ڈاکٹر مجید خان
ہر شعبۂ حیات کا تلنگانہ کی نوزائیدہ ریاست میں پھر سے جائزہ لینا ضروری ہے ۔ بنیادی اچھی قدروں کو اجاگر کرنا بھی نئے سماج کا فرض بنتا ہے ۔ شعبہ طب میں جو سدھار عوامی آگہی کی وجہ سے لایا جاسکتا ہے اس پر عوام الناس کی توجہ مبذول کروانا چاہوں گا ۔ نوجوانوں کو اب سرگرم عمل ہوجانا چاہئے ۔ پولیس ایکشن کے بعد جو بے حسی طاری ہوگئی تھی اس سے مثبت طور پر باہر نکلنا ناگزیر ہوگیا ہے ۔
مسلمانوں میں سماجی مسائل کے تعلق سے سرگرم عمل فعال ہستیوں کا فقدان ہے ۔ ان کو انگریزی میں social activist کہا جاتا ہے ۔ چلو ، اٹھو ، نوجوانو! صرف آگہی کے پروگرام مرتب کرتے جاؤ ۔ کئی ادارے آپ کے ہاتھ بٹانے کیلئے تیار ہیں ۔ اب میں پہلے ایک حالیہ مثال پیش کرتے ہوئے اپنی حجت کو آگے بڑھاؤں گا ۔ اخبارات میں پوری تفصیلات آچکی ہیں ۔ میں اپنے طورپر اس کو سمجھانے کی کوشش کروں گا ۔ ڈاکٹر شیشگیری راؤ حیدرآباد کے مانے ہوئے صف اول کے دل کے ڈاکٹر ہیں ۔ میں نے انکے فن اور عوامی مقبولیت کو شروع سے دیکھا ہے ۔ صرف اپنی جانفشانی اور محنت سے وہ ہزاروں دل کے بیماروں کی دعائیں لیتے رہے اور ایک قابل فخر و قدر کے مقام پر پہنچ گئے ۔ کبھی بھی میں نے یہ شکایت ان کے تعلق سے نہیں سنی کہ وہ مریضوں کا استحصال کرتے ہیں ۔ NIMS کے دل کے شعبے کے وہ صدر تھے ۔ انتہائی مصروف رہا کرتے تھے ۔ سوائے ضروری ہدایات کے غیر ضروری باتوں کیلئے انکے پاس وقت نہیں تھا ۔ صحیح معنوں میں عام مریضوں کے حق میں وہ مسیحا تھے ۔
اچانک ایک دن صبح بجلی کی طرح ایک خبر اخبار پڑھنے والوں پر گری کہ ڈاکٹر شیشگیری راؤ کو انسداد رشوت ستانی کے عہدے دار رشوت بٹورنے کے الزام میں چنچل گوڑہ جیل پہنچادئے ۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ شخص بلندی سے گر کر غلاظت میں عام قیدیوں کی صحبت میں بھیج دیا گیا ، ناقابل یقین تھا ۔ تفصیلات یوں ہیں ۔ دل کی شریانوں میں جو بکٹریا آجاتا ہے اس کا علاج STENT ہے ۔ایک خاص دھات سے بنایا گیا ایک پردہ ہوتا ہے جو شریانوں کو مزید سکڑنے سے روکتا ہے ۔ یہ علاج زیادہ مہنگا نہیں ہے اور ایکدن میں مریض کو گھر بھیج دیا جاتا ہے اور اس کی دل کی بیماری کا خاطر خواہ علاج ہوجاتا ہے ۔ چونکہ اسکا استعمال عام ہوگیا ہے اس لئے کئی کمپنیاں اسکو بنارہی ہیں مگر اسکے فروخت کو بڑھانے کیلئے کمپنیوں کے شاطر نمائندے ڈاکٹروںکو ہمہ اقسام کی ترغیبات اور لالچ دے کر راضی کرلیتے ہیں ۔ بیچارے یہیں پر آکر پھسل گئے اور انکی ذرا سی بھول و غفلت نے انکے مستقبل کو ہمیشہ کیلئے نیست و نابود کرکے رکھ دیا ۔ دوسری کمپنیوں نے حسد کی آگ میں اس کو اپنا نشانہ بنادئے ۔
یہ پہلے ڈاکٹر ہیں جن کی مدافعت میں NIMS کے سارے ڈاکٹروں نے، جب وہ جیل میں تھے احتجاج کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ان کے بے حساب مریض منتشر ہوگئے ہیں اسلئے ان کو انسانی ہمدردی اور خدمات کیلئے فوری رہا کردینا چاہئے ۔ ظاہر ہے قانون میں ایسی کوئی گنجائش بے محل ہمدردی کیلئے نہیں ہے ۔
