تلنگانہ کے اسمبلی انتخابات سیاسی انٹرٹنمنٹ

تلنگانہ اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
کیا تلنگانہ کی سیاست اب ایک انٹرٹنمنٹ برانچ بن گئی ہے ؟ تمام سیاسی پارٹیاں سیاست کو آمدنی کے ساتھ ساتھ تفریح کا ذریعہ بھی سمجھ رہی ہیں ۔ اس سیاسی انٹرٹنمنٹ کی رونق حیدرآباد بالخصوص پرانے شہر میں دیکھی جارہی ہے جہاں عوام کے لیے بھی اس مرتبہ کی سیاسی سنسنی اور انٹرٹنمنٹ ہے ۔ لوگ اندازے لگا رہے ہیں کہ شہر کے اہم اسمبلی حلقوں میں کس کو کامیابی ملے گی۔ پرانے شہر میں کانگریس کے امیدواروں نے سیاست کو انٹر ٹنمنٹ سمجھ کر اب تک منتخب ہوتے آرہے ارکان اسمبلی کے امکانات کو نقصان پہونچانے کا عزم کرلیا ہے لیکن پرانے شہر کی اس اسٹبلیشمنٹ اور سیاسی قوتوں کے ٹریک ریکارڈ کو توڑنے کے لیے جس طرح کی محنت کی ضرورت ہے وہ کہیں نظر نہیں آتی ۔ ہوم ورک کے بغیر ٹریک ریکارڈ رکھنے والوں کو شکست دینے میں کامیابی ملتی ہے تو یہ بھی ایک نیا ٹریک ریکارڈ ہوگا ۔ انتخابی مہم اور انتخابی جلسوں میں یہ دیکھا جارہا ہے کہ جن امیدواروں کو قومی پارٹی کانگریس کا ٹکٹ ملا ہے وہ اس سنہری موقع کو ضائع نہ کرنے کی کوشش بھی کررہے ہیں۔ خاص کر حلقہ اسمبلی کاروان اور حلقہ اسمبلی نامپلی اور حلقہ اسمبلی یاقوت پورہ میں اگر اس بار وہاں کے رائے دہندے کچھ نیا کرتے ہیں تو پھر اپنی مرضی چلانے والوں کے لیے یہ شدید جھٹکا ہوگا ۔ گوشہ محل اسمبلی حلقہ بھی تبدیلی کی نوید سنائے تو یہاں کا امیدوار جو تحلیل شدہ اسمبلی کا ایم ایل اے ہے سیاسی پستی کا شکار ہو کر انتہائی اقدام کی بھی کوشش کرلے تو یہ بھی ایک خاص خبر ہوگی ۔ اس امیدوار کی پارٹی کو تلنگانہ میں قدم مضبوط کرنے کا موقع ہی نہیں مل رہا ہے ۔ ہندوتوا کارڈ کے ذریعہ صرف چند نشستوں پر کامیاب ہونے والی یہ قومی حکمراں پارٹی کو گوشہ محل کے اس امیدوار سے ہی کچھ امیدیں وابستہ ہیں ۔ اس حلقہ میں مسلم رائے دہندوں کا عملاً احساس ہے کہ ان کا ووٹ ضائع ہو جائے گا جب کہ گوشہ محل کے اطراف کے اسمبلی حلقوں میں مسلمانوں کی کثیر آبادی ہے جہاں سے مقامی پارٹی کے ارکان ہی منتخب ہوتے آرہے ہیں ۔

