تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
ٹی آر ایس پارٹی گزشتہ20ماہ سے کسی بھی پارٹی کو خاطر میں نہیں لارہی ہے۔ دو قومی پارٹیاں کانگریس اور بی جے پی کا ہر الیکشن میں صفایا کرنے کا جو سلسلہ شروع کیا ہے وہ تھم نہیں پارہا ہے۔ ورنگل، کھمم بلدیات اور اچم پیٹ گرام پنچایت انتخابات میں شاندار کامیابی کو عوام کی مکمل ہمدردی اور حکومت کی فلاحی اسکیمات سے مربوط کردیا گیا ہے۔ چیف منسٹر کے سی آر نے اپنی پارٹی کی شاندار کامیابی کا سہرا حکومت کی فلاحی اسکیمات اور ان کی دیانتدارانہ کوششوں کے سر باندھا ہے۔ ایک پارٹی کے حق میں عوام کا یہ عشق بھی سیاسی میدان کے ہر عہد میں ایک نئی کیفیت پیدا کرتا ہے، کل تک یہی رائے دہندے وائی ایس راج شیکھر ریڈی کو بھاری اکثریت سے دو مرتبہ منتخب کرچکے ہیں۔ اس سے قبل چندرا بابو نائیڈو کو دو مرتبہ اقتدار دیا تھا، اور اس سے بہت پہلے جب کانگریس کی ہی طوطی بولتی تھی تو تلگوفلموں کے سوپر اسٹار این ٹی راما راؤ نے 1981 میں تلگودیشم کا قیام عمل میں لاکر کانگریس کا بدترین صفایا کردیا تھا۔
ریاست کی تقسیم کے بعد فطری طور پر عوام کا عشق اور معاشقہ ٹی آر ایس سے چل رہا ہے تو یہ حیرت کی بات نہیں ہے کیونکہ عوام اسی کو پسند کرتے ہیں جو عوام انہیں میٹھے اور حسین خوابوں کی دنیا میں لے جاکر میٹھی نیند کی گولی دے کر سلاتا ہے۔ اپنے سحر انگیز خطابت کا جادو چلا کر چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ یہاں تک پہونچنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ وہ خطابت کے جادو سے شام و سحر عوام کو ایک سے ایک نیا سبز باغ دکھاتے آرہے ہیں اور عوام کی توقعات کے غباروں میں ہوا بھرتے جارہے ہیں۔ شہروں میں پانی کی قلت ہے پھر بھی عوام خوش ہیں۔ ٹریفک کا مسئلہ ہے عوام کو کوئی پریشانی نہیں ہے۔ ہیلمیٹ کا لزوم لگاکر پولیس کو من مانی کے لئے سڑکوں پر چھوڑ دیا گیا پھر بھی عوام چُپ ہیں کیونکہ حکومت سے عوام کا والہانہ عشق بھی ایک نئی کیفیت پیدا کررہا ہے۔ اس سیاسی عاشقی اور محبوب کے درمیان رشتے کی نوعیت اس وقت تک نہیں بدلتی جب تک بے وفائی کا دھوکہ کھایا نہ جائے۔ جس ریاست میں شہر کی ترقی کے دعوے اور خوش فہمیاں پیدا کی جاتی ہیں اس ریاست اور شہر کی سڑکوں پر نکل کر دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ چاروں طرف فقیر ہی فقیر نظر آتے ہیں۔ سڑکوں خاص کر سگنلوں پر ایک طرف ٹریفک پولیس چالانات کی شکل میں حکومت کے خالی خزانے بھرنے کی بھیک وصول کرتی ہے تو دوسری طرف نقلی فقیر کوئی اپنا کٹا ہوا ہاتھ دکھا کر بھیک مانگتا ہے تو کوئی شیر خوار کو گود میں لے کر بھیک مانگتا ہے۔ کوئی زمین سے گھسیٹتا ہوا آکر بھیک مانگتا ہے تو کوئی ریلوے اسٹیشنوں کے باہر چلچلاتی دھوپ میں ننگے بدن پڑے پڑے مسافروں کی دریادلی کو آزماتا ہے۔ یہ بھیک مانگنے والے صرف سڑکوں، چوراہوں، بازاروں، دکانات، درگاہوں اور مندروں میں ہی نظر نہیں آتے بلکہ یہ لوگ زندگی کے مختلف شعبوں میں موجود ہیں، پھر بھی حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس کی فلاحی اسکیمات کی وجہ سے عوام خوش ہوکر اسے ووٹ دے رہے ہیں۔
