ریاستی وزراء نے 4 سال سے عثمانیہ یونیورسٹی کی صورت نہیں دیکھی
محمد نعیم وجاہت
ریاست تلنگانہ کی سیاست 2014 سے یک رخی راستے پر گامزن تھی اور طاقتور ترین سمجھے جانے والے قائدین بھی ایک کے بعد دیگر گلابی رنگ میں رنگے جارہے تھے۔ کانگریس ہو یا تلگودیشم یا پھر شہری حدود تک اپنی سیاست کے لئے ناقابل تسخیر سمجھی جانے والی سیاسی جماعت کے قائدین ہر کوئی ٹی آر ایس سے دوستی نہیں تو کم از کم اختلافات رکھنے کے بھی موقف میں نہیں رہے۔ لیکن گزشتہ 4 سال کے دوران ریاست کی سیاست کے یک رخی راستے میں کچھ ایسے یو ٹرن آئے کہ سیاسی جماعتوں کے قائدین کو آج اپنے فیصلوں پر ازسرنو غور کرنا پڑرہا ہے اور کئی قائدین کو اپنے فیصلوں پر پچھتاوا بھی ہورہا ہے اور وہ نئی حکمت عملی پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں۔ حکومت تلنگانہ نے سیاسی حریفوں کو خوف میں مبتلا کرتے ہوئے اپنا حلیف بنانے کا جو منصوبہ تیار کیا تھا اُس میں وہ بڑی حد تک کامیاب ہوئی اور اس کا شکار ہونے والوں میں ہر سیاسی جماعت کے قائدین شامل ہیں۔ لیکن اب جبکہ ریاست میں قبل ازوقت انتخابات کی حکمت عملی پر غور کرنے کی اطلاعات موصول ہورہی ہیں ایسے میں کانگریس کے علاوہ دوسری جماعتوں سے ٹی آر ایس میں شامل ہونے والے عوامی منتخب نمائندوں کے علاوہ دوسرے قائدین کو اپنا مستقبل تاریک نظر آرہا ہے۔ تو دوسری جانب ٹی آر ایس کی بی جے پی سے بڑھتی ہوئی قربت ٹی آر ایس میں موجود مسلم و سیکولر قائدین کے ساتھ حکومت کی اعلانیہ حریف کے لئے مشکل کا سبب بنتی جارہی ہے۔
مودی سے کے سی آر کی دوستی کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوجائے گا کہ ٹی آر ایس، بی جے پی کی غیر معلنہ حلیف کی طرح کام کررہی ہے۔ تلگودیشم، بی جے پی کی حلیف ہونے کے باوجود تقسیم آندھراپردیش کے وعدوں کو پورا نہ کرنے پر بطور احتجاج این ڈی اے سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے مرکزی حکومت کے خلاف علم بغاوت کردیا ہے یہاں تک کہ این ڈی اے حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی نوٹس پیش کی اور مودی حکومت کے خلاف ووٹ دیا۔ راجیہ سبھا کے نائب صدرنشین کے انتخابات میں اپوزیشن جماعتوں کے اتحادی امیدوار کو ووٹ دیا۔ تقسیم آندھراپردیش کے بل میں تلنگانہ سے کیا گیا ایک بھی وعدہ پورا نہیں کیا گیا پھر بھی ٹی آر ایس بدستور بی جے پی اور این ڈی اے کی تائید جاری رکھے ہوئے ہے۔ جبکہ ٹی آر ایس این ڈی اے کی حلیف بھی نہیں ہے مگر پھر بھی نوٹ بندی، جی ایس ٹی، صدارتی، نائب صدارتی اور نائب صدرنشین راجیہ سبھا عہدے کے انتخابات کے لئے بی جے پی اور این ڈی اے کی قدم قدم پر تائید کی ہے۔ تحریک عدم اعتماد کی رائے دہی سے غیر حاضر رہتے ہوئے بالواسطہ مودی حکومت کی حمایت کی ہے۔
ٹی آر ایس نے اقتدار حاصل کرتے ہی سب سے پہلے ذرائع ابلاغ اداروں کے ساتھ سیاسی جماعتوں کے سرکردہ قائدین کو اپنے ساتھ شامل کرلیا اور 4 سال کے درمیان میڈیا کے اتحاد کو توڑنے اور سرکردہ قائدین کی اہمیت کو گھٹانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ اب ان کی اہمیت اتنی گھٹ گئی ہے کہ وہ دوبارہ سیاسی طور پر وہ مقام حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔ ایسے قائدین میں سابق صدر پردیش کانگریس کمیٹی ڈی سرینواس، ڈاکٹر کیشو راؤ یا پھر تلگودیشم کے ای دیاکر راؤ یا سی پی آئی کے رکن رویندر کمار ان سب کی اہمیت اب حکمراں ٹی آر ایس میں باقی نہیں رہی۔ ایسے سرکردہ قائدین کی حالت کو دیکھتے ہوئے وائی ایس آر کانگریس پارٹی کے بشمول جن دوسرے ارکان اسمبلی، ارکان پارلیمنٹ اور ارکان قانون ساز کونسل نے ٹی آر ایس میں شمولیت اختیار کی تھی اب وہ اپنے مستقبل کے لئے فکرمند ہیں۔ کانگریس میں قدآور قائد کی حیثیت سے شناخت رکھنے والے ڈی سرینواس کو پارٹی سے معطل کرنے کے لئے ضلع نظام آباد کے ارکان پارلیمنٹ، ارکان اسمبلی، ارکان قانون ساز کونسل نے کویتا کی صدارت میں ایک قرارداد منظور کرتے ہوئے سربراہ ٹی آر ایس و چیف منسٹر تلنگانہ کے سی آر کو پیش کی۔ یہی نہیں ڈی سرینواس کے فرزند سابق میئر ڈی سنجے کے خلاف نربھئے ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرتے ہوئے سارے خاندان کو ذہنی طور پر ہراساں و پریشان کیا جارہا ہے۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹر کے کیشو راؤ جی حضوری پر اکتفا کررہے ہیں۔ تلگودیشم میں صف اول کے قائد ای دیاکر راؤ اب صرف اپنے حلقہ تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں۔ اپنی پارٹیوں سے مستعفی ہوتے ہوئے برسر اقتدار جماعت میں شمولیت اختیار کرنے والے قائدین سے جو خلاء پیدا ہوا تھا، اُسے پُر کرنے کے لئے ہر پارٹی اپنے طور پر کوشش کررہی ہے اور چار سال کے دوران کی جانے والی کوشش کو صدر کل ہند کانگریس کمیٹی کے دورہ تلنگانہ سے بڑی کامیابی حاصل ہونے کی کانگریس کو توقع ہے۔ کانگریس اور تلگودیشم کے درمیان انتخابی مفاہمت کی قیاس آرائیوں سے خوفزدہ ٹی آر ایس اپنے بچاؤ کے لئے بی جے پی سے قربت اختیار کرنے کی عملی کوشش میں مصروف ہے۔ تلنگانہ تحریک کی کامیابی کا سہرا نہ صرف تلنگانہ بلکہ ملک بھر کے قومی میڈیا نے طلبہ کے سر باندھا ہے لیکن اقتدار حاصل کرنے کے بعد ٹی آر ایس نے تحریک تلنگانہ کی ریڑھ کی ہڈی سمجھے جانے والے طلبہ کو نظرانداز کردیا بلکہ تحریک تلنگانہ کے مرکز عثمانیہ یونیورسٹی میں راہول گاندھی کے پروگرام کی اجازت نہ دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے اپنے خوف کو ظاہر کردیا۔
2014 ء کے بعد عثمانیہ یونیورسٹی میں چیف منسٹر کے سی آر سوائے صدسالہ تقاریب میں بحالت مجبوری صدرجمہوریہ کی موجودگی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے قدم رکھا۔ ان کے علاوہ زیرداخلہ کے ساتھ کسی وزیر نے عثمانیہ یونیورسٹی کی چار سال سے صورت نہیں دیکھی کیوں کہ ان قائدین کو اس بات کا اندازہ ہے کہ طلبہ ان کے متعلق کیا سوچ رہے ہیں۔ ٹی آر ایس قائدین عثمانیہ یونیورسٹی میں قدم نہیں رکھ سکتے اس لئے قومی سیاسی جماعت کے سربراہ دو شہید وزرائے اعظم اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی کی نسل کو اس مقام پر جانے سے روکا جارہا ہے جہاں کے نوجوانوں نے علیحدہ تلنگانہ ریاست کے لئے اپنی شہادت پیش کرتے ہوئے نہ صرف 4 کروڑ تلنگانہ عوام کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کیا بلکہ حریص ٹی آر ایس قائدین کو اپنی نعشوں پر اقتدار کی راہ ہموار کروائی۔ ان شہیدان تلنگانہ کی بدقسمتی یہ ہے کہ ٹی آر ایس تو انھیں یاد نہیں کررہی ہے لیکن شہید خاندان کے درد کو سمجھنے والے قائد راہول گاندھی کو بھی شہدا کے ساتھیوں سے ملاقات سے روکا جارہا ہے۔
