تلنگانہ میں مسلمان نظرانداز

محمد نعیم وجاہت
نئی ریاست تلنگانہ کی تشکیل کے بعد جس طرح تمام شعبوں اور اداروں میں ترقی اور مستقبل کی حکمت عملی پر غور کیا جا رہا ہے، اسی طرح سماج کے تمام طبقات بھی اپنی فلاح و بہبود اور ترقی کے لئے حکومت سے امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہیں۔ ٹی آر ایس حکومت تلنگانہ میں ٹورازم، صنعتوں، برقی، پانی، زرعی اور دیگر شعبہ جات کی ترقی کے لئے منصوبہ بندی کر رہی ہے، جو نئی ریاست کے لئے وقت کا اہم تقاضہ ہے، تاہم مستقبل میں ان منصوبہ بندیوں میں ترمیمات کی گنجائش بھی رکھنا چاہئے۔
قوموں کے عروج و زوال کا انحصار حکومت کے فیصلوں پر ہوتا ہے۔ دستور ہند نے ایس سی، ایس ٹی اور بی سی طبقات کو تحفظات فراہم کئے ہیں، جس سے ان طبقات کو تعلیم اور ملازمتوں کی فراہمی میں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ انھیں ترقی کے معاملے میں بھی تحفظ فراہم کیا گیا ہے، جس سے ان طبقات کی زندگیوں میں انقلاب آیا۔ تلنگانہ کی مجموعی آبادی میں مسلم آبادی تقریباً ایک کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ تلنگانہ حکومت کے حالیہ سروے میں مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ کا انکشاف ہوا ہے۔ تلنگانہ تحریک میں مسلمانوں نے بھی دیگر ابنائے تلنگانہ کے ساتھ کندھے سے کندھا ملاکر حصہ لیا۔ لہذا مسلمانوں کی ترقی و بہبود کے بارے میں غور کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، کیونکہ مسلمانوں کی اتنی بڑی آبادی کو نظرانداز کرکے تلنگانہ کی ترقی ممکن نہیں ہے۔

آندھرا پردیش میں آزادی کے بعد سے اب تک مسلمانوں کے ساتھ انصاف نہیں ہوا، ان کے ساتھ تمام شعبوں میں حق تلفی ہوئی ہے۔ ترقیاتی، فلاحی، تعلیمی اور سماجی کاموں میں توقع کے مطابق مسلمانوں کے ساتھ انصاف نہیں ہوا، لہذا اس پر غور کرنا تلنگانہ حکومت بالخصوص چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کی ذمہ داری ہے۔ مسلمانوں کے حق میں صرف بہلاوے کی باتیں ان کی زندگیوں میں خوشیاں نہیں لاسکتیں اور نہ ہی تاریکی کو دُور کرسکتی ہیں، بلکہ مسلمانوں کی زندگیوں کی تاریکی دور کرنے کے لئے نئی نئی اسکیمیں تیار کرنے کے علاوہ ان پر سختی سے عمل آوری کی ضرورت ہے۔ اکثر حکومتیں، سیاسی جماعتیں اور ان کے قائدین کو مسلمان صرف انتخابات کے موقع پر نظر آتے ہیں۔ ووٹ حاصل کرنے کے لئے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں سے وعدہ کرکے ہتھیلی میں جنت دکھائی جاتی ہے، جب کہ کامیاب ہونے والی جماعت اپنے وعدوں پر عمل آوری کے لئے سنجیدہ نہیں ہوتی اور شکست سے دوچار ہونے والی جماعتیں اپنی شکست کا ذمہ دار مسلمانوں کو ٹھہراتی ہیں۔ کامیاب جماعت اپنے انتخابی منشور میں کئے گئے وعدوں کو تو بھول جاتی ہے، لیکن اپوزیشن جماعتیں بھی مسلم مسائل پر کبھی آواز نہیں بلند کرتیں اور نہ ہی حکومت سے نمائندگی کرتی ہیں۔ صرف افطار پارٹیاں اور عیدین وغیرہ کے موقع پر مسلم مسائل پر مگرمچھ کے آنسو بہاتی ہیں۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ خود مسلمانوں میں بھی اپنے مسائل کے سلسلے میں شعور نہیں پایا جاتا، ہم صرف حکومت پر نکتہ چینی تک محدود ہیں۔ ہم مسلمانوں میں اتحاد کا فقدان ہماری سب سے بڑی کمزوری ہے۔ سماج کے دیگر طبقات کے قائدین بلالحاظ پارٹی و سیاست ایک پلیٹ فارم جمع ہو جاتے ہیں، مگر ہم مسلمان اپنے مسائل کے حل کے لئے کبھی ایک پلیٹ فارم پر جمع نہیں ہوتے اور نہ ہی اپنے مسائل کے لئے سنجیدہ کوشش کرتے ہیں، جس کی وجہ سے مسلمانوں کے مسائل جوں کے توں برقرار رہتے ہیں۔ ان حالات میں مسلمانوں، مسلم رہنماؤں اور دانشوروں کو اپنے محاسبہ کی سخت ضرورت ہے۔ مسلمانوں کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ کسی کو اپنا قائد نہیں مانتے اور نہ ہی کسی قائد کے ساتھ کام کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ ہم صرف ایک دوسرے کی بُرائی بیان کرنے میں اپنا وقت برباد کرتے ہیں، جب کہ کامیابی قربانی مانگتی ہے اور انانیت کامیابی میں رُکاوٹ پیدا کرتی ہے۔ ہر مسئلہ کا حل موجود ہے، بشرطیکہ مسلمان ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو جائیں۔
ٹی آر ایس کو اقتدار حاصل کرکے 4 ماہ مکمل ہوچکے ہیں، لیکن ان چار مہینوں میں مسلمانوں کے لئے کوئی کام نہیں ہوا۔ کابینہ کے اجلاس میں مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات فراہم کرنے کی منظوری ضرور دی گئی، تاہم اس پر عمل آوری نہیں ہوئی،

