محمد نعیم وجاہت
عزت نفس کی بنیاد پر تشکیل پانے والی علاقائی جماعت تلگودیشم اپنے قیام کے 35 سال مکمل کرنے تک قومی جماعت میں تبدیل ہوگئی۔ علاقائی اور قومی سیاست میں کئی انقلاب برپا کرنے والی تلگودیشم پارٹی کو کئی نشیب و فراز کا سامنا کرنا پڑا۔ 35 سال میں حالات تبدیل ہوگئے ہیں۔ کیا چندرابابو نائیڈو موجودہ چیالنجس کا سامنا کرپائیں گے۔ این ٹی آر نے علاقائی پارٹی تشکیل دیتے ہوئے جو بیج بویا تھا اس کو وہ قومی سطح پر تناور درخت میں تبدیل کرپائیں گے ، ایسے کئی سوالات ہیں جو عوام اور پارٹی کیڈر کے ذہنوں میں اُبھر رہے ہیں۔
کسان گھرانے میں پیدا ہوئے این ٹی راما راؤ اداکاری کے معاملہ میں خداداد صلاحیتوں کے مالک تھے۔ ٹالی ووڈ میں داخلہ لیتے ہوئے وہ اپنے کردار کے ذریعہ ایسے نقوش چھوڑے کہ دیکھتے ہی دیکھتے سوپر اسٹار بن گئے۔ تلگو عوام ان کی اداکاری کے دیوانے ہوگئے اور ان کے چاہنے والوں نے انھیں بھگوان کے روپ میں دیکھنا شروع کردیا۔ اس وقت ریاست اور مرکز پر کانگریس کی حکمرانی تھی۔ بحیثیت وزیراعظم اندرا گاندھی جب دورہ حیدرآباد پر آئی تھیں تو اُنھیں اندرا گاندھی سے ملاقات کا موقع نہیں مل سکا جسے این ٹی راما راؤ نے اپنی توہین سمجھا۔ چند ماہ بعد راجیو گاندھی بھی حیدرآباد کے دورہ پر آئے تب اُس وقت کے چیف منسٹر وینگل راؤ کی کسی مسئلہ پر توہین کی۔ اُس وقت ریاست کے مقدر کے فیصلے دہلی سے ہوا کرتے تھے جس کو بنیاد بناکر این ٹی راما راؤ نے تلگو عوام کی عزت نفس اور تلگو عوام کی حکمرانی کے لئے 29 مارچ 1982 ء کو نیو ایم ایل اے کوارٹرس کے ایک چھوٹے سے کمرے سے علاقائی تلگودیشم پارٹی تشکیل دینے کا اعلان کیا جس سے ریاست کی سیاست میں ہلچل پیدا ہوگئی۔
فلم اسٹار سے سیاستداں بننے والے این ٹی آر نے 9 ماہ تک ریاست آندھراپردیش کے چپے چپے کا دورہ کرتے ہوئے اپنے منفرد انداز بیان سے کانگریس کی عوام دشمن پالیسیوں کو پیش کرتے ہوئے کانگریس سے بدظن عوام کے لئے تلگودیشم کو متبادل کے طور پر پیش کرتے ہوئے قلیل مدت میں اقتدار حاصل کرتے ہوئے تاریخ بنائی۔ پسماندگی، زراعت، بی سی طبقہ، خواتین اور نوجوانوں کے مسائل کو موضوع بناتے ہوئے این ٹی آر کو عوام نے چیف منسٹر بنادیا۔ اُس وقت اُنھوں نے نوجوانوں اور خواتین کو میدان سیاست میں متعارف کرایا جو آج ریاست اور قومی سطح پر اہم رول ادا کررہے ہیں۔ اُن میں چندرابابو نائیڈو بھی شامل ہیں۔ جب این ٹی آر نے تلگودیشم پارٹی تشکیل دی تھی اُس وقت چندرابابو نائیڈو ، این ٹی آر کے داماد ضرور تھے تاہم وہ کانگریس کے رکن اسمبلی تھے اور انھوں نے این ٹی آر کی جانب سے تلگودیشم پارٹی تشکیل دینے کے بعد بھی تلگودیشم کے بجائے کانگریس سے مقابلہ کیا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ وہ شکست کے بعد تلگودیشم میں شامل ہوگئے۔ اُس وقت این ٹی آر کے فرزند ہری کرشنا اور ان کے بڑے داماد ڈی وینکٹیشور راؤ این ٹی آر کے ساتھ تھے۔ اقتدار حاصل کرنے کے دو سال بعد اپنے قریبی ساتھی این بھاسکر راؤ کی بغاوت کو کچلنے اور تازہ انتخابات کراتے ہوئے دوبارہ اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہونے والے این ٹی آر 1995 ء میں اپنے داماد اور ارکان خاندان کی جانب سے کی جانے والی بغاوت کا مقابلہ کرنے میں ناکام ہوگئے۔ اپنے دور حکومت میں این ٹی آر نے کئی فلاحی اقدامات کئے۔ مقامی اداروں میں خواتین اور بی سی طبقات کو تحفظات فراہم کئے۔ پٹیل پٹواری نظام کا خاتمہ کرتے ہوئے منڈل سسٹم کو رائج کیا۔ علاقائی اور قومی سطح پر مخالف کانگریس نظریات رکھنے والی سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرتے ہوئے نیشنل فرنٹ تشکیل دیا اور خود اس کے صدرنشین بن گئے اور وی پی سنگھ کو وزیراعظم بنانے میں اہم رول ادا کیا۔ اُس وقت نیشنل فرنٹ میں بی جے پی بھی شامل تھی جس کے صرف دو ارکان پارلیمنٹ واجپائی اور اڈوانی تھے۔ ریاست کے چیف منسٹر رہتے ہوئے قومی سطح پر اہم رول ادا کرنے والے این ٹی آر نے لکشمی پاروتی سے شادی کی جو ان کے ارکان خاندان کو پسند نہیں آئی۔
دیکھتے ہی دیکھتے حکومت اور پارٹی میں لکشمی پاروتی کی مداخلت بڑھ گئی۔ جس پر این ٹی آر کے ارکان خاندان، فرزندان ، دختران اور دامادوں نے منصوبہ بندی کرتے ہوئے این ٹی آر سے اقتدار سے بیدخل کردیا۔ پارٹی کے تمام ارکان اسمبلی، ارکان پارلیمنٹ اور دوسرے قائدین کی تائید حاصل کرتے ہوئے چندرابابو نائیڈو کو چیف منسٹر کے ساتھ پارٹی کا صدر بھی نامزد کردیا۔ این ٹی آر کی ایک نہیں سنی گئی۔ این ٹی آر نے جنھیں سیاسی زندگی عطا کی تھی اُن تمام قائدین نے چندرابابو نائیڈو کی تائید کا اعلان کیا۔ این ٹی آر نے قومی سطح پر جو محاذ تیار کیا تھا اُن میں بیشتر قائدین نے بھی چندرابابو نائیڈو کا ساتھ دیا۔ 1999 ء کے عام انتخابات سے قبل این ٹی آر نے این ٹی آر تلگودیشم تشکیل دے کر عوام سے رجوع ہوئے۔ تاہم ریاست کے عوام نے اس مرتبہ این ٹی آر کی تائید نہیں کی۔ 1999 ء کے عام انتخابات سے قبل این ٹی آر نے این ٹی آر تلگودیشم تشکیل دے کر عوام سے رجوع ہوئے۔
تاہم ریاست کے عوام نے اس مرتبہ این ٹی آر کی تائید نہیں کی۔ دوبارہ اقتدار چندرابابو نائیڈو کے حوالے کردیا جس کے صدمے سے این ٹی آر چل بسے۔ جس کے بعد سے تلگودیشم پارٹی پر چندرابابو نائیڈو کی پکڑ مضبوط ہوگئی۔ این ٹی آر کے ارکان خاندان میں پھوٹ پڑگئی۔ آنجہانی قائد کی بڑی دختر پرندیشوری کانگریس میں شامل ہوگئیں۔ مرکزی وزیر کی حیثیت سے کام کیا۔ تاہم تقسیم آندھراپردیش پر وہ بطور احتجاج بی جے پی میں شامل ہوگئیں۔ ان کے شوہر سیاست سے سبکدوش ہوگئے۔ ہری کرشنا فی الوقت چندرابابو نائیڈو سے ناراض ہیں۔ تو چندرابابو نائیڈو نے ان کے چھوٹے بھائی فلم اسٹار بالا کرشنا کو رکن اسمبلی بنادیا اور ان کی دختر کو اپنی بہو بناتے ہوئے رشتوں کو مزید مضبوط کردیا۔ این ٹی آر سے اقتدار چھین لینے کے بعد چندرابابو نائیڈو نے بھی قومی سیاست میں اہم رول ادا کیا اور کانگریس کے خلاف ایک اور محاذ یونائیٹیڈ فرنٹ تشکیل دیا اور اُس کے کنوینر کی حیثیت سے قومی سیاست میں اپنی پہچان بنائی۔ دیوے گوڑا اور اندر کمار گجرال کو وزیراعظم بنانے میں چندرابابو نائیڈو کا کلیدی کردار رہا۔ 1999 ء میں واجپائی حکومت کی باہر سے تائید کی۔ 2004 ء سے 2014 ء تک اقتدار سے محروم رہے۔ 2004 ء میں علیحدہ تلنگانہ کی مخالفت کرنے والے چندرابابو نائیڈو نے 2009 ء کے عام انتخابات میں تلنگانہ کی تائید کی۔ 