تلنگانہ میں قبل از وقت انتخابات چالاکی یا فریب دونوں ہی صورتوں میں فیصلہ عوام کے ہاتھ

محمد غوث علی خاموش
ٹی آر ایس سربراہ تلنگانہ کی عوام کو اپنے ہاتھ کا کھلونا سمجھ کر قبل از انتخابات کیلئے اسمبلی کو تحلیل تو کردیا مگر عوام کی ناراضگی کی کوئی پرواہ نہ کی جبکہ مسٹر چندر شیکھر راؤ اپنے انتخابی منشور کے کئی وعدے پورے ہی نہ کرسکے۔ پھر اقتدار کو طلب کرنے عوام سے مخاطب ہوتے جارہے ہیں ۔ جس عوام نے انہیں پانچ سالہ اقتدار سونپا اسی اقتدار کو چھوڑ کر دوبارہ اقتدار مانگنے عوام کے پاس جائیں گے ، یہ چالاکی ہے یاپھر فریب عوام میں تجسس برقرار ہے کیونکہ اقتدار چھوڑ کر پھر اقتدار طلب کرنا یا تو چالاکی ہوسکتی ہے یا پھر فریب ، عقلمندی تو ہرگز نہیں ہوسکتی۔ یہ تو صرف آنے والا وقت ہی بتائے گا ۔ تلنگانہ سرکار نے اپنے انتخابی اہم وعدوں کو چھوڑ کر دیگر اسکیمات میں ریاستی عوام کو مصروف ضرور رکھا لیکن پھر بھی منشور کے وعدے آج بھی عوام میں تازہ دم زندہ ہیں۔ جس میں کے جی تا پی جی تک مفت تعلیم کا انتظام ، 12 فیصد مسلم تحفظات ہر گھر کے ایک فرد کو سرکاری ملازمت، آؤٹ سورسنگ تمام ملازمین کو مستقل کرنے کا وعدہ ، ہر گھر کو صاف و شفاف پینے کا پانی ، ہر غریب بے گھر کو ڈبل بیڈروم مکان اور کئی وعدے جو آج تک پورے ہونے سے رہ گئے ۔ تلنگانہ علحدہ ہوتے ہی جس قدر عوام کو اُمیدیں وابستہ تھیں، اس میں سے 10 فیصد بھی ٹی آر ایس سرکار پورا نہ کرسکی جس سے تلنگانہ کی عوام آج بھی مایوس ہے ہر نوجوان اپنی بیروزگاری سے تنگ آکر تلنگانہ کی پہلی سرکار سے آس لگائے بیٹھا تھا اور آج تک اس کی آس برقرار ہے مگر پوری نہ ہوسکی۔ سنہرہ تلنگانہ ضرور ممکن تھا لیکن حکومت کی خام پالیسیوں نے سنہرہ تلنگانہ کو عملی جامع نہ پہناسکے۔ ٹی آر ایس نے فضول خرچ کو عادت بناکر ریاست کو مقروض کردیا ہے جس سے مستقبل میں حالات سنگین بھی ہوسکتے ہیں ۔ کاش یہ پہلی سرکار صرف ریاست سے بیروزگاری دور کرنے اور غریبوں کو بنیادی سہولتوں سے راحت دلانے میں صد فیصد کامیاب رہتی تو عوام کے چہروں پر آج مسکراہٹ ہوتی ۔ ہر غریب خوش ہوتا مگر تلنگانہ الگ ہونے کے باوجود عوام کو کوئی بہترین صلہ نہ مل سکا جبکہ تلنگانہ حاصل کرنے کیلئے عوام نے بھی طویل مدت تک اپنا چین و سکون کھویا تھا ، کئی مشکلات کا سامنا کیا ۔ سینکڑوں جان قربان ہوئیں۔ پھر بھی ٹی آر ایس سرکار عوام کو کامیابی کے بعد راحت نہ دے سکی اور آج بھی ریاست میں بیروزگار چہرے جوں کے توں موجود ہیں ۔ نہ تعلیم میں کوئی خاص ترقی ہوسکی اور نہ ملازمتوں میں مواقع فراہم ہوسکے۔ مسلمانوں کے ساتھ تو ایسا استحصال کیا گیا کہ انہیں ہتھیلی میں ہی جنت دکھائی دی گئی ۔ متحدہ ریاست میں جو مسلمانوں کیلئے تحفظات تھے ، آج تک یہی تحفظات مسلمانوں کا مقدر ہیں۔ علحدہ ریاست سے مسلمانوں کی کچھ تقدیر نہ بدل سکی ، جس کا جتنا افسوس کیا جائے کم ہے جبکہ تلنگانہ کے مسلمانوں کی پسماندگی صرف تحفظات کے ذریعہ ہی سنواری جاسکتی ہے جو آج تک نصیب نہ ہوسکے، علحدہ تلنگانہ میں بھی مسلمان اتنے ہی نظر انداز کئے گئے جتنے متحدہ ریاست میں کئے گئے ۔ 2014 ء کے انتخابات میں تو مسلمانوںکو اوقافی جائیدادوں کو لیکر اس قدر خوش کیا گیا جس کی انتہا نہ رہی ۔ ایسا لگتا ہے کہ پہلی سرکاری نے قیمتی وقت ضائع کردیا ہے اور پہلے وزیر اعلیٰ ریاستی معیشت کو بے جا استعمال کر کے عوام کے مستقبل کو نظر انداز کیا ہے ۔ تب ہی تو لاکھوں کروڑوں خرچ ہونے کے باوجود آج بھی تلنگانہ جہاں تھا وہیں پر کھڑا ہے ۔ قول و فعل میں تضاد رکھنے والے مسٹر چندر شیکھر راؤ نے عوام کو خوب استعمال کیا ہے ۔ا یسے میں قبل از وقت انتخابات اگر چالاکی ہے تو سیاست میں ٹھیک ہے ، ورنہ اگر فریب ہے تو پھر ٹی آر ایس نے ڈبل خودکشی کی ہے کیونکہ منشوری وعدے مکمل نہ کر کے سرکار کا یوں اپنے ہتھیار ڈالنا اور پھر ایک مرتبہ عوام کو سیاسی جال میں کھینچنے کی تیاری کرنا صاف صاف نظر تو آرہا ہے ، مگر وسائل رکھتے تلنگانہ سرکار کے مسائل حل نہ کرے ، اپنی ٹیم دور اندیشی کا ثبوت ضرور دیا ہے کیونکہ سرکار اب ریاستی انتخابات کا میدان جیت کر 2019 ء میں مر کز کے ساتھ قدم ملا کر چلنے کا خواب دیکھ رہی ہے تو ٹی آر ایس کی صحت کیلئے شاید ٹھیک نہ رہے ۔ اس لئے تو قبل از وقت انتخابات چالاکی ہے یا فریب انتظار کر کے دیکھنا ہوگا۔ 02 ستمبر کو عظیم جلسۂ ترقی کی رپورٹ میں مسٹر کے سی آر نے ریاستی آمدنی کو جس طرح بڑھا چڑھاکر پیش کیا ہے کسی تعجب سے کم نہیں۔ انہوں نے ملک بھر میں تلنگانہ کو ترقی میں نمبر ون بتایا اور ریاستی ریونیو 17 فیصد اونچا بتایا جبکہ ریاست کی آمدنی شراب اور پٹرول سے 40 تا 45 فیصد حاصل ہورہی ہے ۔ شراب فروختگی میں ریاست ٹاملناڈو کے بعد تلنگانہ کا دوسرے نمبر پر رہنا کسی تعجب سے کم نہیں ! سب سے زیادہ ریونیو ملک میں صرف دو ریاستوں سے شراب پر وصول ہورہا ہے جبکہ آبادی کے لحاظ سے اترپردیش سب سے بڑی ریاست ہے۔ تلنگانہ میں 2014-15 ء کا شراب ریونیو 10238-78 کروڑ روپئے رہا تو 2015-16 ء میں 12143-88 کروڑ روپئے تک پہنچا۔ اس طرح تلنگانہ شراب فروختگی میں نمبر ون بن رہا ہے اور اسی آمدنی کو مسٹر کے سی آر ریاستی آمدنی سے جوڑ رہے ہیں۔ اگر انہیں ریاست کی آمدنی ہی اگر عوام کے سامنے پیش کرنا ہے تو شراب اور پٹرول کو چھوڑ کر نہیں کریں۔ تب عوام کو سچائی کا پتہ چلے گا ۔ یوں عوام کو اندھیرے میں رکھتے ہوائی قلعے بنانا اچھے حکمراں کی نشانی نہیں اور قبل از وقت ریاست میں انتخابات کروانے کی عجلت اگر چالاکی ہے تو بھی فیصلہ عوام کے ہاتھ ہے اور اگر فریب ہو تو بھی فیصلہ عوام کا ہی رہے گا۔ تلنگانہ کے رائے دہندے ٹی آر ایس کی نظر میں ازراں ہوگئے اسی لئے تو عوامی فیصلہ کو سیاستداں اپنی مرضی سے بدلنے کی جراء ت کر رہے ہیں۔ خیر ! جو کوئی بھی سال آخر تک جماعت اقتدار سنبھالے اقلیتوں کی ترقی کیلئے ٹھوس اقدامات کرے، عوامی بنیادی مسائل کو صد فیصد حل کرنے میں غیر معمولی دلچسپی لے اور بیروزگاری دور کرنے کیلئے ضروری اقدامات کریں۔ تب حکمراں کا مقصد کامیاب رہے گا ! ورنہ جدید ریاست میں قدیم سیاسی ہتھکنڈے عوام پر استعمال کرنا سیاسی جماعتوں کی صحت کیلئے ٹھیک نہ ہوگا ۔ تلنگانہ ریاست کی دوسری حکومت جو کوئی بھی تشکیل دے پہلے فضول خرچ بند کرے اور صرف عوام کی ترقی کو اہمیت دے تو تلنگانہ خود بہ خود سنہرہ تلنگانہ کہلائے گا ۔ بنیادی سہولتوں کا فقدان رکھتے ترقی کے نام پر کروڑوں روپئے اڑانا حماقت کے سوا اور کچھ نہ ہوگا کیونکہ تلنگانہ عوام کی ترقی ہی تلنگانہ کی ترقی ہے ، عوام کو بیروزگاری و پسماندگی کے دلدل میں رکھ کر ترقی کے ڈنکے بجانا درست نہیں، دفتر معتمدی بدلنے سے عوام کی تقدیر نہیں بدلے گی، ایسے خیالات ترک کرنا ضروری ہے ، ورنہ سیاستداں کم اور نجومی زیادہ کہلائیں گے۔
ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے
(فیض احمد فیض)