تلنگانہ سے کشمیر تک ‘ ایک ’معمولی چور‘ کس طرح عسکریتی سرگرمیوں میں شامل ہوا۔

بین الاقوامی دہشت گرد تنظیم دعوۃ اسلامی کی ذیلی تنظیم کے طو رپر مانے جانے والی انصار قذوۃ الہند نے کہاکہ کشمیرمیں مارے گئے تلنگانہ سے تعلق رکھنے والے 26سالہ دہشت گرد ہمارے گروپ کا سرفہرست کیڈر س تھا۔
حیدرآباد۔جمعرات کے روز پولیس نے کہاکہ اسی ہفتہ کے تلنگانہ سے تعلق رکھنے والے ایک 26سالہ عسکریت پسند کو کشمیر ڈھیر کردیاگیا ہے جس کے متعلق مبینہ طور رپر یہ کہاجارہا ہے کہ اس نے پابچ سال قبل سری نگر کے ایک ہفتہ طویل دورے کے موقع پر دہشت گردوں سے رابطے میں آیاتھا اور سوشیل میڈیا کے ذریعہ اسلامی شدت پسندوں سے رابطے میں تھا اور انہیں پیغامات بھی ارسال کیاکرتاتھا۔

ایسٹ تلنگانہ کے کوتھاگوڑم ضلع کے بھدرادھاری کے ساکن محمد توفیق اور دوساتھی دہشت گردوں کو کشمیر کے اننت ناگ میں سکیورٹی فورسس نے پیر کے روزڈھیرکردیاتھا۔بین الاقوامی دہشت گرد تنظیم دعوۃ اسلامی کی ذیلی تنظیم کے طو رپر مانے جانے والی انصار قذوۃ الہند نے کہاکہ کشمیرمیں مارے گئے تلنگانہ سے تعلق رکھنے والے 26سالہ دہشت گرد ہمارے گروپ کا سرفہرست کیڈر س تھا۔حیدرآباد سے تین سوکیلومیٹر کے فاصلہ پر واقع چندا گونڈہ گاؤں پہنچ کر جمعرات کے روز پولیس نے توفیق کے گھر والو ں سے پوچھ تاچھ بھی کی ہے۔

ضلع کے سپریڈنٹ آف پولیس امبر کشور جہا نے کہاکہ’’ ہم لوگ اب بھی اس بات کی جانچ کررہے ہیں تلنگانہ میں کہیں اس کا دوسرا نٹ ورک تو موجود نہیں ہے۔ ہم کیس کی تہہ تک پہنچنے کے بعد تمام تفصیلات پیش کریں گے‘‘۔

توفیق کے گھر والوں ہمیں ان کے ردعمل کے لئے نہیں ملے او رمانا جارہا ہے کہ وہ پوچھ تاچھ کے پولیس کی تحویل میں ہیں۔اشواپورم کے محکمہ اٹانومی انرجی کے ہیوے واٹر پلانٹ میں کام کرنے والے ریٹائرڈ ملازم محمد رزاق کے تین بچوں میں سے ایک اور واحد بیٹا توفیق تھا۔جانچ میں شامل کوتھاگوڑم پولیس کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ توفیق مبینہ طور پر اسکول کے زیرتعلیم رہنے کے وقت معمولی چوری اور ڈکیتی کے واقعات میں ملو ث تھا مگر ناکافی ثبوت کی بناء پر اس کو رہا بھی کردیاگیاتھا۔

نام نہ ظاہر کرنے شرط پر ایک پولیس افسر نے بتایاکہ اسکول کے بعد اس نے بھدرا چلم کے ایک مدرسہ میں داخلہ لیا‘ جہاں پر اسی اسلامی تعلیمات بشمول قرآن او رحدیث کادرس دیاجاتا تھا ۔فبروری 2008میں توفیق ’ جماعت‘ میں چلاگیا۔ مذکورہ افسر نے بتایاکہ چالیس روز کی جماعت میں اس نے وکشاپٹنم‘ چیرلہ ‘ دمو گوڈم اور کونا ورم بھی گئی تھا اس وقت آندھرا پردیش کی تقسیم نہیں ہوئی تھی۔اس نے 2008سے2011کے درمیان میں ضلع محبو ب نگر کے ونپرتی سے انجینئرنگ میں ڈپلومہ کیا ‘ اس وقت وہ مسجدرہا کرتاتھا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ 2012ڈسمبر وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ سری نگر کے دورے پر گیاتھا ‘ اس وقت وہ وادی میں علیحدگی پسند دہشت گردوں کے جانب سے ’’مخالف انڈیا‘‘اور ’’موافق کشمیر‘‘ لگائے گئے پوسٹرس سے متاثر ہوا تھا۔پولیس نے یہ بھی کہاکہ اس کی سری نگر کے مکینوں سے اچھی دوستی بھی ہوگئی تھی۔

بعدازاں توفیق نے ایک فیس بک اکاونٹ کھولا تاکہ کشمیر کے حالات سے واقفیت حاصل کی جاسکے اور اس کے بعد ہی وہ دہشت گردوں کے نظریات سے متاثر ہوا۔مذکورہ پولیس افیسر نے کہاکہ ’’ اس نے ان لائن پیپرس کا مطالعہ کرنا شروع کیاتاکہ کشمیری دہشت گردی کوسمجھ سکے۔ اس نے پاکستانی نژاد دہشت گرد تنظیم جیش محمد کے بانی مسعود اظہر کی تقریرن ڈاؤن لوڈ کرنا شروع کیں‘‘۔

ڈسمبر2013میں توفیق کو حیدرآباد میں ملازمت ملی۔ اس کی دلچسپی اسلامی اسٹیٹ میں بڑھنے لگلی اور مبینہ طور پر مسیج کے پلیٹ فارم سے وہ لٹریچر پر مشتمل گروپ کے نظریات کا مواد بھی وصول ہونے لگا ۔مذکورہ پولیس افیسر نے کہاکہ’’اکٹوبر 2015میں توفیق سوکھے میوجات کا کاروبار کی غرض سے کشمیر گیا ‘ مگراسکے بجائے وہ حز ب المجاہدین کے ایک دہشت گرد مبشر اسلام کے گھر پہنچ گیا‘ اس کے بعد وہ حیدرآباد واپس آیا‘‘۔

مانا یہ جارہا ہے کہ توفیق 2016میں مستقل طور پر کشمیر چلاگیاتھا۔ ایک دوسرے پولیس افیسر نے بھی نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہاکہ’’ اس کے بعد سے توفیق اپنے گھر والوں کے رابطے میں بھی نہیں تھا‘‘