محمدمصطفے علی سروری
یہ ستمبر 2015 ء کی بات ہے جب ایک خاتون سائبرآباد کے سائبر کرائم پولیس اسٹیشن سے رجوع ہوکر شکایت کرتی ہے ۔ ان کی لڑکی نے جب سے فیس بک پر اپنا اکاؤنٹ کھولا ہے تب ایک دوسری لڑکی نے ان کی لڑکی سے فیس بک پر دوستی شروع کی ہے لیکن خاتون نے مزید بتلایا کہ لڑکی سے لڑکی کی دوستی پر کچھ مسئلہ نہیں تھا لیکن پریشانی اس وقت شروع ہوئی جب دوسری لڑکی نے شکایت کنندہ کی نابالغ لڑکی سے ان کی پرسنل اور نجی تصاویر بھیجنے کی فرمائش بلکہ اصرار شروع کردیا ۔ اپنی نابالغ لڑکی کی زبانی جب ماں نے یہ سنا کہ ایک دوسری لڑکی اس سے اس کی ذاتی اور گندی طرح کی تصاویر بھیجنے کی فرمائش کر رہی ہے تب خاتون نے پولیس سے رجوع ہوکر مدد مانگی ۔ سائبر آباد کی پولیس نے ایک ماں کی شکایت پر کارروائی کرتے ہوئے اس فیس بک کی لڑکی کا پتہ لگانے میں کامیاب ہوگئی جو ایک نابالغہ لڑکی سے دوستی کر کے اس سے اپنی فوٹوز بھیجنے کا مطالبہ کر رہی تھی ۔ پولیس جب فیس بک کی اس لڑکی کا پتہ ڈھونڈ کر اس کو پکڑنے پہونچی تو پتہ چلا کہ فیس بک کی لڑکی حقیقت میں ایک لڑکا ہے ، جس کی عمر 21 برس اور جس کا نام عبدالماجد بتلایا گیا ہے اور وہ انجنیئرنگ کے سال سوم میں پڑھ رہا ہے (بحوالہ TNM کی 4 اگست 2018 ء کی رپورٹ) قارئین یہ تو ایک تین سال پرانی خبر ہے لیکن اس خبر میں جس انجنیئرنگ کے اسٹوڈنٹ کا ذکر ہے اس کے متعلق تازہ خبر یہ ہے کہ سال 2015 ء میں فیس بک کے ذریعہ لڑکیوں سے دوستی کر کے ان کی تصاویر جمع کرنے اور پھر انہیں بلیک میل کرنے کی وارداتوں میں ملوث 21 سال کا نوجوان ایک مرتبہ جیل جاکر آنے کے بعد بھی سدھر نہیں سکا اور رہائی کے بعد دوبارہ لڑکیوں اور خواتین کو بلیک میل کرنے لگا۔ انجنیئرنگ کے اس اسٹوڈنٹ کو اگلی مرتبہ پکڑ کر صرف جیل بھیجنے پر اکتفاء نہیں کیا گیا بلکہ رپورٹ کے مطابق اس نوجوان جس کی عمر اب 24 برس ہوچکی ہے ، کی باضابطہ روڈی شیٹ کھول دی گئی ۔ شائد یہ پہلا روڈی شیٹر ہے جس نے باضابطہ انجنیئرنگ کی تعلیم حاصل کی ہے۔
قارئین اس خبر کا کالم کے آغاز میں ذکر کرنے کا ایک بنیادی مقصد سرپرستوں کی توجہ اس جانب مبذول کروانا ہے کہ انجنیئرنگ ہی نہیں ، اعلیٰ اور پروفیشنل تعلیم کے حوالے سے ہمیں از سر نو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر طلباء کو انجنیئرنگ کے کورسس کروانے ہیں تو معیاری اور اعلیٰ تعلیمی اداروں کو ہی ترجیح دینا ہوگا۔
7 اگست 2018 ء کو اخبار ٹائمز آف انڈیا نے حیدرآباد سے ایک خبر شائع کی کہ IIT حیدرآباد سے اسنھیا ریڈی نام کی ایک طالبہ کو جس نے کمپیوٹر سائنس میں گریجویشن کیا ، اس کو (Google) کمپنی نے 1.02 ایک اعشاریہ دو کروڑ سالانہ کی تنخواہ پر جاب آفر کی ۔