تلنگانہ کے کمیونسٹوں کے گڑھ میں ٹی آر ایس کو شاندار کامیابی ہوجانا کوئی معمولی تبدیلی نہیں ہے۔ تلنگانہ سے اپوزیشن کا صفایا کردینے کی جو مہم شروع کی گئی تو وہ کھمم میں آکر ختم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ حکمراں پارٹی ٹی آر ایس نے ورنگل اور کھمم میں اپنی شاندار کامیابی کا ریکارڈ درج کرایا ہے۔ تلگودیشم پارٹی کو ان انتخابات نے بہت رُلادیا ہے، ان تینوں مقامات پر اس پارٹی نے اپنا کھاتہ ہی نہیں کھولا۔ آندھرا پردیش پر حکومت کرنے والی تلگودیشم اور اس کے سربراہ چندرا بابو نائیڈو کو تلنگانہ میں بتدریج ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اس کے باوجود وہ ہمت سے کام لیتے دکھائی دے رہے ہیں۔ تلنگانہ میں تلگودیشم کا وجود ختم پر ہے۔ ورنگل میں ٹی آر ایس کی کامیابی کوئی نئی بات نہیں ہے کیونکہ یہاں سیاسی پارٹیوں کو جو توقع تھی اس کے مطابق نتائج آئے ہیں۔کھمم میں گلابی جھنڈا لہرایا جانا ہی سب سے بڑی تبدیلی ہے کیونکہ یہاں ہمیشہ انقلاب پسندوں، بائیں بازو طاقتوں کو کامیابی ملتی رہی تھی۔ شہر کھمم میں سی پی آئی اور سی پی آئی ایم دونوں کا کافی اثر ہوا کرتا تھا۔ ان دونوں کو کھمم کے رائے دہندو ں نے بہت زیادہ مایوس کردیا ہے۔
تلنگانہ کی اپوزیشن پارٹیاں اپنی سیاسی ناکامیوں کا غم تلنگانہ اسمبلی بجٹ سیشن میں غلط کرنے کی کوشش کریں گی۔ یہ بجٹ سیشن ٹی آر ایس حکومت کی پالیسیوں اور فلاحی اسکیمات کا آئینہ ہوگا۔ورنگل میں ٹی آر ایس کو اپنے باغی امیدواروں سے پریشانی اٹھانی پڑی تھی، ان باغیوں نے ٹی آر ایس کے سرکاری امیدواروں کو بری طرح شکست دے دی۔ ٹی آر ایس نے جہاں شاندار کامیابی درج کی وہیں یہ بھی سبق دیا گیا کہ اگر پارٹی کے اندر بغاوت کی لہر پیدا ہوجائے تو ٹی آر ایس کا مستقبل خطرے میں پڑے گا کیونکہ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کے بھانجے وزیر آبپاشی ہریش راؤ کے بارے میں یہ خیال قوی ہوتا جارہا ہے کہ وہ پارٹی سربراہ کے رویہ سے ناراض ہیں اس لئے ورنگل میں باغیانہ سرگرمیوں کو تقویت حاصل ہوئی۔ خود ٹی آر ایس کے قائدین نے اعتراض کیا کہ باغی قائدین کو ٹی آر ایس کے لیڈروں کی مکمل سرپرستی حاصل تھی۔ بعض سینئر قائدین نے بھی باغیوں کا ساتھ دیا۔ یہ رجحان ایک مضبوط و مستحکم حکومت کیلئے خطرہ بن سکتا ہے۔ پارٹی سربراہ کو باغیوں کے مسئلہ پر سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت پڑے گی۔
غور طلب امر یہ ہے کہ ٹی آر ایس میں یہ شکایت عام ہوگئی ہے کہ جو پارٹی کے حقیقی کارکن ہیں انہیں انگوٹھا دکھایا جارہا ہے اور دوسری طرف جو قائدین دوسری پارٹیوں سے نکل کر ٹی آر ایس میں آرہے ہیں انہیں سرآنکھوں پر بٹھاکر عہدے دیئے جارہے ہیں۔ سوال یہ اُٹھ رہا ہے کہ جو نوجوان جلسوں میں نعرے لگاتا تو اچھا لگتا ہے مگر وہ کابینہ کا حصہ نہیں بن سکتا۔ عوام ووٹ ڈالنے بھی دور دور سے آتے اور پھر پانچ سال تک اپنے لیڈر کا انتظار کرتے رہے۔ حکومت اپنے طور پر کچھ نہیں کرے گی صرف مشورے دے گی، مثال کے طور پر اگر گرما میں غیر معلنہ برقی کٹوتی ہوتو آپ کو گھر روشن رکھنے کیلئے انونٹر یا جنریٹر کا انتظام کرنا پڑے گا۔ پانی کے حصول کیلئے از خود بورویل یا واٹر ٹینکر سے مدد لینی پڑے گی۔ گھر کی حفاظت کیلئے از خود گارڈ کا انتظام کرلینا پڑے گا، سرکاری دواخانوں اور سرکاری اسکولوں کی خستہ حالی دیکھ کر خانگی دواخانوں اور اسکولوں کا رُخ کرنا ہوگا۔
سوال یہ ہے کہ جب حکومت یہ سب کچھ اپنے شہریوں کو نہیں دے سکتی تو ووٹ کس لئے مانگتی ہے۔؟ جب بنیادی ضروریات جیسے پانی، صحت، تعلیم، روزگار اور جان کا تحفظ دینے میں نااہل ہے تو کیا عوام کو انہیں اپنا حکمراں بناکر اس لئے رکھا جانا چاہیئے کہ عوام اپنی برسوں کی غلامانہ سوچ سے مجبور ہیں، کیا عوام کو یہ معلوم نہیں ہورہا ہے کہ یہ لیڈروں کے ٹولے اپنے اپنے اڈے سنبھالے ہوئے ہیں اور کوئی انہیں ان کی اوقات نہیں دکھا سکتا۔ تکلف برطرف ٹی آر ایس اور اس کے سربراہ اگر واقعی درست سمت میں جارہے ہیں تو یہ ان کا اپنا سیاسی ریکارڈ ہے۔ وعدوں پر وعدے کرنے والے چیف منسٹر بن کر 12فیصد تحفظات کے وعدہ کے تصور کی زمین زرخیز بنادی ہے مگر اس سے حاصل کچھ نہیں ہوسکتا۔
kbaig92@gmail.com