تلنگانہ ویلفیر اسٹیٹ ،کتنا سچ ؟ ہریش راؤ کمزور… کے ٹی آر مضبوط

محمد نعیم وجاہت
کہتے ہیں کہ اقتدار بھی ایک نشہ ہوتا ہے جو انسان کو بدل کر رکھ دیتا ہے۔ اُسے حقیقت دیکھنے، سننے کی صلاحیت سے محروم کردیتا ہے۔ عہد اور وعدوں کو بھلا کر مکھن لگانے ، چاپلوسی کرنے والے سب کچھ اچھا کہنے تعریف کرنے والوں کی واہ واہ کے سحر میں گم کردیتا ہے۔ نئی ریاست تلنگانہ کے چیف منسٹر کے سی آر بھی اس دلدل میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ انھوں نے کھمم میں منعقدہ ٹی آر ایس کی 15 ویں پلینری سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ فلاح و بہبود کے معاملے میں ریاست تلنگانہ کو ملک بھر میں سرفہرست مقام حاصل ہے۔ حکومت کی جانب سے فلاحی کاموں پر 35 ہزار کروڑ روپئے خرچ کئے جارہے ہیں۔ حکومت فلاح و بہبود پر کتنا فنڈ مختص کررہی ہے اور کتنا خرچ کررہی ہے اس کا جائزہ لینے سے قبل تلنگانہ تحریک اور مابعد ٹی آر ایس حکومت کی تشکیل پر سرسری نظریں دوڑائیں گے۔ علیحدہ تلنگانہ ریاست کی تحریک کا آغاز کرتے ہوئے کے سی آر نے کہاکہ انھیں اقتدار کی کوئی بھوک نہیں ہے اور نہ ہی علیحدہ تلنگانہ ریاست کی تشکیل کے بعد ٹی آر ایس کے وجود کو ختم کردیں گے۔ ان کے دو بچے ہیں۔ کے ٹی آر اور کویتا۔ انھیں سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ وہ امریکہ میں آرام کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ آندھرائی قائدین نے تلنگانہ عوام کے ساتھ ناانصافی، پانی، ملازمت اور فنڈس تینوں کے استعمال میں تلنگانہ کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے۔ تلنگانہ کے عوام بالخصوص نوجوانوں کو انصاف دلانے کے لئے علیحدہ ریاست تلنگانہ کی تحریک شروع کی جارہی ہے۔ 16 سال میں صورتحال یکسر تبدیل ہوگئی۔ ہزاروں نوجوانوں کی قربانیوں کے بعد علیحدہ تلنگانہ ریاست تشکیل پائی۔ کے سی آر تحریک کی قیادت سے چیف منسٹر کے زینے تک پہونچ گئے۔ امریکہ میں رہنے والے ان کے فرزند کے ٹی آر ریاست میں چیف منسٹر کے بعد سب سے زیادہ اہم اور طاقتور قلمدان رکھنے والے ہیں۔ ان کی دختر حلقہ لوک سبھا نظام آباد کی رکن پارلیمنٹ منتخب ہوگئیں۔

چیف منسٹر کے بھانجے کو بھی ریاستی وزارت میں دوسرا بڑا مقام حاصل ہے۔ ہماری اس پر روشنی ڈالنے کا مقصد یہ ہے کہ کے سی آر عہد سے دستبردار ہوگئے۔ وعدوں سے انحراف کا بھی احاطہ کیا جائے گا۔ اقتدار ایسا نشہ ہے جس کے لئے قائدین بلند بانگ دعوے کرتے ہیں مگر اس پر عمل آوری ان کے بس میں نہیں ہوتی۔ یا حکمران سمجھتے ہوئے عوام کو گمراہ کرتے ہیں۔ کانگریس اور تلگودیشم اور بی جے پی پر بالواسطہ طنز کرتے ہوئے چیف منسٹر تلنگانہ نے کہاکہ ان کے باس (Boss) عوام ہیں۔ مگر حکومت کی پالیسیاں اور اسکیمات عوام کے لئے یا تو نقصان دہ ہے یا وہ عوام تک پہونچنے سے قاصر ہے۔ دوسری جماعتوں کے ارکان اسمبلی کو ٹی آر ایس میں شامل کرتے ہوئے اور انتخابات میں کامیابی حاصل کرتے ہوئے ٹی آر ایس عوام کو یہ پیغام دینے میں کامیاب ہوئی ہے کہ وہ طاقتور ہے۔ مگر ٹی آر ایس کے قلعہ میں جو دراڑ پڑرہی ہے، ٹی آر ایس کی قیادت اس کو دیکھنے میں ناکام ہے۔ ٹی آر ایس اور تلنگانہ تحریک کے اہم قائدین میں یہ احساس پایا جاتا ہے کہ پارٹی قیادت انھیں مسلسل نظرانداز کررہی ہے۔ اگر یہ رجحان پنپتا رہا تو حکمران جماعت کو چاروں خانے چت ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔ کیوں کہ ٹی آر ایس میں اقتدار کے وراثت کی لڑائی شروع ہوچکی ہے۔ ہریش راؤ ذہنی طاقت رکھنے والے ہیں۔

چیف منسٹر کے فرزند کے ٹی آر بھی اقتدار پر اپنی پکڑ مضبوط کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھ رہے ہیں۔ گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن میں ٹی آر ایس کی کامیابی کے بعد چیف منسٹر کی دختر ٹی آر ایس کی رکن پارلیمنٹ کویتا نے اپنے بھائی کے ٹی آر کو اپنے والد چیف منسٹر کے سی آر کا سیاسی وارث قرار دیتے ہوئے ریاست میں نئی بحث چھیڑ دی تھی جس سے ہریش راؤ اور ان کے حامیوں کو بہت بڑا دھکا لگا تھا۔ اس سے سنبھلنے میں ہریش راؤ کو کافی دن لگے تھے۔ کابینہ میں توسیع کی افواہوں کو وزارتی قلمدانوں میں معمولی تبدیلی کرتے ہوئے چیف منسٹر نے افواہوں کا خاتمہ کردیا۔ اس میں بھی چیف منسٹر نے اپنے فرزند کے ٹی آر کی وزارت میں ایک اہم قلمدان صنعتوں کا اضافہ کرتے وئے انھیں جہاں سیاسی طور پر مضبوط کردیا ہے۔ وہیں اپنے بھانجے ہریش راؤ سے معدنیات کا قلمدان چھین لیتے ہوئے انھیں مزید کمزور کردیا ہے جس سے ہریش راؤ اور کے ٹی آر کے درمیان رسہ کشی بڑھ گئی ہے۔ چیف منسٹر نے ریاست تلنگانہ کو ’’ویلفیر اسٹیٹ‘‘ قرار دیتے ہوئے 35 ہزار کروڑ روپئے خرچ کرنے اور ملک میں تلنگانہ فلاحی اقدامات میں نمبر ون ہونے کا دعویٰ ہے۔ بجٹ میں اعداد و شمار مختص کرنے کے معاملے میں ان کی بات میں سچائی ہے، تاہم عمل آوری میں حقائق سے بعید ہے۔ سال برائے 2014-15 ء کے دوران ٹی آر ایس حکومت نے ایس سی طبقات کے لئے 2799 کروڑ روپئے کا بجٹ مختص کیا صرف 1282 کروڑ روپئے جاری ماباقی 1517 کروڑ روپئے سرکاری خزانے میں چلے گئے قبائیلی طبقات کے لئے 1338 کروڑ روپئے کا بجٹ مختص کیا۔ صرف 932 کروڑ روپئے خرچ کئے 306 کروڑ روپئے سرکاری خزانے میں واپس ہوگئے۔ بی سی طبقات کے لئے 1840 کروڑ روپئے مختص کئے گئے۔ صرف 1414 کروڑ روپئے خرچ کئے گئے 426 کروڑ روپئے سرکاری خزانے میں واپس ہوگئے۔

