اے پی ڈائری خیراللہ بیگ
تلنگانہ بننے اور نئی حکومت کے حلف لینے سے قبل ہی علاقہ کے عوام کے ساتھ مرکز کی ناانصافیوں کا آغاز ہوچکا ہے ۔ جمعرات کو تلنگانہ بند بنانے والے نامزد چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے پولاورم پراجکٹ کی منظوری اور ضلع کھمم کے 7 منڈلوں کو آندھراپردیش میں ضم کئے جانے کے فیصلہ کے خلاف احتجاج کیا ۔ بند کامیاب بنایا گیا۔ جن رائے رائے دہندوں نے بی جے پی یا این ڈی اے کو مستر کردیا تھا ، اب اس کی سزا کے طور پر این ڈی اے نے تلنگانہ پر اپنے عتاب کی پہلی قسط نازل کردی ہے۔ تلنگانہ کو یوں ہی مسائل کی آگ میں جھونک کر عوام کو پریشانیوں سے دوچار کردیا جائے گا تاکہ یہ ریاست اپنی علحدگی کے مطالبہ کی سزا پاکر آندھرائی لابی کے خفیہ منصوبوں کے مطابق پسماندگی کا شکار ہی رہے۔ کل 2 جون کو تلنگانہ کا یوم تاسیس مقرر ہونے والا ہے اور ٹی آر ایس سربراہ بھی چیف منسٹر کی حیثیت سے حلف لینے کی تیاری کرچکے ہیں ۔ دونوں ریاستوں میں اثاثہ جات، لائے بلیٹز اور ملازمین کی تقسیم کا عمل ہنوز پورا نہیں ہوا ہے ۔ پارلیمنٹ میں آندھراپردیش ری آرگنائزیشن بل کی منظوری پر ہنوز اختلافات برقرار ہیں۔ اس تقسیم کے عمل نے سیما آندھرا کے بعض ملازمین کو شدید مایوس کردیا ہے ، جنہیں نئی ریاست سے اپنی آبائی ریاست کو منتقل ہونے میں تعمل ہورہا ہے
کیونکہ ان سیما آندھرا ملازمین نے حیدرآباد میں بھی خود کو بسالیا ہے ۔ گھر بار اور بچوں کی تعلیم اور شہری زندگی سے محبت نے انہیں آبائی ریاست سے محبت کو قربان کرنے پر مجبور کردیا ہے ۔ چندر شیکھر راؤ نے جب سے یہ کہا ہے کہ سیما آندھرا کے ملازمین کو تلنگانہ سکریٹریٹ میں کام کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی تو ملازمین کی بڑی تعداد ناراض ہے ۔ گورنر ای ایس ایل نرسمہن کو تلنگانہ کے گورنر کی زائد ذمہ داری دی گئی ہے ۔ 2 جون کو صدر راج کی تنسیخ بھی ہوجائے گی ۔ ہفتہ بھر ان موضوعات کی بھرمار رہی ہے ۔ ہر موضوع قومی سیاست میں مودی کو اقتدار سے مربوط ہونے کے ساتھ تلنگانہ میں آنے والے دنوں میں ہونے والے سیاسی اتار چرھاو کے واقعات پر تبصرے کسی کیلئے مایوس کن تو کسی کیلئے تشویشناک محسوس ہورہے ہیں۔ تلنگانہ کے قائدین کی سیاسی قابلیت میں جھانکیں اور ان کی سیاسی تدبیروں کا اندازہ کریں تو اندازہ ہوگا کہ یہ لوگ مرکز کی چالاک حکومت اور سیما آندھرا کی عیار قیادت کا سامنا کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ اس کا پہلا اشارہ ضلع کھمم کے 7 منڈلوں کے انضمام کے خلاف عوام پر ’’بند ‘‘ مسلط کرنا ہے ۔ ٹی آر ایس اور اس کی قیادت کے تعلق سے کہا جارہا ہے کہ یہ پارٹی صرف احتجاج کرنا اور ہڑتال کے ذریعہ بند منانے کی حد تک کامیاب ہے ۔ اس میں حکمرانی کی خوبیوں کا فقدان ہے ،
جس پارٹی کے قائدین صرف بند کی سیاست تک ہی اپنے سیاسی فن کا مظاہرہ کریں گے تو وہ بہتر حکمرانی کے ذریعہ ایک ترقی و خوشحال والی ریاست دینے کا وعدہ کس طرح پورا کرسکیں گے ۔ مرکز میں جس پارٹی نے حکومت بنائی ہے اسے تلنگانہ کے رائے دہندوں سے مایوسی ہوئی ہے ۔ اس لئے وہ یہاں کے عوام سے انتقام لے سکتی ہے ۔ اس کے جواب میں تلنگانہ عوام اور رائے دہندوں کی منتخب پارٹی جو بھی قدم اٹھائے گی وہ سوائے خسارہ کے کچھ نہیں ہوگا ۔ تلنگانہ کو بحران سے دوچار رکھنا ہی کسی دوسری پارٹی کا منصوبہ ہو تو عوام کے حصہ میں معاشرتی تباہی آئے گی ۔ کوئی بھی علاقہ کسی احتجاج یا ہڑتالوں کی طاقت کی بنا پر ترقی نہیں پاسکتا ۔ اس کیلئے معاشی طاقت ہی ترقی کیلئے بنیادی کردار ادا کرتی ہے ۔ مرکز اور ریاست کے درمیان سرد جنگ میں ہمیشہ ریاست کا ہی نقصان ہوا ہے ۔ دوسری طرف سیما آندھرا کو زبردست ترقی دینے کیلئے صدر تلگو دیشم چندرا بابو نائیڈو نے اپنے منصوبوں کو قطعیت دینا شروع کیا ہے ۔ تلگو دیشم مہا ناڈو میں انہوں نے سیما آندھرا کے ساتھ ساتھ تلنگانہ میں بھی پارٹی کے قدم مضبوط کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے ۔