بیچارے اب ضمانت پر رہا ہیں ۔ گھر کے ماحول کا آپ اندازہ کرسکتے ہیں ۔ بیوی گھر سے حال ہی میں لاپتہ ہوگئی تھی ۔ کئی دنوں تک پولیس تلاش کرتی رہی ۔ جب اوپری کمرے سے تعفن بڑھتا گیا تو وہیں پر اسکی لاش ملی ۔ ڈاکٹر صاحب پر قتل کے شک کی سوئی بھی اشارہ کرنے لگی تھی مگر بالآخر وہ خودکشی ثابت ہوئی ۔ مگر کوئی بھی ڈاکٹر صاحب کی ذہنی کیفیت کا اندازہ نہیں کرسکتا ۔ اب اس کیس پر روشنی ڈالنے کا میرا مقصد یہ ہیکہ لمحے کی خطا سے کسی بھی شخص کی بہترین حاصل کردہ عظمت و شہرت خاک میں مل جاتی ہے ۔ اس لئے طمع سے گریز کرنا ضروری ہے ۔ یہ صحیح ہیکہ دواؤں کی کمپنیوں اور ڈاکٹروں کے درمیان ایک خاص پیشہ ور رشتہ ہے جس کے کئی اچھے تعمیری پہلو بھی ہیں ۔ ہماری قومی تنظیم میں ہر سال اس موضوع پر کمپنیوں کے سربراہوں اور ڈاکٹروں میں ایک مباحثہ ہوتا ہے جس پر اخلاقی معیار کے حدود کو برقرار رکھنے پر زور دیا جاتا ہے ۔
بغیر کمپنیوں کی امداد کے تعلیمی کانفرنس کا انعقاد ممکن نہیں ہے ۔ کمپنیاں اپنے منافع میں ان تعلیمی پروگرامس کیلئے بجٹ مقرر کرتی ہیں اور ڈاکٹروں کو بہتر معلومات حاصل کرنے کے لئے انٹرنیشنل کانفرنس میں شرکت کے بھی اخراجات برداشت کرتی ہیں ۔ میں خود بھی مستفید ہوتا رہا ہوں ۔
Medical Council of India کے تو اب واضح رہنمایانہ خطوط مقرر کردئے گئے ہیں جن کی خلاف ورزی قابل سزا ہے ۔ اس پس منظر میں ہمارے فرض شناس اور باخبر نوجوانوں کو کیا عملی اقدام کرنا چاہئے ۔ کون سے مشہور کارپوریٹ ہاسپٹلس کیا دھاندلیاں کررہے ہیں وہ جاننے والے جانتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ سماج کے ایسے خطرناک بھیڑیوں کی شناخت کو طشت از بام کریں ۔اسکا ایک خاص طریقہ کار تیار کیا جاسکتا ہے ۔
سب سے پہلے بڑے بڑے پوسٹرس ہر بڑے دواخانے پر لگانے پڑیں گے جس میں دواخانوں کے سربراہوں سے درخواست کی جائے کہ کالے دھندوں کی پریکٹس سے گریز کریں اور خفیہ کٹوتیوں اور خفیہ معاہدوں ، جس سے مریض زیربار ہوجاتے ہیں پرہیز کریں ۔ چور کی داڑھی میں تنکا ۔ سمجھنے والا سمجھ جائے گا ۔ آپ کسی کو بھی مورد الزام نہیں ٹھہرا رہے ہیں ۔
انٹرنیشنل کانفرنسوں میں صرف تلنگانہ کے نئے ضابطہ اخلاق کے اصولوں کی تشہیر کررہے ہیں ۔ یہ پہلا عمل خود بہت بنیادی تعمیری عمل ہوگا اور خاطی لوگوں کو متنبہ کردے گا ۔ یہ پہلا کامیاب قدم ہوگا اور آگے کچھ کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہوگی ۔ عقلمند کو اشارہ کافی ہے ۔
اس پوسٹر پر حیدرآباد کی معتبر شخصیتوں کی دستخطیں لی جاسکتی ہیں ۔ اب دوسرا سوال ہے ڈائیگناسٹک سنٹرس Diagnostic Centres میں جو کٹوتی کی دھاندلیاں ہورہی ہیں ۔ اسکے خلاف بھی آواز اٹھانا ، بیدار ذہن نوجوانوں کا سماجی فریضہ ہے ۔ عوام کی خاموشی کا بے جا فائدہ اٹھایا جارہا ہے ۔ دوسری تنظیموں پر غور کیجئے وہ کس طرح سے احتجاج کرتی ہیں اور ہر احتجاج میڈیا اور خاص طور سے الکٹرانک میڈیا کیلئے ایک بہترین موضوع بن جاتا ہے ۔ نوجوانوں کی ایک تنظیم تعمیر تلنگانہ کیلئے قائم کیجئے اور قوم کو دھوکے بازوں سے نجات دلایئے ۔