تقلید کیجئے حسد نہیں

پی چدمبرم

چند دن قبل بی جے پی کیلئے زیادہ جوش و جذبہ رکھنے والے ایک شخص نے ایک اخبار کے ایڈیٹوریل صفحہ پر معاشی ترقی پر اعلی معیاری مباحث کا حصہ بننے پر مسٹر ارون جیٹلی اور میرا شکریہ ادا کیا ہے ۔ انہوں نے پس و پیش کے ساتھ یہ اعتراف کیا کہ ترقی کی مباحث میں مجھے کامیابی ملی ہے لیکن انہوں نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ کانگریس پارٹی نے معیشت سے ٹھیک طرح سے نہیں نمٹا ہے ۔ شکریہ ۔ لیکن کوئی شکریہ نہیں۔
ایک دن قبل مسٹر جیٹلی نے یہ کہتے ہوئے تبصرہ کیا کہ یو پی اے نے اپنے راج میں اصلاحات کا کام نہیں کیا ۔ سب سے پہلے یو پی اے نے راج نہیں ملک پر حکمرانی کی ہے جو دس سال کیلئے رہی ہے اور پھر وہ یہاں سے سبکدوش ہوگئی ۔ دوسری بات یہ کہ اگر مسٹر جیٹلی یہ کہنے میں درست ہیں کہ یو پی اے کے دس سال میں کوئی اصلاح نہیں ہوئی ہے تو ہندوستان دنیا کی تاریخ میں واحد ملک ہونا چاہئے جس نے کسی طرح کی اصلاحات کے بغیر دو ہندسی ترقی کی ہے اور دس سال کے دوران اوسطا آٹھ فیصد کی شرح سے ترقی کی ہے ۔

یو پی اے کے موقف کی توثیق
ہوسکتا ہے کہ آپ میں سے کچھ لوگ اس وجہ کو نہیں جانتے جس کی وجہ سے یہ بحث شروع ہوئی ہو۔ در اصل جی ڈی پی کے بیک سیریز ڈاٹا کی اجرائی سے اس مباحث کا آغاز ہوا تھا ۔ یہ ڈاٹا اس لئے جاری کیا گیا تاکہ 2012 – 13 سے ترقی کی شرح کا ماضی کی شرحوں سے تقابل کیا جائے ۔ 2012 – 13 میں بنیادی سال کو تبدیل کیا گیا تھا اور ایک نیا طریقہ اختیار کیا گیا تھا ۔ یہاں نتائج اس طرح سامنے آئے ۔