کے سی آر نے تلنگانہ میں ’’وار روم‘‘ بنایا ہے تو اس کے جواب میں چندرا بابو نائیڈو نے ’’پیس روم‘‘ کو ترجیح دی ہے ۔ وہ چاہتے ہیں کہ دونوں ریاستوں تلنگانہ اور آندھراپردیش کے درمیان بھائی چارگی اور خوشگوار تعلقات ہونے چاہئے ۔ آندھراپردیش کی تقسیم کے علاوہ اس ریاست کیلئے دارالحکومت کی تلاش بھی اہم ہے ۔ قیاس کیا جارہا ہے کہ وجئے واڑہ اور گنٹور کو صدر مقام بنایا جائے گا ۔ دونوں شہروں کو جوڑ کر ٹوئین سٹیز کا درجہ دیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ وشاکھاپٹنم کرنول اور تروپتی کے نام بھی زیر غور ہیں ۔ چندرا بابو نائیڈو کی نظریں گھوم کر پھر حیدرآباد پر ہی ٹکی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں۔ ان کا یہ اعلان توجہ طلب ہے کہ تلگو دیشم تلنگانہ میں بھی قدم جمائے گی اور حیدرآباد میں ان کی پارٹی کا ہیڈکوارٹر ہوگا تو آئندہ 2019 ء کے انتخابات میں پارٹی کو اقتدار پرلانے کی ان کی کوشش ہوگی ۔ تلگو دیشم مہاناڈو میں چندرا بابو نائیڈو نے اپنے سیاسی منصوبوں کو پیش کیا ہے تو یہ واضح طور پر ٹی آر ایس سربراہ چندر شیکھر راؤ کے لئے وارننگ ہے کہ تلگو دیشم بی جے پی اتحاد ان کی ریاست میں ٹی آر ایس کے وجود کو دھکا پہونچائے گا۔ تلگو دیشم نے بی جے پی سے اتحاد کرتے ہوئے گریٹر حیدرآباد علاقہ میں 24 اسمبلی حلقوں کے منجملہ 14 اسمبلی حلقوں پر کامیابی حاصل کی ہے ۔ اب وہ نومبر میں منعقد ہونے والے گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کے انتخابات میں تلگو دیشم کی کارکردگی کو بہتر بنانا چاہتے ہیں۔ 35 سال قبل تلگو عوام کے عزت نفس کو پر وقار بنانے اور ناانصافیوں کے خاتمہ کیلئے این ٹی راما راؤ نے تلگو دیشم کا قیام عمل میں لایا تھا ۔ اب تلگو دیشم کو تلگو کی دو ریاستوں کی نمائندگی کا موقع مل رہا ہے تو وہ اپنے فرائض کو بخوبی انجام دینے کے لئے تیار ہے ۔ سیما آندھرا کے ساتھ ساتھ تلنگانہ کیلئے بھی یکساں انصاف کرنے کیلئے مرکز پر دباؤ ڈالنا تلگو دیشم سربراہ کا فرض ہے ۔
مرکز میں بی جے پی اتحاد کے عوض چندرا بابو نائیڈو کو تلگو کی دو ریاستوں کے حق میں کام کرنا ہوگا ۔ ٹی آر ایس نے روز اول سے تلنگانہ عوام کے ساتھ انصاف کے حصول کیلئے جدوجہد شروع کی ہے ۔ اب اس کو اقتدار مل چکا ہے تو اپنے وعدوں اور ارادوں کو بخوبی پورا کرنے کا وقت آگیا ہے ۔ اس مقصد کے حصہ کے طور پر ٹی آر ایس قائدین نے صنعتکاروں ، بلڈرس اور دیگر معاشی شعبوں کے ذمہ داری سے ملاقات اور بات چیت کا عمل تیز کردیا ہے ۔ معاشی ترقی کیلئے کسی بھی حکومت کو دوستانہ پالیسیاں بنانا ہوتا ہے ۔ آئندہ پانچ سال کے دوران تلنگانہ کو کس سطح پر ترقی دی جائیگی ۔ یہ حکومت کی کارکردگی پر منحصر ہوگی ۔ ریاست کی تقسیم اور دو حکومتوں کے حلف برداری کے بعد بھی حیدرآباد تنازعہ کا محور بنتا ہے تو یہ افسوسناک اور تکلیف دہ امر ہوگا۔ شہر حیدرآباد کی تیز تر ترقی کو لیکر سیاسی دعویٰ کئے جارہے ہیں تو اس شہر کی اراضیات پر قبضہ کرنے والے قائدین کو حکمراں پارٹی کی سرپرستی حاصل کرنے میں عین دلچسپی ہے ۔ تلنگانہ کے لینڈ گرابرس اور شہر حیدرآباد کے لینڈ گرابرس مل کر اپنے اپنے مفادات کا تحفظ کرتے رہیں گے تو پھر تلنگانہ عوام کے حصہ میں صرف وعدے و نعرے ہی رہ جائیں گے ۔تلنگانہ تھیوری کے اعتبار سے یہ بات سمجھنا بہت آسان ہے کہ ذہانت کی کمی رکھتے ہوئے مرکز کی این ڈی اے حکومت کے سامنے اپنی حکمرانی اور اداروں کو برتری نہیں دلاسکے تو عوام کی مشکلات کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہوگا۔
kbaig92@gmail.com