تلنگانہ وآندھرا میں گرمی کا قہر قدرت کے سامنے ہرشئے مجبور

ظفر آغا
جناب یہ گرمیاں نہیں قہر خداوندی ہے ۔ کبھی آندھرا پردیش کہلانے والی ریاست ان دنوں جہنم میں بدل چکی ہے ۔ یہاں ہوائیں نہیں بلکہ ہوا کی شکل میں موت کی لہر چل رہی ہے ۔ لو کے گھوڑے پر سوار موت جس کو ذرا سا بے ہوشیار پاتی ہے بس اسی کو اپنے دامن میں دبوچ لیتی ہے ۔ تب ہی تو وہ کیا حیدرآباد کیا کوئی اور شہر ساری ریاست میں خوف و ہراس چھایا ہے ۔ سڑکوں پر سناٹا ، دن دھاڑے ہو کا عالم ، بس لو کے بگولے ہیں جو سڑکوں پر شکار کے لئے نکل پڑے ہیں ۔ تب ہی تو ہر روز سیکڑوں کی تعداد میں اموات ہورہی ہیں ۔ موت کے ڈر سے چہار سو سناٹا ہے ، اگر کچھ بھیڑ نظر آتی ہے تو وہ فقط قبرستانوں اور شمشان گھاٹوں پر ، لیکن اس بھیڑ میں ہر کوئی ڈرا سہما کہ کہیں کل کو اس کو بھی مستقل یہی منتقل ہونا پڑجائے ؟ آسمانوں سے آگ برس رہی ہے ۔ سڑکوں سے آگ کی لپٹیں اٹھ رہی ہیں ۔ کہیں سکون نہیں ۔ بس ایک موت کا رقص ہے جو چاروں طرف جاری ہے ۔

آخر یہ قیامت کیوں ؟ اور کہاں گیا انسان کا وہ دعوی کہ ہم نے بہت ترقی کرلی ہے ۔ کیا ہوا اس سائنس اور ٹکنالوجی کو جو یہ دعوی کرتی تھی کہ اس نے قدرت کو اپنی مٹھی میں کرلیا ہے ۔ اب کیوں انسان قدرت کی ایک معمولی سی ہوا کی گرمی کی تاب نہیں لارہا ہے ۔ آخر یہ لُو ہے کیا ؟ محض گرم ہوا ہی تو ہے ۔ سائنس نے سب کچھ مٹھی میں کرلیا ہے تو پھر اس گرم ہوا کو کوئی سائنسداں ٹھنڈا کیوں نہیں کرلیتا ؟ کسی سے پوچھئے بس یہی جواب کہ یہ ممکن نہیں ہے ۔ تب تو پھر یہ دعوے بھی کھوکھلے ہیں کہ سائنس نے سب کچھ اپنی مٹھی میں کرلیا اور وہ قدرت پر بھی قادر آچکی ہے ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ سائنس نے انسان کو کہاں سے کہاں پہونچادیا ۔ انسان جنگلوں کے اندھیروں سے نکل کر آج اس برقی دور میں ہے جہاں رات کے اندھیرے بھی بجلی کی روشنی سے جگمگ جگمگ کررہے ہیں ۔ انسان ہواؤں پر سفر کررہا ہے ، ریل اور کاروں سے دوڑ رہا ہے ۔ چاند تو چاند پتہ نہیں کن کن سیاروں پر کمند ڈال رہا ہے ۔ طرح طرح کے علاج انسان کو موت کے منہ سے کھینچ کر نئی زندگی عطا کررہے ہیں ۔ کسی کا دل کسی دوسرے کے سینے میں دھڑکتا ہے تو کسی مردے کی آنکھ کسی زندہ کو نئی روشنی عطا کردیتی ہے ۔ کھیت کھادوں سے سونا اگل رہے ہیں ۔ اور تو اور کمپیوٹر اور ٹیلی کام کی ترقی نے انسان کے ہاتھوں میں ایسے موبائل فون دے دئے کہ دنیا کے سارے فاصلے ختم ہوگئے اور واقعی دنیا انسان کی مٹھی میں آگئی ۔ اور نہ جانے کتنے سائنس کے کرشمات ہیں جن کو یہاں قلمبند کرنا ممکن نہیں ہے ۔ یہ واقع ہے کہ سائنس نے جو ترقی کی اور اس ترقی نے انسان کو جو سہولتیں فراہم کیں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے لیکن یہی سائنس ایک معمولی سی لو یعنی قدرت کی شدید گرم ہوا کی تاب نہیں لاسکتی ہے ۔