اقلیتی بہبود کے لئے بجٹ میں 1030 کروڑ روپئے کی گنجائش فراہم کی گئی۔ صرف 438 کروڑ روپئے خرچ کئے گئے۔ 592 کروڑ روپئے سرکاری خزانے میں واپس ہوگئے۔ اس طرح ان طبقات کے لئے ایک لاکھ کروڑ کے مجموعی بجٹ 6907 کروڑ روپئے مختص کئے گئے 4066 کروڑ روپئے خرچ کئے گئے۔ 2841 کروڑ روپئے سرکاری خزانے میں واپس ہوگئے۔ سال برائے 2015-16 ء میں ایس سی طبقات 2539 کروڑ روپئے مختص کئے گئے۔ 1179 کروڑ روپئے جاری کئے گئے۔ مابقی سرکاری خزانے میں واپس ہوگئے۔ قبائیلی طبقہ کیلئے 1414 کروڑ روپئے مختص کئے گئے۔ 641 کروڑ روپئے جاری کئے گئے۔ بی سی ویلفیر کیلئے 1925 کروڑ روپئے مختص کئے گئے۔ 1439 کروڑ روپئے جاری کئے گئے۔ اقلیتی بہبود کے لئے 1150 کروڑ روپئے منظور کئے گئے۔ 498 کروڑ روپئے جاری کئے گئے۔ مابقی تمام فنڈس سرکاری خزانے میں واپس ہوگئے۔

اسی طرح برقی، زراعت، ہاؤزنگ اسکیم خواتین و اطفال، بہبود، صحت عامہ وغیرہ کے لئے مختص کردہ بجٹ میں 40 تا 60 فیصد فنڈس خرچ نہیں کئے گئے۔ عام طور پر جو بھی اسمبلی میں بجٹ منظور ہوا ہے، 40 تا 50 فیصد بجٹ سال کے اختتام تک خرچ نہیں ہوا ہے۔ 2014-15 ء کے بجٹ میں ڈبل بیڈ روم فلیٹس کے لئے بجٹ میں 111.58 کروڑ روپئے کی گنجائش فراہم کی گئی۔ مگر ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کیا گیا۔ جی ایچ ایم سی حدود میں ڈبل بیڈ روم فلیٹس کے لئے 7.29 کروڑ روپئے مختص کئے گئے یہاں بھی ایک روپیہ خرچ نہیں کئے گئے۔ واٹر گرڈ کے لئے 2000 کروڑ روپئے مختص کئے گئے صرف 105 کروڑ روپئے خرچ کیا گیا۔ حکومت نے جاریہ سال مشن بھگرتا پر 40 ہزار کروڑ اور ڈبل بیڈ روم فلیٹس پر 13.500 کروڑ روپئے خرچ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ مگر تعجب اس بات کا ہے کہ 53,500 کروڑ کے بجٹ کو منصوبہ جاتی بجٹ میں شامل نہیں کیا ہے۔ قرض حاصل کرتے ہوئے اس کو پائے تکمیل پہونچانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ ٹی آر ایس حکومت ایک طرف اپنے آپ کو مالدار ریاست ہونے کا دعویٰ کرتی ہے تاہم اندرون 2 سال تقریباً 91 ہزار کروڑ کا قرض حاصل کرتے ہوئے ریاست کے ہر فرد کو مقروض بنادیا جارہا ہے۔ آبپاشی پراجکٹس کے لئے جاریہ سال بجٹ میں 25 ہزار کروڑ روپئے کی گنجائش فراہم کی گئی ہے۔ تاہم 8000 کروڑ روپئے کے بقایا جات جاری کرنے میں حکومت ناکام ہوگئی ہے۔ ناکافی بارش اور خشک سالی کے باعث غذائی اجناس کی پیداوار گھٹ رہی ہے اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہورہا ہے۔

