تلنگانہ میں اسکولی تعلیم اور حکومت کی کوششیں

تلنگانہ ۔ اے پی ڈائری       خیر اللہ بیگ
معاشرے میں انصاف کیلئے مخصوص ادارے کام کررہے ہیں، ہر شہری کو بہتر زندگی ملے اس کے لئے حکومت پالیسیاں بناتی ہے لیکن جب ہر کوئی از خود ایک منصف بن کر فیصلے صادر کرنے لگے تو نظام زندگی بگڑجاتا ہے۔ حکومت اجتماعی کوششوں کے ذریعہ تشکیل پاتی ہے اور جب حکمراں ان اجتماعی کوششوں کو نظرانداز کرکے خود کو سماج کا منصف سمجھ کر فیصلے صادر کرتا ہے تو خرابیاں جنم لیتی ہیں۔ کسی خاندان کا ذمہ دار انصاف پسند ہو تو خاندان کا ہر رکن اس سے خوش رہتا ہے مگر جب ارکان خاندان میں سے کسی کو یا پھر ہر کسی کو منصف بن کر اپنے فیصلے خود کرنے یا فیصلے دوسروں پر تھوپنے کی عادت پڑ جائے تو سب کو معلوم ہے کہ اس خاندان کا حشر بعد ازاں کیا ہوگا۔ 3 مئی کو پوری دنیا میں ’’ عالمی یوم صحافت ‘‘ منایا گیا، اس صحافت نے ہر شعبہ زندگی کے لئے مقررہ مخصوص قوانین کی روشنی میں ہی عوام کی رہنمائی کرنے کا بیڑہ اُٹھایا ہے۔ ان قوانین و قواعد اور اُصولوں کی پیروی کرکے زندگی کو تہذیب یافتہ بنایا جاسکتا ہے۔ ان سے بڑھ کر ہر ملک میں قانون کی حکمرانی اور اس کے مفاد کے لئے کام کرنے والے ادارے یعنی عدالتیں سب سے اہم ہوتی ہیں۔ عدالتیں ہوتی ہیں تو عوام کو راحت بھی ملتی ہے، حکمرانوں کے فیصلوں میں خرابیاں ہوں تو یہی عدالتیں ہیں جو عوام کو ان تکالیف سے چھٹکارا دلاتی ہیں۔
مرکزی حکومت نے جب 6 ماہ قبل ملک بھر میں نوٹ بندی کا فیصلہ کیا تو ہر ایک کو پریشانی لاحق ہوئی تھی، اب سب کچھ نارمل ہوگیا ہے، ڈیجیٹل انڈیا کیلئے مہم میں حصہ لینے والی ریاستوں میں تلنگانہ ریاست کو سرفہرست درجہ مل رہا ہے کیونکہ تلنگانہ نے عوام کو آسانیوں سے ہمکنار کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ جنوبی ہند کی 3 ریاستوں تلنگانہ، کیرالا اور آندھرا پردیش کو ڈیجیٹل لین دین میں سرفہرست بتایا گیا۔ وزارت آئی ٹی صنعت کے جاری کردہ ڈیٹا میں بتایا گیا ہے کہ 1000 افراد میں تقریباً 5900 ای لین دین ہوا ہے۔ تلنگانہ حکومت کے آئی ٹی وزیر کے ٹی راما راؤ کی صلاحیتوں کا ہر کوئی معترف ہے۔ انہوں نے ریاست کو ڈیجیٹل لین دین میں آگے رکھنے کے لئے اپنی وزارت اور حکومت کو زبردست طور پر متحرک رکھا ہے۔ شہریوں کو کرنسی کے بغیر لین دین کی ترغیب دینے میں کامیابی مل رہی ہے۔ شہری بھی اتنے سمجھدار ہیں کہ آسانیوں سے استفادہ کرنے میں پس و پیش نہیں کرتے۔ بعض مقامات پر ڈیجیٹل لین دین پر اعتراض ہورہاہے مگر آئندہ یہ تاجر بھی خود کو ڈیجیٹل انڈیا تحریک سے وابستہ کرلیں گے۔ سرکاری بلز کو آن لائن ادا کرنے کی سہولت اور بہبودی اسکیمات کے تحت ہونے والی سرکاری رقمی منتقلی کا راست فائدہ اس اسکیم کے استفادہ کنندگان کو ہورہا ہے کیونکہ اب درمیانی آدمی کا کوئی عمل دخل نہیں رہا۔ دیہی علاقوں میں بھی کیاش لیس کاروبار فروغ پارہا ہے۔