آخر کیوں ؟ بات یہ ہے کہ وہ سائنسداں جو قدرت کو مٹھی میں کرنے کا دعوے کررہا ہے وہ یہ بھول گیا کہ اس کی سائنس کچھ اور نہیں بلکہ محض قدرت کے اصولوں کا علم ہے۔ دراصل سائنسداں کچھ نئی شئے ایجاد نہیں کرتا بلکہ وہ توقدرت میں پنہاں راز کو سمجھ کر اس کے اصولوں کو انسان پر افشا کردیتا ہے ۔ بس یہی ایک نیا سائنسی اصول مان لیا جاتا ہے ۔ اور سائنسداں قدرت کے اس اصول کو ایجاد قرار دے دیتا ہے گویا وہ اصول اس نے خود وضع کیا ہو لیکن حقیقت یہ نہیں ہے ۔ مثلاً مشہور سائنسداں نیوٹن کے Law of Gravitation نے انسانی دنیا میں ایک انقلاب بپا کردیا تھا ۔ لوگ عموماً اس کو نیوٹن کی ایجاد کہتے ہیں ۔ ذرا غور فرمایئے کہ نیوٹن نے یہ ایجاد کیسے کی ؟ دنیا واقف ہے کہ نیوٹن ایک روز ایک سیب کے درخت کے نیچے بیٹھا تھا کہ اسکی چھاتی پر ایک سیب گرپڑا ۔ اب نیوٹن نے سوچنا شروع کیا کہ آخر سیب درخت سے زمین کی طرف کیوں گرا ؟ بہت سوچ کر اس کی سمجھ میں آیا کہ زمین ہر شئے کو اپنی محور کی طرف کھینچتی ہے جس کے سبب سیب پیڑ سے گر گیا ۔ چونکہ نیوٹن وہ پہلا انسان تھا جس کو یہ راز سمجھ میں آیا تھا اس لئے یہ Newton Law of Gravitation کے نام سے مشہور ہوگیا ۔ جب کہ اس اصول کا نیوٹن سے کوئی لینا دینا نہیں تھا ۔ سیب نیوٹن سے ہزاروں سال قبل بھی زمین پر گررہا تھا اور آج بھی گرتا ہے ۔ دراصل یہ فعل قدرت کے ایک اصول کے تحت ہوتا ہے جس کو سب سے پہلے نیوٹن نے سمجھا ۔ یعنی نیوٹن ، قدرت کے ایک عمل کا اصول سب سے پہلے سمجھا ۔ لیکن وہ اصول قدرت کا اصول ہے جس کو نیوٹن نے ایجاد نہیں کیا بلکہ سب سے پہلے سمجھا تھا۔ یعنی سائنسداں کا کمال یہ ہے کہ وہ ایک عام انسان کے برعکس قدرت کے اصول کو سمجھ لیتا ہے ۔ پھر اس اصول کو انسان کی فلاح کے لئے ٹکنالوجی میں تبدیل کردیا جاتا ہے جس کے ذریعہ انسان فطرت پر قادر ہوجاتا اور ترقی کے چند قدم اور بڑھ جاتے ہیں ۔ لیکن اس کے یہ معنی قطعاً نہیں ہے کہ انسان نے قدرت کو اپنی مٹھی میں کرلیا ہے ۔ قدرت انسان پر ازل سے حاوی تھی اور آج بھی حاوی ہے ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو آج تلنگانہ اور آندھرا پردیش میں محض ہوا میں گرمی کی شدت سے سیکڑوں افراد موت کی نیند نہیں سورہے ہوتے ۔ سچ تو یہ ہے کہ قدرت کے آگے انسان کی کسی بھی ترقی کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔ تب ہی تو وہ نیپال کے زلزلہ ہوں یا پھرہندوستان میں لو کے تھپیڑے ، انسان سکنڈوں میں قدرت کے اس قہر کے آگے بے بس و بے چین نظر آتا ہے ۔

حقیقت تو یہ ہے کہ اب انسان کی ترقی انسان کے لئے قہر بنتی جارہی ہے ۔ وہ قدرت جس کو قابو میں کرنے کے دعوی انسان کررہا تھا اب وہی قدرت انسان کو سزا دے رہی ہے ۔ دنیا کی فضا انسانی ترقی نے اتنی گندی کردی ہے کہ اب انسان کے لئے سانس لینا بھی دو بھر ہورہا ہے ۔ ندیاں سوکھ رہی ہیں ۔ سمندر اور پہاڑ ایسی انگڑائی لے رہے ہیں کہ انسان اس کی تاب نہیں لاپارہا ہے ۔ جنگل ختم ہوتے جارہے ہیں اور جس کے سبب برسات کم سے کم تر ہوتی جارہی ہے ۔ تب ہی تو ابھی آندھرا و تلنگانہ کی لو سے سیکڑوں مررہے ہیں اور آگے کہتے ہیں کہ مانسون کے غائب ہونے سے سخت قحط سالی کے امکانات ہیں ۔ الغرض قدرت نے انسان کے سائنسی دعوؤں کو کھوکھلا ثابت کرکے اسکو بدحال کردیا ہے ۔ تب ہی تو لو کے قہر سے سیکڑوں مررہے ہیں اور بڑے بڑے سائنسداں محض کف افسوس مل رہے ہیں ۔