2014 ء میں جب کانگریس کی جانب سے علیحدہ تلنگانہ ریاست تشکیل دی گئی تو اس کی مخالفت کی اور بی جے پی کے ذریعہ قیادت این ڈی اے میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے بی جے پی کے ساتھ اتحاد کرتے ہوئے تلنگانہ اور آندھراپردیش میں مقابلہ کیا۔ تلنگانہ کی مخالفت کی وجہ سے تلگودیشم پارٹی عوام کی تائید سے تلنگانہ میں محروم ہوگئی۔ تاہم متحدہ آندھرا کی تائید سے آندھراپردیش کے عوام نے انھیں اقتدار سونپا۔ ساتھ ہی تلگودیشم پارٹی این ڈی اے حکومت کا بھی حصہ بنی ہوئی ہے۔ علیحدہ تلنگانہ ریاست کی تشکیل کے بعد چندرابابو نائیڈو نے تلگودیشم پارٹی کو قومی پارٹی میں تبدیل کردیا۔ پڑوسی ریاستوں کرناٹک، کیرالا، ٹاملناڈو اور مہاراشٹرا میں پارٹی کی رکنیت سازی مہم چلائی گئی۔ چندرابابو نائیڈو کے فرزند نارا لوکیش کو قومی تلگودیشم پارٹی کا جنرل سکریٹری نامزد کیا گیا۔ آندھراپردیش کی تقسیم کے بعد تلگودیشم پارٹی کو قومی جماعت میں تبدیل کردیا گیا مگر تلنگانہ میں تلگودیشم پارٹی انتہائی کمزور ہوگئی۔ 2014 ء کے عام انتخابات میں تلنگانہ سے تلگودیشم کے 15 ارکان اسمبلی منتخب ہوئے تھے جن میں 12 ارکان اسمبلی حکمراں ٹی آر ایس میں شامل ہوچکے ہیں۔ شہر اور اضلاع میں تلگودیشم کے قائدین اپنے سیاسی مستقبل کو تاریک محسوس کرتے ہوئے ٹی آر ایس میں شامل ہوچکے ہیں۔ مخالف کانگریس وجود میں آنے والی تلگودیشم پارٹی نے مقامی اداروں کے ایم ایل سی انتخابات میں کانگریس کا ساتھ دیا۔ اور کھمم میونسپل کارپوریشن کے انتخابات میں دو حلقوں پر کانگریس سے مفاہمت کرتے ہوئے مقابلہ کیا۔ علیحدہ تلنگانہ ریاست کی تشکیل کے بعد چندرابابو نائیڈو اپنے ارکان خاندان کے ساتھ حیدرآباد سے وجئے واڑہ منتقل ہوچکے ہیں جس کی وجہ سے تلنگانہ میں پارٹی پر ان کا کنٹرول ختم ہوگیا ہے۔ البتہ چندرابابو نائیڈو بحیثیت چیف منسٹر، آندھراپردیش میں تلگودیشم پارٹی کو مستحکم کرنے میں ضرور کامیاب ہورہے ہیں۔
مگر تلگودیشم پارٹی کو قومی سطح پر مستحکم کرنے کے لئے جو اقدامات کرنا چاہئے اُس پر کوئی توجہ نہیں دے رہے ہیں۔ ایک وقت وہ بھی تھا جب بی جے پی این ٹی آر اور چندرابابو نائیڈو کے اشاروں پر ناچتی تھی آج حالات بدل گئے ہیں۔ چندرابابو نائیڈو کو بی جے پی کے سامنے ہاتھ پھیلانا پڑرہا ہے۔ وعدے کے مطابق مرکزی حکومت نے آندھراپردیش کو آج تک خصوصی ریاست کا درجہ نہیں دیا ہے۔ پسماندہ علاقوں سے متعلق اسپیشل پیاکیج نہیں دیا اور نہ ہی بجٹ میں میں آندھراپردیش سے کوئی انصاف کیا۔ پھر بھی چندرابابو نائیڈو مرکز سے ٹکراؤ کے بجائے مصلحت پسندی سے کام کررہے ہیں۔ تلگودیشم پارٹی کو قومی سطح پر مستحکم کرنے کے لئے پارٹی کے کوئی پروگرامس نہیں ہیں عوام کو پارٹی سے قریب کرنے کے لئے ہنوز کوئی حکمت عملی تیار نہیں کی گئی۔ کیرالا اور ٹاملناڈو کے علاوہ ملک کی دوسری ریاستوں میں عام انتخابات منعقد ہونے والے ہیں۔ اس کی حکمت عملی کا ابھی تک کوئی اعلان نہیں کیا گیا جس سے چندرابابو نائیڈو کی قیادت پر سوالیہ نشان اٹھ رہا ہے۔ تلنگانہ میں پارٹی کے استحکام کے لئے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔ اس میں شک نہیں چندرابابو نائیڈو سیاسی طور پر باشعور ہیں، حالات پر ان کی گہری نظر ہے۔ مگر ان کی خاموشی اور اپنے آپ کو آندھراپردیش تک محدود کرنے کی پالیسی سے پارٹی کیڈر میں مایوسی پائی جاتی ہے۔