جب کہ تعلیمی اداروں میں داخلوں کا عمل مکمل ہوچکا اور مسلمانوں کو صرف 4 فیصد تحفظات پر ہی اکتفا کرنا پڑا۔ چیف منسٹر تلنگانہ 14 برسوں سے مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات فراہم کرنے کا وعدہ کر رہے ہیں، لیکن اقتدار کے چار ماہ گزرنے کے باوجود اس پر عمل آوری کی ابتداء نہیں ہوسکی۔ حکومت کمیشن تشکیل دے سکتی تھی، مگر اب تک یہ کام بھی نہیں کیا گیا، جب کہ اسمبلی کے پہلے اجلاس میں بی سی طبقات اور خواتین کو 33 فیصد تحفظات فراہم کرنے کی قرارداد منظور کی گئی۔ چار دن قبل چیف منسٹر تلنگانہ نے وزیر اعظم نریندر مودی کو مکتوب روانہ کرتے ہوئے قانون ساز اداروں میں خواتین اور بی سی طبقات کو 33 فیصد تحفظات فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لئے اسمبلی میں منظورہ قرارداد کا حوالہ بھی دیا۔ قابل غور بات یہ ہے کہ ماہ رمضان المبارک اور حج کیمپ کے لئے حکومت نے جو رقم منظور کی تھی، وہ اب تک جاری نہیں ہوئی، جب کہ بتکماں تہوار کے لئے دس کروڑ روپئے جاری کرکے سارے تلنگانہ میں جشن منایا گیا۔ بتکماں تہوار کا کوئی مخالف نہیں ہے، تاہم مسلمانوں کی عیدین کی اہمیت سے حکومت کو واقف کرانا ضروری ہے۔ ہمارے چیف منسٹر نے تل سنکرات کی تعطیلات کو کم کرتے ہوئے بونال اور دسہرہ کی تعطیلات کو 15 دن تک کردیا ہے، اسی طرح رمضان اور عید الاضحی کے موقع پر بھی چند دن کی تعطیلات منظور کرنا چاہئے۔پہلے کابینی اجلاس میں ایک ہزار کروڑ روپئے اقلیتی بجٹ منظور کیا گیا، مگر بجٹ کی اجرائی میں ٹال مٹول سے کام لیا جا رہا ہے۔ اقلیتی مالیاتی کارپوریشن کو کار کرد ادارہ میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ادارہ صرف فیس باز ادائیگی اور اسکالر شپس کی اجرائی تک محدود ہے۔ جب اقلیتی بجٹ ایک ہزار روپئے ہو گیا ہے تو اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی ترقی و بہبود کے لئے کچھ اسکیمیں متعارف کرواکر ان پر عمل آوری ہونی چاہئے۔ اقلیتی بجٹ میں اضافہ کرنا کوئی کارنامہ نہیں ہے، جب کہ منظورہ بجٹ کا صحیح استعمال کارنامہ بن سکتا ہے، کیونکہ اسکیمات نہ ہونے کی صورت میں منظورہ بجٹ دوبارہ سرکاری خزانوں میں پہنچ جاتا ہے۔

تلنگانہ حکومت نے ’’فاسٹ‘‘ کے نام سے طلبہ کے لئے نئی اسکیم کا اعلان کیا ہے، اس اسکیم سے ایس سی اور ایس ٹی طلبہ کی مکمل فیس ادا کی جا رہی ہے۔ اس اسکیم کے تحت مسلمانوں کو بھی لانا چاہئے، تاکہ ان کی پسماندگی کا خاتمہ ہو سکے۔ اس قسم کے اقدامات سے مسلمانوں کی ترقی ہوگی اور مسلمانوں کے تئیں حکومت کے ہمدردانہ رویہ کا اظہار ہوگا۔ چیف منسٹر تلنگانہ نے گاندھی جی کے 145 ویں یوم پیدائش کے موقع پر 2 اکتوبر سے غریب مسلم لڑکیوں کی شادی کے لئے 51 ہزار روپئے سرکاری خزانے سے ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ چیف منسٹر کا یہ فیصلہ قابل ستائش ہے۔ یہ رقم راست لڑکی کے بینک اکاؤنٹ میں پہنچے گی۔ کانگریس دور حکومت میں بھی 25 ہزار روپئے دیئے جاتے تھے، مگر اس کے لئے اجتماعی شادی میں شرکت لازمی تھی، جس کی وجہ سے کئی غریب مسلم خاندانوں نے اس قسم کے پروگرام میں شرکت نہیں کی، کیونکہ ان کی غیرت نے اس بات کی اجازت نہیں دی کہ وہ اپنی بچیوں کو لے کر اجتماعی شادی کی تقریب میں شرکت کریں۔ تلنگانہ حکومت کی شادی مبارک اسکیم اچھی ہے، مگر اس کے قواعد بہت سخت ہیں، جس میں نرمی پیدا کرکے غریب اور اہل مسلم لڑکیوں کو پہنچانا چاہئے، ورنہ یہ اسکیم بے فیض ثابت ہوگی۔ یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ غریب عوام کے لئے سرکاری دفاتر کا بار بار چکر کاٹنا ممکن نہیں ہے، لہذا جب حکومت کی نیت صاف ہے تو اسے کوئی ایسا راستہ نکالنا چاہئے، جس سے زیادہ سے زیادہ غریب مسلم لڑکیوں کو فائدہ پہنچ سکے۔