تشکیل تلنگانہ میں کانگریس کے رول سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ کانگریس قائدین کی شدید مخالفت کے باوجود اے آئی سی سی نے علیحدہ تلنگانہ ریاست کی تائید میں راہول گاندھی نے اہم رول ادا کیا تھا۔ انھوں نے مخالفین کو راضی کرانے میں اہم رول ادا کیا۔ سونیا گاندھی نے جو کوشش کی تھی وہ ناقابل فراموش ہے لیکن راہول گاندھی نے جو نظریہ سازی کی ہے وہ لائق ستائش ہے۔ ٹی آر ایس تشکیل تلنگانہ کو اپنی کامیابی قرار نہیں دے سکتی کیوں کہ کانگریس تحریک کو کچلنا چاہتی تو تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ کانگریس سے پیدا ہونے والی تحریک کو خواہ وہ تلنگانہ پرجا سمیتی کی شکل میں ہو یا پھر تلنگانہ سے تعلق رکھنے والے سیاسی قائدین کی تحریک ہو کچلنے میں کامیابی حاصل کی تھی لیکن سونیا اور راہول نے تلنگانہ تحریک میں جان دینے والے نوجوانوں اور ان کے خاندانوں کے درد کو محسوس کرتے ہوئے علیحدہ تلنگانہ ریاست تشکیل دی کیوں کہ قربانی کا درد وہی محسوس کرسکتا ہے جس نے اپنے گھر سے قربانی دی ہو۔
جاریہ پارلیمنٹ سیشن کے دوران نریندر مودی حکومت کے خلاف پیش کردہ تحریک عدم اعتماد مباحث میں تقریر کرتے ہوئے راہول گاندھی نے کانگریس کے نظریہ کو پیش کیا اور ایک اہم جملہ کہا ’’کانگریس ملک کی تعمیر کا نام ہے‘‘۔ راہول گاندھی کے اس جملے نے ان تمام روایتی نظریات کو مسترد کرکے ملک میں ایک نیا جوش پیدا کرنے کی سمت قدم اُٹھایا ہے۔ کانگریس ملک کی تحریک کا حصہ رہی ہے اور اُس وقت کئی جماعتوں اور تنظیموں نے کانگریس کا ساتھ دیا جس میں کئی تنظیمیں اور جماعتیں آج بھی کانگریس کے ساتھ ہے۔ کانگریس 70 سال سے باقی ہے اور نئی نسل کے نظریات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ کانگریس پارٹی ہندوستان کا نظریہ ہے۔ جس کی ترقی ملک کی ترقی، جس کا زوال ملک کا موجودہ حال سے ثابت ہے۔ ٹی آر ایس علیحدہ ریاست کی تحریک سے شروع ہونے والی سیاسی جماعت ہے جس نے علیحدہ ریاست کی تشکیل کے بعد اپنے آپ کو کانگریس میں ضم کردینے کا وعدہ کیا تھا۔ دوسرے انتخابی وعدوں کی طرح اس کو بھی فراموش کردیا گیا۔ ٹی آر ایس نے تحریک کے دوران عوام کو جو خواب دکھایا اس کو 4 سال میں بھی پورا نہیں کیا۔ بلکہ تحریک میں ساتھ دینے والوں سے دغابازی کی گئی۔ تلنگانہ تحریک کے دوران اوقاف، نظام، سیکولرازم، حیدرآبادی تہذیب، اُردو کی دہائی دینے والے بھی چار سال کے دوران بی جے پی کو مستحکم کرتے ہوئے سیکولرازم کی دھجیاں اُڑائی۔ اوقافی جائیدادوں پر خاموش رہتے ہوئے مثال قائم کی۔ سال 2018-19 ء کے بجٹ میں اقلیتوں کے لئے 2000 کروڑ روپئے کی گنجائش فراہم کی گئی ہے مگر قارئین کو یہ پڑھ کر تعجب ہوگا کہ بجٹ منظور ہونے کے 4 ماہ بعد بھی محکمہ اقلیتی بہبود کے کئی ایسے شعبے ہیں جنھیں ایک روپیہ بھی جاری نہیں کیا گیا۔ ریاستی حج کمیٹی کے لئے 4 کروڑ روپئے منظور کئے۔ حج سیزن کے آغاز تک ایک روپیہ جاری نہیں کیا گیا۔ چار یوم قبل ایک کروڑ روپئے جاری کئے گئے۔ سنٹرل آف ایجوکیشن ڈیولپمنٹ آف میناریٹیز کے لئے بجٹ میں 4 کروڑ روپئے مختص کئے گئے مگر ایک روپیہ بھی جاری نہیں کیا گیا۔ تلنگانہ میناریٹی اسٹڈی سرکل کے لئے 8 کروڑ روپئے مختص کئے گئے مگر ایک روپیہ بھی جاری نہیں کیا گیا۔ تلنگانہ اردو اکیڈیمی کے لئے 40 کروڑ روپئے مختص کئے گئے مگر ایک روپیہ بھی جاری نہیں کیا گیا۔ دائرۃ المعارف کے لئے 4 کروڑ روپئے مختص کئے گئے مگر ایک روپیہ بھی جاری نہیں کیا گیا۔ تلنگانہ میناریٹی ریزیڈنشیل سوسائٹیز کے لئے 735 کروڑ روپئے مختص کئے گئے جس میں183.75 کروڑ روپئے جاری کئے گئے۔ میناریٹی فینانس کارپوریشن کے لئے 160 کروڑ روپئے مختص کئے گئے مگر صرف 25.5 کروڑ روپئے جاری کئے گئے۔ ریاستی وقف بورڈ کے لئے 80 کروڑ روپئے مختص کئے گئے مگر 4.5 کروڑ روپئے جاری کئے گئے۔ اس طرح اقلیتوں کو لالی پاپ دے کر بہلایا جارہا ہے۔