کانگریس راہول گاندھی نے تو یہ صاف کہہ دیا ہے کہ اگر کانگریس پارٹی تنہا مطلوبہ اکثریت حاصل نہ کرسکے تو وہ وزارت عظمی کے عہدہ کو قبول نہیں کرے گی۔ ایک لحاظ سے کسی ایک امیدوار پر وزارت عظمی کا تاج رکھنا نسبتاً اپوزیشن کے لیے آسان ہوجائے گا۔ ان کے علاوہ مغربی بنگال کی چیف منسٹر ممتا بنرجی نے بہوجن سماج کی لیڈر مایاوتی کے حق میں اپوزیشن کے وزیراعظم کا کوئی حل نکل سکتا ہے، ہمارے دور کی اس سیاست میں عجیب اتفاق یہ ہے کہ علاقائی سیاسی پارٹیوں میں ایسے لیڈرس پیدا ہوئے ہیں جو وزیراعظم ہونے کا دعوی پیش کرسکتے ہیں۔ اس سے پہلے کانگریس کے دور اقتدار میں نہرو خاندان ہی کانگریس میں ایسا لیڈر رکھتی تھی جس کے وزیراعظم بننے پر کوئی انگلی نہیں اٹھاسکتا تھا۔ کانگریس کے لیے بھی یہ دور ختم ہوگیا ہے اور یہ توقع بھی نہیں کی جاسکتی کہ کانگریس نسبتاً اس ملک میں اتنی بھاری اکثریت حاصل کرے کہ صرف اسی کے کسی لیڈر کو وزیراعظم بنایا جائے۔ بی جے پی میں نہ تو علاقائی سطح کے کسی لیڈر میں ایسی صلاحیت ہے کہ وہ ملک کا وزیراعظم بن سکے اور مرکزی سطح پر بھی سوائے مودی کے اور کوئی لیڈر کل ہند سطح پر مضبوط ہے۔
آج بھی خود بی جے پی پارٹی میں ایسی آوازیں سننے میں آرہی ہیں کہ مودی اور صدر بی جے پی امیت شاہ ہی دو لیڈرس ہیں جن کے اختیارات لا محدود ہیں اور جو ملک کے کسی بھی عہدہ پر فائز ہوسکتے ہیں۔ بی جے پی کے موجودہ لیڈروں میں ایسا ایک گروپ پیدا ہوچکا ہے جو ان دونوں کی حکمرانی سے بے حد بیزار ہوچکا ہے۔ خود مرکزی وزیر نتن گڈکری نے ا بھی کچھ دنوں پہلے کہا ہے کہ امیت شاہ اور مودی دونوں صرف افراد ہیں اور بی جے پی ایک ایسی جماعت ہے جس میں کسی لیڈر کو بھی مرکزی اہمیت حاصل نہیں ہے اور نہ اختیارات ان دونوں پر مرکوز ہیں۔ بی جے پی کو اگر اکثریت حاصل نہ ہونے کے باوجود ہیر پھیر سے حکومت بنابھی لیتی ہے تو ان دونوں کا اور خود بی جے پی کا دبدبہ جو پچھلے پانچ برسوں میں رہا ہے وہ قائم نہیں رہ سکتا، بڑے سے بڑے لیڈر کے خلاف خود ان کی اپنی پارٹی میں بغاوت کا ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے اور نہ ہی بی جے پی، ویسا اختیار قائم رکھ سکتی ہے جو پانچ برسوں میں رہا ہے۔ اس سے نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ بی جے پی کے دعوے کے مطابق (اچھے دن) نہ پانچ برسوں میں کبھی آئے اور نہ آئندہ کبھی آسکتے ہیں۔ ایک اشارہ اپوزیشن کی جانب سے یہ بھی ملا ہے کہ اگر اپوزیشن کی بڑی جماعتیں 182 سیٹیں حاصل کرلیتی ہے تو اپوزیشن حکومت سازی کے لیے اپنا دعوی پیش کرے گی اس سلسلہ میں بہت کوششیں ہورہی ہیں۔ ان پانچ بڑی اپوزیشن پارٹیوں کے علاوہ اقتدار کا مقناطیس کئی اور چھوٹی پارٹیوں کو تنکوں کی طرح اپنی جانب کھینچ لے گا اس کے علاوہ آئندہ پارلیمنٹ میں اپوزیشن کا عددی موقف اتنا مستحکم ہوگا کہ بی جے پی کبھی بھی اپنی من مانی نہیں کرسکے گی اور لوک سبھا کے عددی موقف کی وجہ سے راجیہ سبھا میں بھی بی جے پی کا موقف مزید کمزور ہوجائے گا جہاں پہلے ہی سے ان کا موقف کمزور ہے۔ جنوبی ریاستوں میں کسی ریاست سے بھی بی جے پی کی بڑی انتحابی کامیابی کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔
ان جنوبی ریاستوں میں خود ہماری ریاست تلنگانہ شامل ہے جہاں سے بی جے پی ہر قسم کا زور لگانے کے باوجود یہاں کی حکمران پارٹی ٹی آر ایس کی کامیابی کو روک نہیں سکتی۔ یہی حال دوسری تلگو ریاست آندھراپردیش کا ہے جہاں این چندرا بابو نائیڈو اور سابق وزیراعلی ڈاکٹر راج شیکھر ریڈی کے صاحبزادے جگن موہن ریڈی کی اپنی پارٹی بی جے پی کو کامیابی سے روک چکی ہے۔ کیرالا میں بی جے پی کا نہ تو کوئی بنیادی ڈھانچہ ہے اور نہ پارٹی کا اثرورسوخ ہے۔ جنوبی ریاست تمل ناڈو میں ڈی ایم کے اور اناڈی ایم کے ہرگز بی جے پی کو کامیاب ہونے نہیں دیں گے اس لحاظ سے ان چاروں جنوبی ریاستوں سے بی جے پی سے زیادہ امیدیں نہیں کی جاسکتیں۔ شمال کی ہندی بولنے والی ریاستوں میں بی جے پی کا برا حال ہے یا کم از کم وہ خوشی بی جے پی کو حاصل نہیں ہورہی ہے جو 2014ء میں ہوئی تھی۔ آثار و قرائین سے اور خود مودی کی حواس باختگی کو دیکھ کر یہ انداز ہورہا ہے کہ ان ریاستوں میں بھی بی جے پی اپنی کارکردگی کو کوئی اچھا نام نہیں دے سکتی۔ یہاں پر بھی شکست یا پہلے کی بہ نسبت کمتر کامیابی بی جے پی کا مقدر نظر آرہی ہے۔