محمد نعیم وجاہت
تلنگانہ
عوام کا 58سالہ دیرینہ خواب عنقریب حقیقت میں تبدیل ہوجائے گا۔ لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں تلنگانہ بل کی منظوری کے بعد ملک کی 29ویں ریاست تلنگانہ کی تشکیل کیلئے صدر جمہوریہ پرنب مکرجی کی بل پر دستخط اب محض ضابطہ کی کارروائی بن کر رہ گئی ہے۔ لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں تلنگانہ بل کی منظوری کے بعد تلنگانہ عوام بالخصوص طلباء و نوجوانوں کا جشن اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ بڑی بے چینی سے علحدہ تلنگانہ ریاست کی تشکیل کے منتظر تھے۔ تلنگانہ بل کی منظوری، تلنگانہ عوام کی کامیابی ضرور ہے لیکن سیما آندھرا عوام کی شکست ہرگز نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ تلگو عوام کی دو ریاستیں بنیں گی اور صرف سرحدیں تقسیم ہوں گی، عوام کے دل تقسیم نہیں ہوں گے کیونکہ مل جل کر رہنے کیلئے اتفاق ضروری ہے اور علحدہ ہونے کیلئے آپسی بھائی چارہ ضروری ہے۔
جمہوری نظام میں اکثریت ہمیشہ اقلیتوں پر حاوی رہی ہے اور راست و بالواسطہ اقلیتوں کے حقوق سلب ہوتے آئے ہیں۔ تلنگانہ عوام کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ ہوا ہے جس کی وجہ سے علحدہ ریاست تلنگانہ کی تحریک ایک شروع ہوئی۔ تلنگانہ عوام کی تحریک ایک تاریخی تحریک ہے کیونکہ 1969ء کی تحریک میں 350 افراد نے پولیس کی گولیوں کا نشانہ بن کر اپنی زندگیاں قربان کی تھیں جبکہ حالیہ 15سالہ تحریک میں تقریباً 1600 طلباء و نوجوانوں نے خودکشیاں کرتے ہوئے دنیا کے سامنے علحدہ تلنگانہ جذبہ کو ظاہر کرنے میں اہم رول ادا کیا۔ تلنگانہ تحریک کے روح رواں سربراہ ٹی آر ایس کے چندر شیکھر راؤ ضرور ہیں لیکن علحدہ تلنگانہ ریاست کی تشکیل میں تین خواتین یو پی اے چیرپرسن مسز سونیا گاندھی، بی جے پی پارلیمانی پارٹی کی قائد سشما سوراج اور اسپیکر لوک سبھا میرا کمار کے رول کو ہرگز فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ علحدہ تلنگانہ ریاست تشکیل دینے کا فیصلہ کرنے میں کانگریس نے تاخیر ضرور کی ہے لیکن اس بات کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ اپنے وعدہ کو پورا کرنے کیلئے پارٹی اور صدر کانگریس مسز سونیا گاندھی کو کئی کٹھن مراحل سے گذرنا پڑا۔
سال 2000ء میں تلنگانہ کی نمائندگی کرنے والے کانگریس کے ارکان اسمبلی نے حیدرآباد کے دورہ پر پہونچنے والی صدر کانگریس مسز سونیا گاندھی کو ڈاکٹر وائی ایس راج شیکھر ریڈی کی قیادت میں علحدہ تلنگانہ ریاست تشکیل دینے کیلئے ایک یادداشت پیش کی تھی۔ کانگریس پارٹی نے2004ء کے عام انتخابات تک تلنگانہ کے ارکان اسمبلی کو تحریک چلانے کی مکمل آزادی دی اور 2004ء میں ٹی آر ایس سے سیاسی اتحاد کرتے ہوئے تلنگانہ کیلئے اپنی رضامندی کا اظہار کیا۔ یو پی کے اقل ترین ایجنڈے میں مسئلہ تلنگانہ کو بھی شامل کیا گیا۔ پرنب مکرجی کی قیادت میں وزراء کی سب کمیٹی تشکیل دی گئی اور 9ڈسمبر 2009ء کو علحدہ ریاست تلنگانہ تشکیل دینے کا اعلان کیا۔ سیما آندھرا قائدین کی مخالفت پر سری کرشنا کمیٹی تشکیل دی گئی۔ بالآخر 30 جولائی 2013ء کو کانگریس کی فیصلہ ساز باڈی سی ڈبلیو سی میں علحدہ ریاست تلنگانہ تشکیل دینے کی قرارداد منطور کی گئی اور اسی دن یو پی اے میں علحدہ تلنگانہ ریاست تشکیل دینے کا فیصلہ کیا گیا۔
