تلنگانہ کے مجوزہ اسمبلی انتخابات میں کانگریس اور تلگودیشم اتحاد سے ٹی آر ایس کہیں پریشان تو نہیں ہورہی ہے؟۔

تلنگانہ کے مجوز ہ اسمبلی انتخابات میں کانگریس کے ساتھ ملاکر مقابلے کی تیاری کرنے کا تلگودیشم پارٹی کے سربراہ چندرا بابو نائیڈو نے جب سے اعلان کیاہے تب سے ریاست کی برسراقتدارسیاسی جماعت ٹی آر ایس حواس باختہ نظر آرہی ہے‘ ٹی آر ایس کے رویہ سے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ وہ چندرا بابو نائیڈو جیسے سیاست داں کے سامنے اپنی کامیابی کے دعوؤں پر مایوس نظر آرہی ہے۔

کانگریس یہ کوشش کررہی ہے کہ عظیم اتحاد کے ذریعہ رحجان پیدا کرے وہیں‘ ٹی آر ایس لیڈر ’’مہاکوٹومی ‘‘میں رخنہ پیدا کرنے والے بیان بازیاں کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔


مشیرآباد میں خانگی ملازمت کرنے والے سرینواس نامی ایک شخص نے کہاکہ ’’ جی ہاں میرے نظریہ سے ٹی آر ایس نے عوام کا اعتماد کھودیا ہے۔

انتخابات کے اعلان اور عظیم اتحاد کی تشکیل کے بعد سے ریاست کا سیاسی ماحول تبدیل ہوگیاہے۔

پچھلے چارسالوں میں ٹی آر ایس کے لئے کوئی متبادل نہیں تھا‘ اس کے لئے مخالفت کا کوئی ماحول دیکھائی نہیں دے رہا تھا۔

تاہم عظیم اتحاد کی تشکیل کے بعد لوگوں کی سونچ بدل گئی ہے اور لوگ عظیم اتحاد کو ایک متبادل کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ اب جو لوگ نوٹا کا بٹن دبانے کی سونچ رہے تھے ان کے لئے عظیم اتحاد ہے۔یقیناًمجوزہ اسمبلی انتخابات ٹی آر ایس کے لئے ایک سخت مقابلہ ہونگے ۔


ٓآر ہریش نامی ورنگل کے ساکن صنعت کار کا کہنا ہے کہ ’’ ایسا لگ رہا ہے کہ کانگریس تلگودیشم کی انتخابی مفاہمت سے ٹی آ رایس پریشان ہوگئی ہے۔

پچھلے کچھ دنوں سے ٹی آر ایس چیف کے سی آر او ران کے بیٹے کے ٹی راما راؤ دونوں ہی تلگودیشم پارٹی کے سربراہ چندرا بابو نائیڈو چیف منسٹر آندھرا پردیش کو نشانہ بناتے ہوئے اتحاد کو نامناسب قراردے رہے ہیں

۔تلگودیشم پارٹی پر کئے جانے والے حملوں سے صاف ظاہر ہے کہ ٹی آر ایس اتحاد سے پریشان ہے جس کی وجہہ سے اس کے موقع پر فرق پڑے گا۔ ٹی آ رایس عظیم اتحاد کے امکانات کو نظر انداز نہیں کرسکتی کیونکہ اس میں سی پی ائی اور تلنگانہ جنا سمیتی بھی شامل ہے۔


نلگنڈہ کے ساکن الکٹریشن نرسمہا کا کہنا ہے کہ’’ اگرچکہ کہ کانگریس تلگودیشم اتحاد کافی مضبوط ہے مگر ٹی آر ایس حکومت کی فلاحی اسکیمات دوبارہ اس کو اقتدار پر لاسکتے ہیں۔

جہاں تک میری جانکاری ہے اس مرتبہ ریاست کی عوام کو منفرد انداز کے الیکشن کا سامنا ہوگا۔یہاں تک کے سینئر سیاسی جانکاری بھی جیتنے والی جماعت کے متعلق دعوی کے ساتھ کچھ بھی کہنے سے قاصر ہیں۔کریم نگر کے اکنور کے رہنے والے پی کرن کا کہنا ہے ’’اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ ٹی آر ایس عظیم اتحاد کے لئے چندرا بابو نائیڈو کے راہول گاندھی سے ہاتھ ملانے کے بعد پریشان ہے۔

ٹی آر ایس حکومت کی کچھ ناکامیاں جیسے دلتوں کو تین ایکڑ اراضی‘ کے جی سے پی جی مفت تعلیم کی فراہمی کے وعدوں کی عدم تکمیل عظیم اتحاد کے لئے کار آمد ثابت ہوسکتی ہے۔ ریاست کی عوام دوبارہ کے سی آر پر بھروسہ کرنے کے موقف میں نہیں ہے۔ اگر عظیم اتحاد پوری طاقت کے ساتھ میدان میں اترتا ہے تو یقیناًٹی آر ایس کے لئے آنے والے دن مشکل گھڑی سے کم ثابت نہیں ہونگے۔

بشیرباغ کے ساکن ایک خانگی ملازم ڈی سریش کا کہنا ہے ’ ’ ٹی آر ایس اور اس کی اعلی قیادت غیر ضروری کانگریس اور تلگودیشم اتحاد سے پریشان ہیں۔ٹی آر ایس پارٹی کو اتحاد سے پریشان نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اس نے پہلے ہی بے روزگاری بھتہ اور دیگر مرعات کااعلان کیاہے۔

تاہم اے پی چیف منسٹر این چندرا بابو نائیڈو کا تلنگانہ کی سیاست میں داخلہ اور گریٹر حیدرآباد کی اسمبلی سیٹوں پر توجہہ جہاں پر اے پی ووٹرس او رسیٹلرس کی اکثریت پائی جاتے ہے ٹی آر ایس کی پریشانی کی اصل وجہہ ہے۔

اس کے نتیجے میں کے ٹی راما راؤ آندھرا کے رائے دہندوں کوراغب کرنے کے لئے ان کے تحفظ او ربھائی چارے کا حوالہ دے رہے ہیں۔ مگر میری دانست میںیہ ٹی آر ایس کے لئے مضبط ثابت نہیں ہوگا۔


نلگنڈہ کے ساکن ریٹائرڈ ملازم شنکر کا کہنا ہے کہ ’’ یقیناًعظیم اتحاد سے ٹی آر ایس پریشان ہے۔

کیونکہ دونوں سیاسی جماعتوں کا دیہی اور شہری علاقوں میں مضبوط کیڈر ہے۔ اگر کانگریس تلگودیشم اتحاد پوری سنجیدگی کے ساتھ کام کرتا ہے تو تلنگانہ میں وہ حکومت بناسکتے ہیں۔

ہنمکنڈہ کے ایک بے روز گار نوجوان ڈی سریش کا کہنا ہے کہ’’جب ستمبر میں تلنگانہ اسمبلی تحلیل کردی گئی تھی اس وقت ٹی آر ایس کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے امکانات قومی دیکھائی دے رہے تھے ۔

مگر دوماہ کے گذرنے کے بعد ٹی آر ایس کے لئے کانگریس تلگودیشم اتحاد جس میں سی پی ائی اور تلنگانہ جنا سمیتی بھی شامل سے مقابلے میں مشکلات پیدا ہوتے نظر آرہے ہیں۔

عظیم اتحاد کے خدشات کو بھانپ کر ٹی آر ایس قائدین ٹی ڈی پی اور این ٹی آر کو نشانہ بنارہے ہیں جو تلگودیشم عوام کی عزت نفس کے لئے کھڑے ہوئے تھے