گوشہ محل سے اس مقامی جماعت نے کوئی امیدوار کھڑا نہیں کیا بلکہ ٹی آر ایس امیدوار کی تائید کی ہے ۔ اترپردیش کے چیف منسٹر آدتیہ ناتھ یوگی کی طرز پر تلنگانہ میں اپنا اثر دکھانے کی کوشش کرنے والا گوشہ محل کا زعفرانی امیدوار حیدرآباد کا نام تبدیل کر کے بھاگیہ نگر رکھنے کا خواب دیکھتا ہے اور اسے پرانے شہر میں منی پاکستان بھی نظر آتا ہے ۔ اپنے حلقہ میں گھوم پھر کر اس طرح کا تاثر دے رہا ہے کہ وہ اس حلقہ میں ناقابل شکست لیڈر ہے اور مقامی عوام میں خوف پیدا کرتا ہے اس لیے کئی ہندو اور مسلمان اس کے متنازعہ ریمارکس کے بارے میں بھی اظہار خیال کرنے سے گریز کرنا چاہتے ہیں ۔ لیکن حیدرآباد میں گوشہ محل کے اس امیدوار کے نظریہ سے بھی زیادہ تعصب پسند فرقہ پرست قائدین گذر چکے ہیں جنہوں نے حیدرآباد کے امن و سکون کو کئی مرتبہ خراب کردیا تھا لیکن آج یہ فرقہ پرست سیاسی تاریخ سے ہی مٹ چکے ہیں تو گوشہ محل کے لودھے کی تاریخ کیا ہوگی یہ تو آنے والے انتخابی نتائج ہی بتائیں گے ۔ اس امیدوار کے حوصلے اس لیے بلند ہورہے ہیں کیوں کہ اس کو مواد فراہم کرنے والے پرانے شہر کے قائدین کی تقاریر ان فرقہ پرستوں کی غذا بھی بن رہی ہیں ۔ شائد یہی لوگ تلنگانہ میں بی جے پی کو مضبوط ہونے کا موقع دیں گے ۔ نظام آباد میں وزیراعظم نریندر مودی کے جلسہ سے یہ ثابت ہوا کہ بی جے پی ان خاص حلقوں پر اپنی توجہ مرکوز کی ہے جہاں سے اسے تلنگانہ میں مضبوط ہونے کا موقع ملے گا ۔ بی جے پی دراصل دھیرے دھیرے پیشرفت کررہی ہے اور اس کی ترقی میں مسلم قائدین اہم رول ادا کررہے ہیں ۔ ریاست میں مسلمانوں کی آبادی 12.5 فیصد ہے اور آر ایس ایس نے اپنے مضبوط نٹ ورک کے ذریعہ مسلمانوں کے خلاف طاقتور بنیاد تیار کرنا شروع کیا ہے ۔ یہاں ٹی آر ایس ۔ بی جے پی بظاہر ایک دوسرے کے خلاف تنقیدیں کررہی ہیں مگر اندرونی طور پر یہ دونوں ایک دوسرے کے سیاسی مرید ہیں کیوں کہ اب ان کے سامنے اصل حریف این چندرا بابو نائیڈو کی تلگو دیشم پارٹی ہے جس نے تلنگانہ میں کانگریس سے اتحاد کر کے حکمراں پارٹیوں ٹی آر ایس اور بی جے پی کو پریشان کردیا ہے ۔ ایسے میں کانگریس کے منشور نے بھی ٹی آر ایس ۔ بی جے پی کے امکانات کو دھکہ پہونچانے کا بندوبست کردیا ہے ۔ کانگریس نے اپنے منشور میں مسلمانوں اقلیتوں کے لیے جو وعدے کئے ہیں وہ ووٹ ڈالنے کے لیے پرکشش ہیں ۔ کانگریس پر بھی الزام ہے کہ اس نے مدھیہ پردیش اور راجستھان میں نرم ہندوتوا اختیار کرلیا ہے تو تلنگانہ میں مسلمانوں کو خوش کرنے کے لیے ائمہ کرام کی تنخواہوں اور موذنین کو اعزازیہ دینے کا اعلان کیا ۔ مندر کے پجاریوں کو سرکاری خطوط کی تنخواہ دینے کا بھی وعدہ کیا ہے ۔

کانگریس نے تمام مندروں ، مساجد ، گرجا گھروں اور دیگر عبادت گاہوں کو مفت برقی سربراہ کرنے کا بھی وعدہ کیا ۔ کانگریس کے پاس ایک مضبوط ہتھیار یہ ہے کہ وہ ٹی آر ایس کی قیادت چندر شیکھر راؤ کی وعدہ خلافیوں سے عوام کو واقف کرواتے ہوئے اپنا پلڑا بھاری کرنے میں کامیاب دکھائی دیتی ہے ۔ مسلمانوں کو دھوکہ دینے کا معاملہ چندر شیکھر راؤ کے لیے گلے کی ہڈی بن چکا ہے ۔ کے سی آر نے واقعی اپنے کئی وعدوں میں سے کسی ایک پر بھی عمل نہیں کیا ہے تو انہیں ووٹ دینے والے مکرر غور کرلیں گے ۔ جن پارٹیوں کو عوام کے ووٹ ملنے کی خوش فہمی ہے ان کے اندازے 11 دسمبر کو واضح ہوں گے ۔ سال 2014 میں تلنگانہ کے اندر نئی ریاست کے قیام کا جوش و خروش تھا اس لیے کے سی آر کی تلنگانہ راشٹرا سمیتی نے شمالی تلنگانہ کی پٹی میں جس میں ورنگل بھی شامل 54 کے منجملہ 45 پر کامیابی حاصل کی تھی ۔ 119 رکنی اسمبلی میں نصف تعداد کے قریب ساڑھے چار سال کی حکمرانی کے بعد کے سی آر ہنوز علحدہ تلنگانہ ریاست کے پرانے فارمولہ کو ہی سینے سے لگا کر ووٹ مانگ رہے ہیں لیکن ریاست میں سیاسی رجحان بدل رہا ہے اور مہا کوٹمی کو لوگ پسند کرنے لگے ہیں ۔ خاص کر تلگو دیشم صدر چندرا بابو نائیڈو کے تجربات فہم و فراست کی سیاست سے عظیم اتحاد کو مدد مل سکتی ہے ۔
kbaig92@gmail.com