جاریہ سال 18فبروری کو لوک سبھا اور 20 فبروری کو راجیہ سبھا میں تلنگانہ بل کو منظوری دیتے ہوئے علحدہ تلنگانہ کے دیرینہ خواب کو شرمندہ تعبیر کردیا گیا۔ تلنگانہ عوام نے اپنے نشانہ کو حاصل کرنے کیلئے کبھی میدان نہیں چھوڑا بھلے ہی کئی مرتبہ انہیں مایوسی ہوئی۔ کبھی تلنگانہ قائدین نے دھوکہ دیا تو کبھی سیما آندھرا قائدین نے علحدہ تلنگانہ ریاست کی تشکیل کو روکنے کیلئے کوئی کسر باقی نہیں رکھی ، انہوں نے اس سلسلہ میں کبھی ریاستی و مرکزی حکومتوں کو بلیک میل کیا ، کبھی انتباہ دیا گیا، کبھی نکسلائیٹس اور دہشت گردوں کی سرگرمیاں بڑھ جانے کا دعویٰ کیاگیا اور پانی، تعلیم اور ملازمتوں کے مسائل پیش کئے۔ دیگر قومی اور علاقائی جماعتوں کو گمراہ کیا گیا اور جب بات نہیں بنی تو لوک سبھا میںکالی مرچ کے اِسپرے کا ایوان میں استعمال کرتے ہوئے قوم کا سر ساری دنیا میں شرم سے جھکادیا گیا۔
اس سے قبل سیما آندھرا کی نمائندگی کرنے والے حکمراں جماعت کے6ارکان نے اپنی ہی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی جس پر تلنگانہ بل کو منظوری دلانے کا فیصلہ کرنے والی کانگریس پارٹی نے ان 6ارکان پارلیمنٹ کو پارٹی سے برطرف کردیا۔ چیف منسٹر کرن کمار ریڈی اور سیما آندھرا کی نمائندگی کرنے والے تمام کانگریس قائدین نے تشکیل تلنگانہ کی مخالفت کی اور اسمبلی میں مسودہ تلنگانہ بل کو مسترد کردینے کی قرارداد منظور کرتے ہوئے پارلیمنٹ کو روانہ کیا تھا تاہم مرکزی حکومت نے آرٹیکل 3کے تحت پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں تلنگانہ بل کو منظوری دے دی، جس پر بطور احتجاج کرن کمار ریڈی‘ چیف منسٹر کے عہدہ کے ساتھ ساتھ اسمبلی اور کانگریس پارٹی کی رکنیت سے مستعفی ہوگئے۔
موجودہ سیاسی حالات میںآندھرا پردیش میں صدر راج نافذ کئے جانے کے امکانات نظر آرہے ہیں۔ علحدہ ریاست تلنگانہ کی تشکیل میں صدر تلگودیشم چندرا بابو نائیڈو اور صدر وائی ایس آر کانگریس پارٹی نے دوہرا معیار اختیار کرتے ہوئے تلنگانہ عوام کو دھوکہ دیا ہے۔ مرکز کو تلنگانہ کی تائید میں مکتوب حوالے کرنے والے چندرا بابو نائیڈو نے کبھی علحدہ تلنگانہ کا مطالبہ کرنے والے طلباء و نوجوانوں کی خودکشیوں پر آنسو نہیں بہائے اور نہ دہلی پہنچ کر علحدہ ریاست تلنگانہ تشکیل دینے کا مطالبہ کیا۔ لیکن تشکیل تلنگانہ کا فیصلہ ہونے کے بعد دہلی کے بشمول ملک کی مختلف ریاستوں کا دورہ کرتے ہوئے مساوات کے نام پر علحدہ تلنگانہ ریاست کی تشکیل کے عمل کو روکنے کیلئے تمام سیاسی ہتھکنڈے استعمال کئے۔ دوسری طرف مساوات سے متحدہ آندھرا کی تحریک میں تبدیل ہونے والے صدر وائی ایس آر کانگریس پارٹی نے گلی گلی گھوم کر علحدہ تلنگانہ کی مخالفت کی۔ ایک موقع پر تو تشکیل تلنگانہ کے عمل کو روکنے کیلئے چندرا بابو نائیڈو اور جگن موہن ریڈی نے بی جے پی کے سامنے سیاسی اتحاد کا پیشکش بھی کردیا۔ صدر ٹی آر ایس مسٹر کے چندر شیکھر راؤ تو تلنگانہ تحریک کے روح رواں ہیں، تلنگانہ تحریک کا تذکرہ ہو اور کے سی آر کا نام نہیں لیا جائے ایسا ناممکن ہے۔ سربراہ ٹی آر ایس نے اپنی تحریک میں سماج کے تمام طبقات، ملازمین، طلباء وغیرہ کو شامل کیا اور جب بھی انہوں نے آواز دی لاکھوں کی تعداد میں عوام ان کے جلسہ عام میں پہنچ گئے۔ تلنگانہ کے عوام نے علاقہ تلنگانہ کی تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کو تحریک میں شامل ہونے پر مجبور کردیا۔ ملازمین اور طلبہ کی جدوجہد نے تلنگانہ تحریک کو تقویت بخشی۔
تلنگانہ تحریک سے مسلمانوں کو وابستہ کرنے میں روز نامہ ’’سیاست‘‘ اور ایڈیٹر ’سیاست‘ جناب زاہد علی خاں اور منیجنگ ایڈیٹر’سیاست‘ جناب ظہیر الدین علی خاں نے اہم رول ادا کیا ہے۔ ابتداء سے ہی مجلس ریاست کی تقسیم کی مخالف رہی۔ اسمبلی اور پارلیمنٹ میں نمائندگی کرنے والی مجلس کے اس فیصلہ سے عوام میں یہ تاثر پیدا ہورہا تھا کہ سارے مسلمان علحدہ تلنگانہ ریاست کی تشکیل کے خلاف ہیں۔ ڈاکٹر راج شیکھر ریڈی، مسٹر این کرن کمار ریڈی کے علاوہ تلنگانہ کی مخالفت کرنے والے سیما آندھرا کے قائدین ہر وقت مرکزی حکومت ،کمیشنوں اور کمیٹیوں کو یہ پیغام دے رہے تھے کہ ریاست کے تمام مسلمان علحدہ تلنگانہ کے مخالف ہیں۔لیکن جب پولیس ایکشن کے بعد حیدرآباد دکن سے پاکستان منتقل ہونے والے مسلمانوں کو روکنے کیلئے روز نامہ ’’سیاست‘‘ نے جو اہم رول ادا کیا تھا وہی’سیاست‘ نے علحدہ تلنگانہ کے تعلق سے مسلمانوں کے خلاف چلائی جانے والی گمراہ کن مہم کا خاتمہ کرنے کیلئے تلنگانہ تحریک میں حصہ لیا اور اخبار’سیاست‘ نے مسلمانوں میں شعور بیدار کرتے ہوئے انہیں علحدہ تلنگانہ تحریک کا اٹوٹ حصہ بنایا۔ جناب زاہد علی خاں اور جناب ظہیر الدین علی خاں کی بے لوث اور انتھک جدوجہد کے سبب مختلف شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کو حوصلہ ملا اور وہ بھی تلنگانہ تحریک کا اٹوٹ حصہ بن گئے۔بالآخر مجلس کو بھی تلنگانہ کی تائید کرنے کیلئے مجبور ہونا پڑا۔
ریاست کی تقسیم کا فیصلہ کرنے والی مرکزی یو پی اے حکومت نے سیما آندھرا کیلئے 5سال تک خصوصی ریاست کا موقف دیا۔ پانی کی تقسیم کیلئے دو بورڈس تشکیل دینے کا اعلان کیا۔ کمیشنوںاور اداروں کے قیام کیلئے ٹیکس میں استثنیٰ دینے کا وعدہ کیا اور نئے دارالحکومت کی تشکیل کے علاوہ حیدرآباد میں جتنے بھی ادارے ہیں ان سبھی کو سیما آندھرا میں قائم کرنے کے تیقن کے علاوہ حیدرآباد کو 10سال تک دونوں ریاستوں کا مشترکہ دارالحکومت بنانے اور تعلیم و ملازمتوں میں 10سال تک موجودہ موقف کو برقرار رکھنے کا اعلان کیا، سیما آندھرا کے پسماندہ اضلاع کیلئے خصوصی پیاکیج دینے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔ لیکن تلنگانہ کیلئے کوئی رعایتیں نہیں دی گئیں اور نہ کسی خصوصی پیاکیج کا اعلان کیا گیا۔ تلنگانہ کے تمام قائدین صرف ریاست کی تقسیم کے فیصلہ پر خوش ہوگئے ۔ انہوں نے تلنگانہ کیلئے کوئی مطالبہ نہیں کیا اور نہ مرکزی حکومت نے اپنی جانب سے تلنگانہ کو کچھ دیا۔