تلنگانہ اسٹیٹ الیکشن کمیشن کے ’لوگو‘ میں اردو سے مذاق

اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دینے کا اعلان کرنے والی حکومت کی لاپرواہی آشکار
حیدرآباد 30 جنوری (سیاست نیوز) حکومت، تلنگانہ کے تمام 10 اضلاع میں اُردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دینے کا اعلان کرچکی ہے اور سرکاری دفاتر میں اُردو کے استعمال کا تیقن دیا گیا ہے۔ حکومت کے یہ اعلانات اور تیقنات کس حد تک روبہ عمل لائے جارہے ہیں، اِس کا اندازہ تلنگانہ اسٹیٹ الیکشن کمیشن کے لوگو سے ہوتا ہے۔ اسٹیٹ الیکشن کمیشن کے لوگو میں تلگو اور انگریزی کے علاوہ ایک اور زبان شامل کی گئی جسے بظاہر اُردو کہا جارہا ہے لیکن دیکھنے اور پڑھنے میں اِسے اُردو قرار دینا محض کسی مذاق سے کم نہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ الیکشن کمیشن کے حکام نے لوگو میں اُردو شامل کرنے کے لئے کسی ماہر اُردو داں کی خدمات حاصل کرنے کی بجائے گوگل اُردو کنورٹر کا استعمال کیا اور اُس سے حاصل ہونے والے نتیجہ کو لوگو میں شامل کردیا گیا۔ شامل کی گئی زبان کا شائد ہی دنیا میں کوئی وجود ہو۔ اُردو زبان کے مختلف حروف تہجی کو یکجا کردیا گیا ہے اور اُسے ملاکر پڑھنے کی صورت میں بھی تلنگانہ اسٹیٹ الیکشن کمیشن پڑھا نہیں جاسکتا۔ اسے عہدیداروں کی لاپرواہی کہا جائے یا پھر اردو سے عدم دلچسپی۔ بہرحال ایک سرکاری ادارہ نے اُردو زبان کو مذاق کا موضوع بنادیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ کسی ماہر اُردو یا پھر اُردو اکیڈیمی کی خدمات حاصل کرتے ہوئے اسٹیٹ الیکشن کمیشن کے الفاظ اُردو میں حاصل کئے جاتے۔ واضح رہے کہ سرکاری اداروں میں اُردو کا کچھ یہی حال ہے۔ اُردو میں درخواستیں قبول کرنے کا کسی محکمہ میں نظم نہیں، حتیٰ کہ اقلیتی اداروں میں بھی اُردو میں درخواستیں قبول کرنے والا کوئی نہیں۔ کیوں کہ اقلیتی ادارے اُردو داں افراد سے خالی ہوچکے ہیں اور تلگو داں افراد کا غلبہ ہے۔ واضح رہے کہ تلنگانہ پبلک سرویس کمیشن کے لوگو میں اُردو ندارد ہے۔ اس سلسلہ میں کمیشن سے بارہا نمائندگی کی گئی لیکن لوگو میں اُردو کو جگہ نہیں دی گئی حالانکہ کمیشن کے ذریعہ اُردو اساتذہ کے تقررات اور مسلم تحفظات کے تحت مختلف سرکاری عہدوں پر تقررات کا حکومت نے فیصلہ کیا ہے۔ کمیشن کے ایک رکن کی حیثیت سے اقلیتی طبقہ کے فرد کو شامل کیا گیا لیکن وہ بھی لوگو میں اُردو کو شامل کرانے میں ناکام ہوگئے۔ حال ہی میں تلنگانہ اقلیتی فینانس کارپوریشن نے اپنا نیا لوگو تیار کیا تھا جس میں اُردو شامل نہیں تھی اور ڈپٹی چیف منسٹر کے ہاتھوں اس کی رسم اجراء انجام دی گئی۔ ’سیاست‘ کی توجہ دہانی کے بعد ہنگامی طور پر لوگو تبدیل کرتے ہوئے اُردو کو شامل کیا گیا۔