تلنگانہ میں سیاسی سرگرمیاں تیز تر

امیت شاہ اور راہول گاندھی کے دورے، ٹی آرا یس کیلئے چیلنج

محمد نعیم وجاہت
تلنگانہ کے تیسرے یوم تاسیس سے قبل ہی تلنگانہ میں سیاسی سرگرمیاں عروج پر پہنچ چکی ہیں۔ یوں تو عام انتخابات کے لئے ابھی دو سال باقی ہے لیکن بی جے پی کے قومی صدر امیت شاہ اور کانگریس کے نائب صدر راہول گاندھی کے دورے تلنگانہ کے بعد سیاسی سرگرمیاں عروج پر پہنچ چکی ہیں۔ تینوں سیاسی جماعتوں حکمراں ٹی آر ایس، کانگریس اور بی جے پی کی جانب سے 2019 ء کے عام انتخابات میں تلنگانہ میں اقتدار حاصل کرنے کا دعویٰ کیا جارہا ہے۔ 60 سال تک طویل جدوجہد کرنے کے بعد صدر کانگریس مسز سونیا گاندھی نے جو یو پی اے کی صدرنشین تھیں، 2 جون 2014 کو علیحدہ تلنگانہ ریاست تشکیل دیا ہے۔ علیحدہ تلنگانہ ریاست کے تین سال مکمل ہوچکے ہیں۔ تلنگانہ کی تحریک میں واضح رہے کہ ٹی آر ایس نے کلیدی رول ادا کیا ہے۔ لیکن تلنگانہ کانگریس ارکان پارلیمنٹ کا رول ناقابل فراموش رہا جنھوں نے مرکز میں حکمراں جماعت کا اہم حصہ ہونے کے باوجود پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں تلنگانہ کے بلز کو منظور کروانے کے لئے کئی دفعہ پارٹی قیادت کی برہمی اور پڑوسی ریاست آندھراپردیش کی نمائندگی کرنے والے کانگریس ارکان پارلیمنٹ کے توہین آمیز سلوک کو برداشت کیا ہے۔ طلبہ اور نوجوانوں نے قربانیاں دیتے ہوئے جہاں تحریک کو زندہ رکھا تھا وہیں دیڑھ ماہ تک تمام محکمہ جات کے سرکاری ملازمین نے عام ہڑتال کرتے ہوئے تحریک کو عروج پر پہنچادیا تھا۔ علیحدہ تلنگانہ ریاست کی تشکیل میں تاخیر اور کانگریس کی آندھرائی قائدین کی مخالفت نے تلنگانہ عوام کو کانگریس سے اتنا بدظن کردیا کہ انھیں تلنگانہ کانگریس کے ارکان پارلیمنٹ اور دوسرے وزراء اور ارکان اسمبلی کی حصہ داری کا کوئی پاس و لحاظ نہیں رہا۔ انتخابی مہم میں کے سی آر نے ٹی آر ایس تشکیل دینے کے بعد پہلی مرتبہ تنہا مقابلہ کرتے ہوئے اتنا جارحانہ موقف اختیار کیاکہ پارلیمنٹ کی سیڑھیوں پر تین دن تک احتجاج کرنے والے کانگریس کے ارکان پارلیمنٹ کے بشمول علیحدہ تلنگانہ ریاست تشکیل دینے والی کانگریس کو بھی عوام نے فراموش کردیا اور تلنگانہ تحریک میں بڑے بھائی کا رول ادا کرنے والی ٹی آر ایس کو اقتدار حاصل کرنے کیلئے اکثریت فراہم کردی۔ کے سی آر نے طوفانی انتخابی مہم چلاتے ہوئے 106 جلسوں سے خطاب کیا اور متاثرکن انتخابی منشور جاری کیا۔ دوسری جانب 10 سال تک اقتدار میں رہنے والے کانگریس قائدین کے درمیان اتحاد اور تال میل کا فقدان تھا۔ دوسری خامی یہ تھی کہ کانگریس کا ہر قائد اپنے آپ کو چیف منسٹر کا دعویدار سمجھ رہا تھا۔ کانگریس کے قائدین یہی غلط فہمی رہے کہ علیحدہ تلنگانہ ریاست کانگریس نے تشکیل دیا ہے اور عوام کانگریس کو ہی اقتدار سونپے گی۔ تحریک کے دوران کانگریس پر عوام کی جو ناراضگی تھی اس کو دور کرنے اور عوام کی نبض کو سمجھنے میں کانگریس قائدین ناکام رہے جس کی وجہ سے انھیں دوسرے مقام تک اکتفا کرنا پڑا اقتدار ایسا نشہ جس سے ہر کوئی چپکے رہتا چاہتا ہے۔ 2004 ء میںمیں کانگریس اور 2009 ء میں تلگودیشم سے سیاسی اتحاد کرنے والے ٹی آر ایس کے سربراہ کے سی آر شاطر مزاج سیاستداں ہیں انھیں متحدہ آندھراپردیش پر لمبے عرصے تک اقتدار کرنے والی دونوں جماعتوں کانگریس اور تلگودیشم کی خامیاں اور خوبیوں کا اچھی طرح علم ہے۔ کانگریس سے سیاسی کیرئیر شروع کرنے والے کے سی آر 2001 ء تک تلگودیشم پارٹی کا اہم حصہ رہے تھے۔ این ٹی آر بحران میں بھی اُنھوں نے چندرابابو نائیڈو کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا تھا انھوں نے چندرابابو نائیڈو کا تخت و تاج چھین کر پارٹی میں بحران پیدا کرنے کی کوشش کی تھی۔ تاہم پارٹی میں تائید حاصل نہ ہونے پر اپنے منصوبے سے دستبرداری اختیار کرتے ہوئے 2001 ء سے علیحدہ تلنگانہ کی تحریک شروع کی تھی۔ متحدہ آندھراپردیش میں کے سی آر ہی واحد قائد تھے جنھوں نے اپنی پارٹی قیادت سے بغاوت کی علیحدہ پارٹی تشکیل دی اور اقتدار کے زینے تک پہونچے۔ کئی قائدین نے بغاوت کی، علیحدہ سیاسی جماعتیں تشکیل دیں یا نئی سیاسی جماعتیں تشکیل دیں انتخابات کا سامنا کیا مگر اپنے وجود کو برقرار رکھنے میں ناکام رہیں۔ ان میں تلگو فلم اسٹار چرنجیوی بھی شامل ہیں۔ ٹی آر ایس کا تین سالہ دور اقتدار موضوع بحث بن چکا ہے۔ بے شک چند اچھی اسکیمات ہیں جو عوام کو ٹی آر ایس کی طرف راغب کررہی ہیں اور قابل ستائش بھی ہیں۔ مگر کئی ایسے وعدے بھی ہیں جو علیحدہ ریاست تلنگانہ کے تین سال مکمل ہونے کے باوجود بھی پورے نہیں ہوئے۔ کئی ایسے واقعات ہیں جہاں چیف منسٹر نے جمہوریت پر ڈکٹیٹرشپ کو ترجیح دی۔ کسی بھی کام کو کرنے کی ضد اچھی چیز نہیں ہے۔ لیکن حد سے زیادہ ضد نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ اسی ضد کی وجہ سے ٹی آر ایس حکومت کو ہائیکورٹ سے تین سال کے دوران 16 مرتبہ پھٹکار ملی ہے۔ میڈیا جمہوریت کا چوتھا ستون ہے۔ مگر میڈیا کے سوالات سے بچنے کے لئے چیف منسٹر نے اسمبلی میں میڈیا اور چیف منسٹر کے دفتر میں دیوار کھڑی کردی۔ اسمبلی میں میڈیا کے نمائندوں پر تحدیدات عائد کردی گئیں۔ سکریٹریٹ نظم و نسق کا مقام ہے تاہم واستو کے چکر میں چیف منسٹر نے سکریٹریٹ کو فراموش کردیا۔ ٹی آر ایس کے وزراء، ارکان اسمبلی اور ارکان قانون ساز کونسل کو بھی عوامی مسائل پر چیف منسٹر سے ملاقات کرنے کی آزادی نہیں ہے۔ کئی وزراء اور ارکان اسمبلی متعدد مرتبہ چیف منسٹر سے ملاقات کرے بغیر لوٹ گئے۔ عام قائدین بالخصوص مسلم قائدین کی چیف منسٹر کے پاس کوئی رسائی نہیں ہے۔ ریاست میں بڑے پیمانے پر کارپوریشن کے اور بورڈ کے صدرنشین نامزد کئے گئے مگر صرف 6 مسلمانوں کو نمائندگی دی گئی۔ تین سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود بھی اردو اکیڈیمی، حج کمیٹی کے صدورنشین کا اعلان نہیں کیا گیا۔ دوسری پارٹیوں سے ٹی آر ایس میں شامل ہونے والے قائدین کو اہمیت دی جارہی ہے۔ تاہم ٹی آر ایس کے بانی ارکان کو نظرانداز کیا جارہا ہے جس سے ان میں ناراضگی بڑھ رہی ہے۔ ٹی آر ایس کے تمام قائدین بالخصوص مسلم قائدین میں یہ ناراضگی زیادہ دیکھی جارہی ہے۔

گزشتہ تین سال کے دوران جتنے بھی انتخابات ہوئے ہیں سوائے تین کونسل کے تمام انتخابات میں حکمرانی ٹی آر ایس کو کامیابی حاصل ہوئی۔ اپنی حکومت کو مضبوط کرنے اور اپوزیشن کو کمزور کرنے کے لئے ٹی آر ایس حکومت نے کانگریس، تلگودیشم، وائی ایس آر کانگریس پارٹی، سی پی آئی اور دوسروں جماعتوں کے 26 ارکان اسمبلی، 3 ارکان پارلیمنٹ اور ایک رکن راجیہ سبھا کے علاوہ کئی ارکان قانون ساز کونسل کو حکمراں جماعت ٹی آر ایس میں شامل کرلیا۔ آئندہ 2 سال ٹی آر ایس کے لئے بہت بڑا چیلنج ہیں۔ کیوں کہ کئی وعدے ابھی پورے نہیں ہوئے۔ کسان پریشان ہیں۔ چیف منسٹر کے اسمبلی حلقہ میں 100 کسانوں نے خودکشی کی ہے۔ زبردستی اراضی چھین لینے سے کسان اور غریب عوام پریشان ہیں۔ مرچ کی فصل کے لئے اقل ترین قیمت فراہم کرنے کا مطالبہ کرنے پر کھمم میں کسانوں کو ہتھکڑیاں لگاتے ہوئے جیل بھیج دیا گیا۔ گینگسٹر نعیم سے تعلقات کے الزام میں چند پولیس ملازمین کو معطل کیا گیا۔ میاں پور میں 700 ایکر اراضی کے اسکام میں 4 سب رجسٹرار کو معطل کیا گیا۔ فیس ریمبرسمنٹ بقایا جات کی عدم اجرائی سے طلبہ ناراض ہیں۔ قرض کی معافی کے باوجود بینکس کسانوں کو نئے قرضہ جات جاری کرنے سے انکار کررہے ہیں۔
شمالی ریاستوں پر قبضہ کرنے کے بعد بی جے پی کی نظر جنوبی ریاستوں پر ٹکی ہوئی ہے۔ بی جے پی کرناٹک اور تلنگانہ پر قبضہ کرتے ہوئے سارے ہندوستان میں بی جے پی کو توسیع دینے کی منصوبہ بندی تیار کرچکی ہے۔ بی جے پی کے قومی صدر امیت شاہ کا دورہ تلنگانہ اور تین دن تک قیام اسی حکمت عملی کا ایک حصہ ہے۔ بی جے پی متنازعہ مسائل کو اُچھال کر تلنگانہ میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش کررہی ہے۔ یہ ماضی کے تلخ تجربات کو متنازعہ بناتے ہوئے سیاسی فائدہ اُٹھانے کی کوشش کررہی ہے۔ بی جے پی مسلم تحفظات کو موضوع بحث تو بنارہی ہے تاہم امیت شاہ کا نلگنڈہ میں اُسی مقام پر دورہ کرایا گیا جہاں رضاکاروں نے تشدد برپا کیا تھا۔ گائے، تین طلاق جیسے مسلمانوں کے مسائل کو موضوع بحث بناتے ہوئے جہاں ہندو ووٹ مضبوط کئے جارہے ہیں۔ وہیں مسلمانوں میں بھی مختلف مسائل پر پھوٹ ڈالتے ہوئے ان کے آپسی اتحاد کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اترپردیش میں کامیاب ہونے والے تجربے کو تلنگانہ کے علاوہ جنوبی ہند کی ریاستوں میں آزمانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بی جے پی ریاست تلنگانہ میں سرگرم ہوچکی ہے۔ 12 فیصد مسلم تحفظات کے خلاف تلنگانہ کے 31 کے منجملہ 26 اضلاع کلکٹریٹ پر بی جے پی نے احتجاجی مظاہرہ کیا اور حیدرآباد میں چلو اسمبلی دھرنا منظم کرنے کی کوشش کی جس کو پولیس نے ناکام بنادیا۔
کانگریس پارٹی ٹی آر ایس حکومت کی ناکامیوں کے خلاف جدوجہد کررہی ہے مگر عوام کا دل جیتنے میں ابھی پوری طرح ناکام ہوئی ہے۔ کانگریس کے نائب صدر راہول گاندھی کے سنگاریڈی کے جلسہ عام کی کامیابی کے بعد کانگریس کیڈر میں نیا جوش و خروش ضرور پیدا ہوا ہے۔ دیکھنا ہے مقامی کانگریس اس کو کتنے دن برقرار رکھ پاتی ہے۔ سنگاریڈی کا جلسہ کانگریس کے لئے یقینا اُمید کی ایک کرن ہے۔ کانگریس قائدین و کارکنوں میں ایک نیا جوش دیکھنے کو ملا ہے۔ راہول گاندھی کی تقریر بھی متاثرکن رہی۔ انھوں نے نوجوانوں، کسانوں کا دل جیتنے کی کوشش کی ہے لیکن کانگریس قیادت نے ماہ رمضان میں جلسہ عام کا اہتمام کیا۔ عین اُسی وقت جلسہ عام کا اہتمام کیا گیا جب مسلم افراد افطار کرتے ہیں۔ افطار کو نظرانداز کردیا گیا۔ کانگریس کے قائدین مسلمانوں کو پارٹی کی ریڑھ کی ہڈی قرار دیتے ہیں مگر مسلم روزہ داروں کے جذبات کا احترام نہیں کیا گیا۔ باوجود اس کے مسلمانوں کی بڑی تعداد نے جلسہ عام میں شرکت کی۔ راہول گاندھی کی تقریر کے دوران مسلم نوجوانوں نے 12 فیصد مسلم تحفظات پر بات کرنے کی راہول گاندھی کو توجہ دلائی۔ راہول گاندھی نے اپنی تقریر روک کر مسلمانوں کی بات سننے کی کوشش کی۔ اس میں راہول گاندھی کی کیا غلطی ہوسکتی ہے۔ کانگریس قیادت نے انھیں 12 فیصد مسلم تحفظات کے بارے میں کوئی بات نہیں بتائی جس کی وجہ سے 12 فیصد مسلم تحفظات راہول گاندھی کی تقریر کا حصہ نہیں بن سکا۔ کانگریس کے نائب صدر نے ایک خاندان کے چار ارکان کی حکمرانی پر طنز کرتے ہوئے عوامی توجہ حاصل کی۔ نوجوانوں سے سوال کیاکہ کیا تم نے ایک ہی خاندان کے چار ارکان کو اقتدار سونپنے کے لئے علیحدہ ریاست کی تحریک چلائی تھی۔ کیا تمہارے خواب پورے ہوئے ہیں، کسانوں کو ہتھکڑیاں پہنا کر جیل بھیجنا کیا یہی سنہرا تلنگانہ ہے۔
ریاست تلنگانہ میں حکمراں ٹی آر ایس اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان اصل جنگ شروع ہوچکی ہے۔ ٹی آر ایس وعدوں کی تکمیل کرتے ہوئے عوام کو کتنا متاثر کرتی ہے یا اپوزیشن جماعتیں حکومت کی ناکامیوں اور خامیوں کے خلاف تحریک چلاتے ہوئے عوام کی کتنی تائید حاصل کرتے ہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا مگر یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ریاست میں انتخابی تیاریوں کا آغاز ہوچکا ہے۔