تلنگانہ بجٹ

ان کے آنے کی بہت دل کو خوشی ہے لیکن
غم کا احساس برابر ہے خدا خیر کرے
تلنگانہ بجٹ
تلنگانہ بجٹ عوام کی امیدوں پر پانی پھیر چکا ہے۔ خاص کر مسلمانوں کے لئے بجٹ میں ایس سی ایس ٹی کے مقابل بہت ہی کم رقم مقرر کی گئی ہے۔ اقتدار کے بعد کام کرنے کا جذبہ رکھنے والی ٹی آر ایس نے بھی آندھرائی طاقتوں کے خطوط کو اختیار کیا ہے یہ فسوسناک واقعہ ہے۔ حکومت نے اپنے پانچویں بجٹ میں اپنی بقاء کا خیال رکھ کر کام کیا ہے۔ علحدہ ریاست تلنگانہ کی ترقی کے نام پر سیاسی تجارت کرنے والوں نے سب روایتوں اور وعدوں کو ہی بدل ڈالا ہے۔ آفرین ہے ان سیاستدانوں پر جنہوں نے انتہائی مہارت سے وہ تمام کل پرزے اپنے ہاتھ میں کرلئے ہیں جو کبھی یا کہیں ان کے راستے کی رکاوٹ بن سکتے تھے۔ شریک اقتدار ہونے کی خواہش نے مسلم نمائندوں کو ایوان کے اندر اور باہر حکومت کی غلطیوں کے جواب میں تو یقین کرتے دیکھا جاچکا ہے۔ ان مسلم نمائندوں نے بجٹ کی تعریف کی ہے اس تعریفی خواہش نے انہیں ان کی اوقات ہی بھلا دی ہے۔ ماضی میں اندھیر نگری چوپٹ راج کا نعرہ دینے والوں نے شاید آج کی حکمرانوں کے لئے موزوں فقرہ تیار چھوڑا تھا۔ یہ وہ تلنگانہ نوٹ تھا جس کا خواب 1969ء کے تحریک کے بانیوں نے دیکھا تھا اور نہ یہ وہ تلنگانہ ہے جس کیلئے عوام نے خاص کر نوجوانوں نے جدوجہد کی تھی۔ حکومت نے اپنے بجٹ 2018-19ء میں سماجی خدمات کے شعبوں میں بجٹ مختص کرنے کیلئے مینڈک جیسی چھلانگ لگائی ہے اور اس بجٹ سے حکومت نے یہ توقع ظاہر کی کہ اس سے بی سی، ایس سی، ایس ٹی اور اقلیتوں کی بہبود میں بڑے کام انجام دیئے جائیں گے۔ اس سال یکم ؍ اپریل سے شروع ہونے والے نئے مالیاتی سال میں اس بجٹ کو خرچ کیا جائے گا۔ ریاستی وزیرفینانس ای راجندر نے سماجی خدمات کیلئے 45,500 کروڑ روپئے کا بجٹ مقرر کیا ہے جو ملکی اسکیم مصارف 1.04 لاکھ کروڑ کا 43 فیصد ہوتا ہے۔ سال 2016-17ء میں حکومت نے سماجی خدمات کے شعبہ کیلئے 35000 کروڑ روپئے مختص کئے تھے۔ اس نے اس سال 2018-19ء میں 10,000 کروڑ روپئے کا اضافہ کیا ہے۔ حکومت نے پسماندہ طبقات کے لئے 5919 کروڑ روپئے، پسماندہ ذاتوں کیلئے 12708 کروڑ روپئے پسماندہ قبائیلوں کیلئے 8,063 کروڑ روپئے مقر کئے ہیں جبکہ اقلیتی بہبود کیلئے صرف 2000 کروڑ روپئے دیئے ہیں۔ ان کے علاوہ خصوصی فنڈس بھی فراہم کرنے کا اعلان کیا گیا خاص کر اوورسیز اسکالر شپ، کلیان لکشمی، بکریوں کی تقسیم، ماہی گیروں کیلئے اسکیمات، حجاموں اور دیگر طبقات کی ترقی و بہبود کیلئے پروگراموں کیلئے بھی رقومات منظور کئے جائیں گے۔ اپوزیشن نے اس بجٹ کو توقعات کے برعکس پروگراموں کیلئے بھی رقومات منظور کئے جائیں گے۔ اس بجٹ کو توقعات کے برعکس قرار دیا ہے۔ ٹی آر ایس حکومت کی مقبول عام اسکیمات میں سے غریبوں کو ڈبل بیڈ رومس کے مکانات کی فراہمی کا وعدہ کیا ہے لیکن بجٹ سے ظاہر ہوتا ہیکہ حکومت نے مکانات کی تعمیر کیلئے جو بجٹ مقرر کیا ہے اور ریاست میں مستحق غریب افراد کی تعداد کے اعتبار سے اس بجٹ میں مکانات کی تعمیر کیلئے ایک صدی لگ جائے گی۔ ریاست میں 22 لاکھ افراد ڈبل بیڈروم مکانات کیلئے مستحق بتائے گئے ہیں۔ حکومت کی پیش کردہ فہرست کے مطابق اگر ریاست میں 22 لاکھ افراد کو ڈبل بیڈروم کا مکان دیا جاتا ہے تو اس کے لئے مکانات کی تعمیر کا تخمینہ 1.54 لاکھ کروڑ ہوتا ہے جبکہ حکومت نے صرف 2643 کروڑ روپئے مختص کئے ہیں۔ اس سے واضح ہوتا ہیکہ چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ کے وعدوں اور عملی اقدامات میں فرق ہے۔ ریاست کی تیز ترقی کا بھی دعویٰ کیا جاتا رہا ہے۔ اپوزیشن چاہتی ہیکہ حکومت اپنے وعدوں کے اعتبار سے وائیٹ پیپر جاری کرے۔ حکومت کے ہاتھ ذمہ داری پوری کرنے کیلئے ہوتے ہیں لیکن ٹی آر ایس حکومت نے اپنے ہاتھوں کو غیرذمہ دارانہ کام کرنے کا اعزاز بخشا ہے تو عوام کے اندر اس حکومت کے تعلق سے عدم تحفظ کا احساس بڑھتا جائے گا۔ اس لئے حکومت کو اس ایک اہم سال میں اپنے بجٹ کے مطابق ہی صحیح کام انجام دے کر دکھانے کی ضرورت ہے۔ بجٹ مقرر ہونے اور کاموں کی تکمیل میں بہت بڑا فرق پایا جاتا ہے مگر اس انتخابی سال کے قریب حکومت اس فرق کو ختم کرکے عوام کو حقیقی معنوں میں بجٹ کے ذریعہ ترقی و بہبود اور سہولتوں کی فراہمی کو یقینی بنائے گی۔ تمام محکمہ جات بہبودی کے مالیاتی تقاضوں کو پورا کرنے کیلئے تو پس و پیش نہیں کرنا چاہئے خاص کر اقلیتی بہبود کے محکموں اور مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے کاموں میں اب تک کی گئی کوتاہیوں کا ازالہ اس سال کیا جائے تو انتخابات سے قبل ایک مثبت تبدیلی کا احساس پیدا ہوگا۔
ہندوستانی فوج پیسے کیلئے تڑپتی رہی: رافیل اسکام
ملک کی دفاع کے معاملہ میں حکومت کی لاپرواہی اور دھاندلیوں کی اس سے بڑھ کر خرابی کیا ہوسکتی ہے کہ رافیل معاہدہ کے ذریعہ دفاعی بجٹ پر 36000 کروڑ کا بوجھ ڈالا گیا۔ وزیراعظم نریندر مودی نے حال ہی میں فرانس کے صدر ایمونل مائیکرون سے ملاقات کی لیکن رافیل معاہدہ میں ہونے والے اسکام پر اپوزیشن کی پارلیمنٹ میں ہونے والے احتجاج کو نظرانداز کردیا گیا۔ فرانس سے ہندوستانی فضائیہ کیلئے خریدے جانے والے لڑاکا طیارہ کی خریدی کیلئے جو رقم ادا کی گئی اس میں من مانی قیمت دینے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ مصر اور قطر جیسے ممالک نے ان ہی طیاروں کیلئے جو قیمت ادا کی ہے اس کے مقابل ہندوستان نے دوگنا اور سہ گنا قیمت ادا کی ہے۔ آخر حکومت نے ان طیاروں کی خریدی کیلئے زائد رقم کیوں ادا کی اس کیلئے جوابدہ ہے کہ آخر یہ پیسہ کہاں گیا۔ حکومت اس اسکام کی پردہ پوشی کرنے کی کوشش کی ہے مگر اپوزیشن کانگریس نے اس اسکام کو اب تک کے تمام اسکاموں کی ماں قرار دیا ہے۔ مودی حکومت نے 36 رافیل طیاروں کی خریدی کیلئے ستمبر 2016ء میں معاہدہ کیا تھا جس سے سرکاری خزانہ پر 12,632 کروڑ روپئے کا بوجھ پڑ گیا۔ حکومت پر اپوزیشن کے ان الزامات کے جواب میں اب تک کوئی بیان کا نہ دیا جانا اس شک و شبہ کو تقویت دیتا ہے کہ رافیل معاہدہ میں اسکام ہوا ہے۔ 58000 کروڑ کے معاہدہ کے بارے میں حکومت کو وضاحت کے ساتھ تفصیلات پیش کرنے چاہئے۔ پارلیمنٹ میں اس معاہدہ کی تفصیلات واضح کرکے حکومت اپنی بے گناہی کا ثبوت دے سکتی ہے۔