تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری خیراللہ بیگ
تلنگانہ کا حصول آیا اس لئے کیا گیا تھا کہ اس نوخیز ریاست کو سینڈ مافیا، لینڈ مافیا، ڈرگس مافیا کے حوالے کردیا جائے۔ ریاست میں ریت کا کاروبار کرنے والوں نے ریاستی خزانے کو دھکہ پہونچایا ہے۔ سینڈ مافیا کے خلاف جب اپوزیشن کانگریس نے آواز اُٹھائی تو حکمراں ٹی آر ایس کو کانگریس کے احتجاج میں سیاسی ڈرامہ نظر آیا۔ ڈرگ مافیا کو بھی یہ کہہ کر کھلی چھوٹ دی گئی ہے کہ تلگو فلمی صنعت کی شخضیتوں پر پولیس کا زور نہ چلایا جائے۔ چیف منسٹر کے سی آر کے اشاروں نے ڈرگس مافیا کے نئے مشتبہ تلگو فلمی صنعت کے عناصر بچ کر نکل گئے۔ لینڈ مافیا نے ریاست کی سرکاری اراضیات کو ہڑپ لیا ہے۔ اوقافی اراضیات پر قبضہ کرنے والوں کی قسمت کو بھی چار چند لگ چکے ہیں۔ تلنگانہ تلگودیشم کو ٹی آر ایس کی حکومت اور کے سی آر کی حکمرانی آمرایت پسندانہ دکھائی دے رہی ہے۔ ترقی نام کو نہیں ہے اور بہبودی اسکیمات کی زبردست تشہیر کی جارہی ہے۔ ٹی آر ایس قائدین خود کو چیف منسٹر کے سی آر کا دست راست بلکہ اختیار کُل سمجھ کر کام کررہے ہیں۔ حال ہی میں ٹی آر ایس کارپوریٹر کے فرزند نے محض 35 روپئے کے لئے ایک غریب کو چاقو سے حملہ کرکے زخمی کردیا۔ ہائی وے پر ٹول پلازہ سے گزرنے والی گاڑیوں کو فیس دینا ضروری ہے۔ سڑکوں کی تعمیر کے لئے عوام کا رقمی تعاون ناگزیر بنادیا گیا ہے مگر جب اقتدار اور شراب کا نشہ یکجا ہوتا ہے تو غریب کی خیر نہیں رہتی۔ اس لئے ٹی آر ایس کے قائدین اور ان کے ارکان خاندان اور ان کے حواریوں نے خود کو اختیار کُل سمجھ لیا ہے۔ ایک طرف ٹی آر ایس کے وہ قائدین خود اقتدار کے مزے لوٹ کر من مانی کررہے ہیں دوسری طرف اقتدار اور عہدوں سے محروم ٹی آر ایس ورکرس کو شدید مایوسی ہورہی ہے۔ بے چین اور بے قرار یہ قائدین حکومت میں نامزد عہدے حاصل کرنے میں ناکام ہیں یہ اب پارٹی آفس کے چکر کاٹ کر تھک چکے ہیں۔ پارٹی کا کوئی نہ کوئی عہدہ حاصل کرنے کی جستجو جاری ہے۔ کارپوریشنوں کے چیرمین کے عہدہ کے لئے ٹی آر ایس قائدین کو ایک امید پیدا ہوئی تھی۔ اسٹیٹ کمیٹی میں جگہ حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
مگر افسوس اس بات کا ہے کہ جن قائدین کو حکومت کے بڑے عہدے حاصل ہیں انھوں نے 3 سال کے دوران کچھ نہیں کیا۔ ان کی کارکردگی صفر ریکارڈ کی گئی ہے۔ اس حقیقت کے باوجود ٹی آر ایس نے آئندہ 2019 ء کے انتخابات میں 119 رکنی اسمبلی میں 110 نشستیں حاصل کرنے کی اُمید پیدا کرلی ہے۔ جبکہ مرکز نے ریاستی اسمبلی نشستوں میں اضافہ کے لئے ٹی آر ایس کی اُمیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ تلگودیشم نے بھی اُمید پیدا کی تھی کہ آندھراپردیش میں اسمبلی حلقوں میں اضافہ کیا جائے گا۔ بی جے پی زیرقیادت مرکزی حکومت نے یہ واضح کردیا ہے کہ نئے اسمبلی حلقوں کے وجود میں لانے کا امکان نہیں ہے۔ کم از کم آنے والے عام انتخابات سے قبل نئے اسمبلی حلقے نہیں بنائے جائیں گے۔ حال ہی میں چیف منسٹر تلنگانہ کے چندرشیکھر راؤ نے وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات کی تھی اور یہ کہا جارہا تھا کہ وہ نئے اسمبلی حلقوں کے قیام پر زور دیں گے لیکن مودی اس مسئلہ پر خاموش رہے اور موضوع کو ٹال دیا۔ اگر مرکز نے نئی ریاستوں آندھراپردیش اور تلنگانہ کے لئے نئے اسمبلی حلقے نہ بنانے کا فیصلہ کیا ہے تو یہ زبردست دھکہ ہے کیوں کہ ٹی آر ایس نے نئے اسمبلی حلقوں کے قیام کے ذریعہ اپوزیشن صفوں میں انحراف پیدا کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ دوسری پارٹیوں کے اہم قائدین کو ٹی آر ایس ٹکٹ دینے کا لالچ بھی دیا گیا تھا۔ اب اپوزیشن پارٹیوں خاص کر کانگریس میں پھوٹ ڈالنے کا ارادہ ناکام ہوگیا ہے۔ تلنگانہ حکومت نے موجودہ 119 رکنی اسمبلی میں مزید اضافہ کے لئے 153 حلقوں کی خواہش کی تھی۔ آندھراپردیش نے موجودہ 175 حلقوں سے بڑھاکر 225 حلقے کرنے پر زور دیا تھا۔ پہلے ہی ٹی آر ایس نے دیگر پارٹیوں کے اہم قائدین کو اپنی جانب گھسیٹنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔
تلگودیشم اور کانگریس کے ارکان اسمبلی اب ٹی آر ایس کے ہوگئے ہیں اور مزید قائدین کو کابینہ میں عہدے دینے کی لالچ بھی دی گئی ہے۔ تلگودیشم نے بھی ٹی آر ایس کے خطوط پر کام کرتے ہوئے آندھراپردیش میں وائی ایس آر کانگریس پارٹی میں انحراف کی حوصلہ افزائی کرنی شروع کی لیکن مرکز نے ان دونوں تلگو ریاستوں کی حکمراں پارٹیوں کی کوششوں کو ناکام بنادیا۔ دونوں تلگو ریاستیں اپوزیشن پارٹیوں کے لئے ایک خاص مقام رکھتی ہیں ان میں بی جے پی نے اپنا مقام مضبوط کرلیا ہے۔ جنوبی ہند میں اپنی بنیاد مضبوط بنانے میں کوشاں بی جے پی نے خاص کر ان دو تلگو ریاستوں پر اپنی توجہ مرکوز کی ہے اس لئے بی جے پی ان دونوں ریاستوں میں فی الحال نئے اسمبلی حلقے بنانے دینا نہیں چاہتی۔ ریاستی بی جے پی قیادت کے اشاروں پر ہی مرکزی قیادت نے دونوں ریاستوں کے چیف منسٹروں کی اُمیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سال 2019 ء کے انتخابات میں ٹی آر ایس اور تلگودیشم کو سخت مقابلے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ تاہم ان پارٹیوں کی اب بھی اُمید ہے کہ مرکز ان کے ساتھ زیادتی نہیں کرے گا اور ان کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے اسمبلی حلقوں میں اضافہ کرے گا۔ ایک طرف حکمراں پارٹیاں اپنے لیڈروں اور نوجوانوں کو سیاسی روزگار دلانے کی کوشش کررہی ہیں اور دوسری طرف حیدرآباد کی مقامی جماعت اپنے کارکنوں اور حامیوں کو بُری طرح نظرانداز کرکے مسلم جماعت ہونے کے باوجود مسلمانوں کے سیاسی مواقع کو ضائع کرنے میں اہم رول ادا کررہی ہے۔ اپنے ہی چند مٹھی بھر قائدین کی سرخروی کے لئے دیگر مسلم حرکیاتی قائدین کی سیاسی راہوں کو مسدود کرنے پر آمادہ ہے۔ اسی تناظر میں بی جے پی قائدین نے یہ بات ظاہر کی ہے کہ ایم آئی ایم نے مسلمانوں کی بہبود کے لئے کچھ نہیں کیا ہے اس لئے مسلم نوجوان اب بی جے پی میں شامل ہورہے ہیں۔ بی جے پی کے مقامی قائدین کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کی ترقی صرف بریانی کے پیاکٹوں کو تقسیم کرنے اور کپڑے بانٹنے سے نہیں ہوسکتی بلکہ مسلمانوں کے حق میں ٹھوس فلاحی اقدام کرنے پڑتے ہیں۔ مجلس نے پرانے شہر میں مسلمانوں کی بہبود کے لئے کچھ نہیں کیا ہے۔ حقیقت کی سماعت گراں گزرتی ہے۔ وقف اراضیات پر ناجائز قبضوں کو برخاست کرنے کی مہم میں سرگرم صدرنشین وقف بورڈ کے کئی اوقافی اراضیات کو لینڈ مافیا سے پاک کرانے کی کوشش کی ہے۔ اوقافی اراضیات پر قبضوں کی کہانی طویل ہے مگر یہاں مختصر یہ ہے کہ وقف بورڈ کے چند افراد جو اس وقت بھی اپنی سرکاری نوکری پر موجود ہیں یا بورڈ کی رکنیت رکھتے ہیں خود جاکر لینڈ مافیا کو ترغیب دیتے رہے ہیں کہ یوں کرلو پھر یوں ہوجائے گا۔ جب رکھوالا ہی بھیڑیوں کے ساتھ مل جائے تو پھر ایسا ہی ہوتا ہے۔ متعدد قبضہ جات کھلی اراضیات پر ہوئے ہیں۔ جن میں بڑے سیاستداں بھی شامل ہوتے ہیں۔ ان سیاستدانوں نے ہی اپنے گروپ کو نوازا ہے۔ اس میں اکثر لوگ کہیں بھی خالی جگہ دیکھ کر وہاں اپنا ناکارہ سامان، لکڑی کی ٹال یا میٹریل یا پرانی اینٹیں یا چھوٹے کاروبار کرنے والوں کو بٹھا کر قبضہ کرتے ہیں پھر آہستہ آہستہ کچھ دیوار اُٹھاتے ہیں اور پھر ایک ٹوٹا چھوٹا کمرہ بنایا جاتا ہے۔ اس تمام عرصہ میں وہ واچ کرتے ہیں کہ کوئی انھیں روکنے والا تو نہیں آیا اور جب کوئی انھیں پوچھنے اور ٹوکنے والا نہیں آتا تو وہ بہ آسانی پختہ مکان یا دکان بناکر مالک بن جاتے ہیں۔ اس میں قصور کس کا ہے۔ سرکاری اراضیات ہوں یا اوقافی جائیدادیں یوں ہی لینڈ مافیا کے قبضہ میں آجاتی ہیں۔ یہ ایسا ہوتا ہے کہ سرکاری کرمچاریوں کو یہ لوگ خوش کرتے ہیں تو وہ لوگ بھی انھیں خوش دیکھنا چاہتے ہیں۔
kbaig92@gmail.com