محکمہ صحت کے لئے جاریہ سال 5697 کروڑ روپئے کا بجٹ مختص کیا گیا ہے۔ حیدرآباد میں تین اور اضلاع میں 2 جملہ 5 بڑے کارپوریٹ ہاسپٹلس کی تعمیر کے لئے ناکافی ہے۔ سرکاری ایمپلائز کی تنخواہوں میں 43 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ مگر ایمپلائز کو بقایا جات ابھی تک جاری نہیں کئے گئے۔ تعلیمی اعتبار سے بھی نئی ریاست کی تشکیل کے بعد سے اب انجینئرنگ، بی فارمیسی، ایم سی اے، ایم بی اے، بی ایڈ، ایم ٹیک، ایم فارمیسی جملہ خانگی و ایڈیڈ 410 کالجس بند ہوگئے اور 46,040 نشستیں کم ہوگئیں۔ 398 سرکاری اسکولس میں صفر داخلے پر سپریم کورٹ نے تلنگانہ حکومت سے وضاحت طلب کی ہے۔ 43,000 اساتذہ کی جائیدادیں مخلوعہ ہیں۔ آر بی آئی نے تعلیم پر فنڈس خرچ کرنے والی ریاستوں کی فہرست تلنگانہ کو سب سے آخری 29 واں مقام دیتے ہوئے حیرت زدہ کردیا اور خواندگی کے معاملہ میں ملک بھر میں ریاست تلنگانہ کو 16 واں مقام حاصل ہوا ہے۔ ان اعداد و شمار کو دیکھنے کے بعد کیا ریاست تلنگانہ کو ویلفیر اسٹیٹ قرار دیا جاسکتا ہے۔ ان اعداد و شمار سے چیف منسٹر کے دعوے کی ہوائی قلعی کھل گئی ہے۔ ہمارا مقصد حکومت کو نیچا دکھانا نہیں ہے بلکہ صحتمندانہ انداز میں حقائق کو منظر عام پر لانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ریاست میں مسلمانوں اور قبائیلی طبقات کو 12 فیصد مسلم تحفظات فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا جس پر کوئی عمل آوری نہیں کی گئی۔ مسلم تحفظات کی تحریک سے خوفزدہ ہوکر سدھیر کمیشن تشکیل دیا گیا جبکہ قبائیلیوں کی کوئی تحریک نہیں ہے لہذا ان کے لئے کمیشن تشکیل دینا بھی گوارہ نہیں سمجھا گیا۔ ایس سی طبقات کے لئے 3 ایکر اراضی دینے کا وعدہ کیا گیا اس پر بھی عمل آوری نہیں ہوئی۔ کے جی تا پی جی تعلیم کا وعدہ کیا گیا۔ دو تعلیمی سال ضائع ہونے کے بعد جاریہ سال 4 کروڑ عوام کے لئے 250 ریزیڈنشیل اسکولس قائم کرنے کا اعلان کیا گیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تلنگانہ ریاست مالی طور پر کافی مستحکم ہے تو منظور کردہ بجٹ صرف 55 تا 60 فیصد خرچ کیوں کیا جارہا ہے۔ مکمل بجٹ خرچ کیوں نہیں ہوپارہا ہے۔ 2 سال میں ریاست پر 91 ہزار کروڑ روپئے کا قرض کیوں عائد ہوگیا۔ خامیاں کہاں ہیں اس کا جائزہ لینے اور اس کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بات سچ ہے جمہوریت میں سروں کی گنتی ہوتی ہے۔ یہ بھی صحیح ہے۔ عوام کا حافظہ کمزور ہوتا ہے۔ مگر جب شعور بیدار ہوتا ہے تو اُس وقت بہت دیر ہوجاتی ہے اور سوائے پچھتاوے کے دوسرا کوئی چارہ نہیں رہتا۔