ریاست تلنگانہ ایک اسمارٹ اسٹیٹ ہے اور یہاں کے عوام بھی اسمارٹ ہیں اور نئی نسل کی صلاحیتوں میں زبردست اضافہ نے اس ریاست کو کئی شعبوں میں ترقی دی ہے۔ تلنگانہ کے حصول کا مقصد بھی یہی تھا کہ اس ریاست کے ہر شہری کو ترقی دی جائے۔ جس مقصد کو بنیاد بناکر یہ ریاست حاصل کی گئی ہے یعنی عوامی حکومت اور ان کی فلاح و بہبود کو ترجیحی سطح پر رکھا گیا ہے۔ ان 3 برسوں میں حکومت نے کئی فیصلے کئے ہیں لیکن اس دوڑ دھوپ کے باوجود ہمارے سکنڈری اسکول نظام میں بہتری نہیں لائی گئی۔ دیہی تعلیم کیلئے جو انفراسٹرکچر اور بہترین اساتذہ کی ضرورت ہوتی ہے اس پر توجہ نہیں دی گئی۔ حالیہ ریاست کے ایس ایس سی نتائج سے واضح ہوتا ہے کہ حکومت کو تعلیم کے شعبہ کو ترقی دینے کیلئے بہت کچھ کرنا ہے۔
تلنگانہ میں ایسے 28 اسکول دستیاب ہوئے ہیں جن کا کامیابی کا فیصد صفر رہا ہے۔ کامیابی کے فیصد میں اس سال 1.48 فیصد کی کمی آئی ہے۔ 14مارچ تا 30 مارچ منعقدہ ایس ایس سی امتحانات میں ریگولر طلبہ 5,07,938 تھے جبکہ خانگی طلباء کی تعداد 25,763تھی۔ حکومت نے اقلیتی اقامتی اسکولس بھی قائم کئے ہیں مگر ان کے نتائج کا ابھی خاطر خواہ موقف سامنے نہیں آیا۔ ریاست میں اقامتی، ماڈل، ریزیڈنشیل، سوشیل ویلفیر، ٹرائیبل ویلفیر اور خانگی اسکولوں کا جال بچھا ہوا ہے جہاں کی کامیابی کا فیصد کمزور ہے۔ سرکاری اسکولوں کی کاکردگی ناقص ہے، کے جی پی وی اور ضلع پریشد، آشرم اور ریزیڈنشیل اسکولوں نے بھی ریاستی سطح کے کامیاب فیصدکا کم تناسب حاصل کیا ہے۔ اس سلسلہ میں ہماری حکومت کا مزاج کیا ہے یہ معلوم کرنا ضروری ہے۔ تعلیمی ترقی کیلئے پالیسیاں اور اسکیمات بنائے جانے کے باوجود کامیابی کا فیصد آگے نہیں آسکا ہے۔ نوجوانوں کا تابناک مستقبل حکمرانوں کے منصوبوں میں ہی پنہاں ہوتا ہے، اگر حکومت شاندار کردار کے ساتھ کام کرے تو تعلیمی میدان کو کامیابی کی عظیم منزل بناسکتی ہے۔ سال2019 کے انتخابات کی تیاری کرنے والی ٹی آر ایس حکومت ہو یا آندھرا پردیش کی تلگودیشم حکومت کو نئی نسل کی بہتری والی پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے۔ نصابی کتابوں اور اسکولوں میں بہتر انفراسٹرکچر کی دستیابی کو یقینی بنانا لازمی ہوگیا ہے۔ تعلیمی شعبوں کو سیاسی نکتہ نظر سے نہ دیکھا جائے۔ مگر قابل تشویش بات ہے کہ ایک عالمی اہمیت کی حامل تعلیمی ترقی کا فیصد گھٹ گیا ہے۔ چیف منسٹر چندر شیکھر راؤ نے تلنگانہ میں تعلیم پر خاص توجہ دینے کی پالیسی اختیار کی ہے، فروغ انسانی وسائل کے ذریعہ ہی تعلیم کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔
تعلیم پر خاص کر اسکول کی سطح پر کوئی بھی حکومت پیسہ خرچ کرتی ہے تو یہ ایک بہتر مستقبل کیلئے شاندار سرمایہ کاری کہلاتی ہے۔ چیف منسٹر چندر شیکھر راؤ کی زیر قیادت تلنگانہ جکومت نے تعلیمی شعبہ میں اختراعی اقدامات کئے ہیں۔ خاص کر دیہی علاقوں میں لڑکوں اور لڑکیوں پر توجہ دی جارہی ہے۔ کمزور طبقات اور اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے طلباہ کو ترقی دی جارہی ہے اس لئے تمام ضلع ہیڈکوارٹرس پر لڑکوں کے لئے 29 اسکولس قائم کئے گئے ہیں جو کے جی بی ویز منصوبہ کے خطوط پر ہے۔ اس کے علاوہ حال ہی میں84 ننئے کے جی پی ویز اسکول قائم کئے گئے۔ مرکز کے سرواسکھشا ابھیان کے لئے 300 کروڑ روپئے اور راشٹریہ مدھمیک سکھشا ابھیان کیلئے 110 کروڑ روپئے مختص کئے گئے ہیں۔ تلنگانہ کے قیام سے قبل ریاست میں240 اقامتی اسکول تھے جبکہ حکومت تلنگانہ نے صرف اس ایک تعلیمی سال میں 234 نئے اقامتی اسکولس قائم کئے ہیں اور عصری ٹکنالوجی اختیار کرتے ہوئے ٹریننگ کے طریقہ کو بہتر بنایاجارہا ہے ہر ضلع میں ڈیجیٹل کلاس رومس کی اہمیت پر توجہ دی جارہی ہے۔سرکاری اسکولوں میں انگلش میڈیم تعلیم کو متعارف کروایا جانا ایک نمایاں تبدیلی ہے۔سوشیل ویلفیر ریزیڈنشیل اسکولوں میں اساتذہ کی مہارت کو بہتر بنایا جارہا ہے، وزیر تعلیم کی حیثیت سے شہر میںکڈیم سری ہری نے تمام اسکولوں میں بنیادی سہولتوں کی فراہمی کو ضروری تصور کیا ہے تو اس سلسلہ میں کوئی بھی خامی نہیں رہنی چاہیئے۔ معیاری تعلیم کو یقینی بنانا حکومت کی توجہ سے ہی ممکن ہوگا۔ اسکولوں میں طلبہ کیلئے سہولتیں نہ ہونے خاصکر بیت الخلاء نہ ہونے سے 12 اور 13 سال کی عمرکے طالبات اسکول سے نکل جاتی ہیں۔ دیہی سطح پر اسکول ترک کرنے والی طالبات کا فیصد زیادہ ہے۔ اس مسئلہ کو دور کرنے کیلئے حکومت نے سرکاری اسکولوں میں بیت الخلاؤں کی تعمیر شروع کی ہے۔ اقامتی اسکولوں میں بچوں کو داخل کرانے کے لئے والدین کو ترغیب دیا جانا بھی حکومت کی پالیسی کا حصہ ہے۔ سال 2017-18 تعلیمی سال کی پالیسی بھی یہ ہے کہ اقامتی اسکولوں میں زیادہ سے زیادہ بچوں کو داخل کیا جائے اور بہتر تعلیم کو فروغ دیا جائے۔
kbaig92@gmail.com