نتائج بہت واضح ہیں ۔ یو پی اے کے دس سال کے دور میں ایک دہے میں سب سے زیادہ ترقی ہوئی ہے جو آزادی کے بعد سے اعلی ترین شرح تھی ۔ ایک دہے کی اوسطا شرح 8.02 فیصد کی رہی ہے یہ مارکٹ قیمتوں کے مطابق تھا اور فیکٹر قیمت کی اساس پر یہ ترقی 8.13 فیصد رہی تھی ۔ جب یو پی اے اقتدار سے باہر ہوئی تو اس وقت 2013 – 14 میں شرح ترقی مارکٹ قیمتوں کے اعتبار سے 6.39 فیصد تھی ۔ مودی حکومت کو ایک ایسی معیشت ملی جو ترقی کر رہی تھی ۔ گراس فکسڈ کیپیٹل فارمیشن 2013 – 14 میں 31.3 فیصد تھا ۔ تجارتی ایکسپورٹس 315 بلین ڈالرس کے ساتھ بلندیوں کو چھو رہے تھے ۔ بیرونی زر مبادلہ کے ذخائر 304.2 بلین تک پہونچ چکے تھے ۔
این ڈی اے کے اقتدار سنبھالنے کے چار ماہ کے اندر حکومت کو خامل تیل کی قیمتوں میں کمی اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی کا ایک الگ سے تحفہ ملا تھا ۔ داخلی اور خارجی حالات زیادہ شرح ترقی کیلئے سازگار تھے لیکن حکومت نے اس موقع کو گنوا دیا ۔ پہلا سال بہتر تھا اور دوسرے کی شروعات بھی اچھی رہی تھی ۔ سب سے پہلا بڑا دھکا نوٹ بندی کا رہا جو 8 نومبر 2016 کو ہوئی تھی ۔ اس کے بعد دوسری بڑی غلطیاں کی گئیں ۔ ان میں جی ایس ٹی کا نقائص اور جلد بازی کے ساتھ نفاذ تھا ۔ اس کے علاوہ ٹیکس دہشت گردی شروع ہوگئی ۔ 2015 – 16 اور 2017 – 18 کے درمیان شرح ترقی میں 1.5 فیصد کی گراوٹ آئی اور یہ وہی صورتحال تھی جس کی میں نے نوٹ بندی کے فوری بعد پیش قیاسی کی تھی ۔
حقیقی اصلاحات
اصلاحات ایسا لفظ ہے جس کے کئی معنی ہیں۔ اس کو عمومی طور پر معاشی اصلاحات سے جوڑا جاتا ہے لیکن معیشت کے باہر بھی اصلاحات اتنے ہی اہم ہوتے ہیں جتنے معاشی اصلاحات ہوتے ہیں۔ اور یہ اپنے طور پر معاشی اصلاحات میںمعاون ہوتے ہیں۔ ایک مثال جو فوری ذہن میں آتی ہے دیگر پسماندہ طبقات کیلئے مرکزی یونیورسٹیز اور تعلیمی اداروں میںتحفظات ہیں۔ ان کی وجہ سے آبادی کے 52 فیصد حصے کو اعلی تعلیم کے مواقع میںاضافہ ہوگیا۔ یو پی نے 2006 میں یہ بڑے اصلاحات عمل میں لائے ۔
میں نے تفصیلی طور پر 29 نومبر 2015 کو تحریر کی تھی جس میں یہ واضح کیا گیا تھا کہ میں 1991 میں شروع ہوئے دور حاضر میں حقیقی اصلاحات کس کو سمجھتا ہوں۔ میں نے 11 طرح کے اصلاحات کو پیش کیا تھا جن میں خانگی ۔ عوامی شراکت کا منصوبہ بھی شامل تھا تاکہ عوامی پراجیکٹس کیلئے خانگی وسائل کو استعمال کیا جائے ۔ اس کے علاوہ اس فہرست میں آدھار سے مربوط راست مفادات منتقلی بھی شامل تھی ۔ دونوں ہی منصوبوںکو یو پی اے حکومتوں نے ہی پیش کیا تھا ۔ ان حقیقی اصلاحات کے تحت ہی اقتصادی ذمہ داری اور بجٹ مینجمنٹ ایکٹ آتا ہے ۔ اس قانون کو پارلیمنٹ میں اس وقت منظور کیا گیا جب این ڈی اے پہلی مرتبہ اقتدار پر تھی تاہم اسے نوٹیفائی یو پی اے نے کیا تھا ۔ اسی طرح ویاٹ یو پی اے کے پہلے دور میں نافذ کیا گیا تھا ۔ خصوصی معاشی زونس یا قیام 2005 میں خصوصی معاشی زونس قانون کی منظوری کے بعد عمل میں لاے گیا تھا ۔ 2017 کے اواخر تک ملک میں 222 خصوصی معاشی زونس تھے اور ان کی وجہ سے تجارتی ایکسپورٹس کو بھاری مدد لی ۔ تجارتی ایکسپورٹس دس سال میںچار گنا بڑھ گئے ۔ خانگی ۔ عوامی شراکت داری ائرپورٹس ‘ بندرگاہوں اور برقی کے شعبہ کو زبردست توسیع دینے میں معاون رہے ہیں۔ مہاتما گاندھی نیشنل رورل ائمپلائمنٹ گیارنٹی پروگرام ( اسکے بعد یہ قانون بن گیا ) کے تحت دیہی زرعی آمدنی میںاضافہ ہوا ۔ اس سے بھوک مری کو کم کیا جاسکے اور دیہی ہندوستان میں مانگ میںاضافہ ہوا ۔ مڈ ڈے میل اسکیم کو عالمی سطح پر شہرت اور قبولیت حاصل ہوئی ۔
دیگر بڑی مداخلتیں
حق معلومات ‘ حق تعلیم اور حق غذا کو پارلیمنٹ میں قوانین کی تیاری کے ذریعہ محفوظ کیا گیا ۔ نیشنل ہارٹیکلچر مشن اور راشٹریہ کرشی وکاس یوجنا کے ذریعہ زرعی ترقی کو 3.7 فیصد تک پہونچانے کا کام یو پی اے نے کیا ۔ نگہداشت صحت کے شعبہ میںنیشنل رورل ہیلت مشن اور راشٹریہ سواستھ بیما یوجنا کو متعارف کروایا گیا ۔ حصول اراضیات میں واجبی معاوضہ کے حق سے متعلق قانون سے مدد ملی ۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھاریٹی ایکٹ لاگو کیا گیا ۔ کمپنیز ایکٹ اور لوک پال و لوک آیوکت ایکٹ اہمیت کے حامل قوانین رہے ۔ خواتین تحفظات بل 2008 سے ڈرامائی تبدیلیاں رونما ہوسکتی تھیں لیکن یہ پارلیمنٹ میں تعطل کا شکار ہوگیا کیونکہ اس وقت یو پی اے کے پاس درکار عددی طاقت نہیں تھی اور این ڈی اے اس کی منظوری کے حق میں نہیں تھا ۔ سیول نیوکلئیر معاہدہ 2008 تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھے گا ۔ ہم میں سے ہر ایک جانتا ہے کہ یہ ایک زبردست اقدام تھا ۔ یہ افسوس کی بات ہے کہ ان میں سے کسی کام کا اعتراف وزیر فینانس نے نہیں کیا اور وہ یہ اعتراف کرنے میں بھی ناکام رہے کہ یو پی اے نے آزادی کے بعد ایک دہے میں سب سے زیادہ معاشی ترقی کو یقینی بنایا تھا ۔ یو پی اے کی پہلی معیاد میں جو کام کئے گئے تھے وہ مابقی سات ماہ میں ان کی پہونچ سے باہر ہیں لیکن وہ یو پی اے کی دوسری معیاد تک پہونچنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔
pchidambaram.india@gmail.com