ہر گزرتے تعلیمی سال کے ساتھ ملک میں انجنیئرنگ کے کالجس کے بند ہوجانے کی اطلاعات سامنے آرہی ہیں۔ 6 اگست 2018 ء کو لوک سبھا میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں مملکتی وزیر برائے فروغ انسانی وسائل ستیہ پال سنگھ نے بتلایا کہ انجنیئرنگ کالجس کی نگراں تنظیم آل انڈیا کونسل فار ٹیکنیکل ایجوکیشن (AICTE) کی جانب سے منظورہ انجنیئرنگ کالجس میں سال 2014-15 ء کے دوران 48 فیصدی نشستیں خالی رہ گئی تھی ۔ سال 2015-16 ء اور 2016-17 ء کے دوران انجنیئرنگ کی 47 فیصد نشستیں خالی رہ گئی اور گزشتہ چار برسوں کے دوران AICTE کو (239) انجنیئرنگ کالجس درخواستیں لکھ کر اپنا کالج بند کرنے کی اجازت طلب کی تھی (بحوالہ ہندوستان ٹائمز 6 اگست 2018 ئ) صرف انجنیئرنگ کی فیلڈ میں ہی نہیں بلکہ فارمیسی کے شعبے میں بھی صورتحال کافی سنگین ہوگئی ہے ۔ یہاں تک کہ فارمیسی کے کالجس بھی بند ہونے کے در پہ ہیں۔ اخبار دکن کرانیکل نے 3 جولائی 2018 ء کو خبر شائع کی کہ ریاست تلنگانہ میں فارمیسی کالجس میں 95 فیصدی سیٹیں خالی رہ گئی ، اخباری رپورٹ میں بتلایا گیا کہ سال 2018-19 ء کے دوران فارمیسی کالجس میں جملہ (1032) سیٹیں دستیاب تھی لیکن صرف 60 طلباء نے ہی فارمیسی میں داخلہ لیا ، یوں 972 سیٹیں خالی رہ گئی۔ ان خبروں کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ روزگار کی مارکٹ میں اور تعلیم کے میدان میں ترجیحات بڑی تیزی کے ساتھ بدلتے جارہے ہیں۔ سند یافتہ افراد کی بہتات تو ہوگئی لیکن صلاحیتوں کے فقدان کے سبب ان سبھی افراد کو روزگار نہیں مل پا رہا ہے ۔ اس کا نتیجہ کیا نکل رہا ہے ۔ وہ بھی جان لیجئے ۔ اخبار ٹائمز آف انڈیا نے 15 جولائی 2018 ء کو ایک خبر شائع کی تھی ۔ خبر کی تفصیلات کے مطابق راجستھان حکومت نے جب ریاستی پولیس میں کانسٹبلس کی جائیدادوں پر بھرتی کیلئے درخواستیں طلب کی تو امیدواروں میں پی ایچ ڈی ڈاکٹریٹ ہولڈرس ، انجنیئرس اور دیگر پروفیشنل ڈگری رکھنے والے بھی شامل تھے ۔ حالانکہ کانسٹبل کی جائیداد پر تقرر کیلئے امیدوار کا صرف دسویں پاس ہونا ضروری تھا ۔ کانسٹبل کیلئے درخواست دینے والوں میں ایک ایسا امیدوار بھی شامل تھا جو سیول سرویسز کے لئے درخواست گزار تھا ، اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر اس امیدوار نے ٹائمز آف انڈیا کو بتلایا کہ میری عمر کے حساب سے میں اب صرف ایک ہی مرتبہ سیول سرویس کا امتحان لکھ سکتا ہوں۔ میں اب کوئی خطرہ نہیں مول لینا چاہتا ہوں۔ اگر سیول سرویس میں ناکامی ہو تو میرے لئے کانسٹبل کی نوکری تو رہے گی ۔ یہ صرف راجستھان کی بات نہیں ہے ، ہریانہ سے بھی ایسی ہی ایک خبر سامنے آئی ہے ۔ اخبار انڈین اکسپریس نے 18 مئی 2018 ء کو اس حوالے سے خبر شائع کی ، خبر کی تفصیلات میں بتلایا گیا کہ 20 مئی کو ہریانہ پولیس اکیڈیمی میں تربیت یافتہ پولیس عملے کی پاسنگ آؤٹ پریڈ مقرر ہے تو اس میں (4225) کانسٹبل شرکت کر رہے ہیں۔ ان تربیت یافتہ پولیس کانسٹبلس کی تعلیمی قابلیت کے متعلق اخبار نے لکھا کہ دو کانسٹبل ایم فل، 15 کانسٹبل ایم ٹیک ، 16 کانسٹبل ایم سی اے ، 36 کانسٹبل ایم بی اے ، 33 کانسٹبل ایم ایس سی ، 38 کانسٹبل ایم کام اور 103 کانسٹبل ایم اے کے علاوہ 273 کانسٹبل انجنیئرنگ کی ڈگری رکھتے ہیں۔
ہمارے ملک ہندوستان کے بدلتے ہوئے تعلیمی منظرنامہ کے متعلق اخبار ہندوستان ٹائمز نے 4 اگست 2018 ء کو ایک رپورٹ شائع کی ۔ رپورٹ کے مطابق انڈین لینگویجس میں ڈاکٹریٹ کرنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ریکارڈ کیا جارہا ہے ۔ سال 2014-15 ء کے دوران مختلف ہندوستانی زبان میں ڈاکٹریٹ کی تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کی تعداد (5874) تھی جو تعلیمی سال 2017-18 ء کے دوران بڑھ کر 7850 تک پہونچ گئی ۔ آل انڈیا سروے آن ہائیر ایجوکیشن کی رپورٹ جو 27 جولائی کو جاری کی گئی کے حوالے سے اخبار نے لکھا کہ Ph.D کرنے والے طلباء کی اکثریت کو مختلف زمروں میں تقسیم کیا گیا ۔ زبانوں کے زمروں میں طلباء کی اکثریت پی ایچ ڈی ہندی زبان میں کر رہی ہے جن کی تعداد (2,270) ریکارڈ کی گئی۔ ہندی کے بعد سنسکرت میں پی ایچ ڈی کرنے والے طلباء کی تعداد (971) تھی ۔ اردو کے حوالے سے رپورٹ میں لکھا ہے کہ پوسٹ گریجویشن کی سطح پر اردو پڑھنے والے طلباء کی تعداد (23,049) رہی جس میں سے (59.68) فیصدی تعداد لڑکیوں کی ہے۔ ماہرین اور تجزیہ نگاروں کے حوالے سے اخبار نے لکھا کہ مرکزی حکومت کی جانب سے یوگا اور سنسکرت زبان کے تحفظ کے اعلان اور پالیسیوں کے سبب ان میں روزگار کے مواقع بڑھے ہیں ، اس پس منظر میں ہندی اور سنسکرت زبان کے پڑھنے والوں کی تعداد میں اضافہ درج کیا گیا ۔ ان مثالوں اور اعداد و شمار کی روشنی میں قارئین اکرام ایک بات واضح ہوتی ہے کہ جہاں اور جن شعبوں میں روزگار کے مواقع دستیاب ہیں، وہاں پر طلباء کی تعداد میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم سماج میں بھی اس بات کا نوٹ لیا جائے کہ روزگار کی مارکٹ میں نئے مواقع کہاں دستیاب ہیں۔ انجنیئرنگ کے شعبے میں خراب تعلیم اور روزگار کے لئے دن بہ دن گھٹتے ہوئے مواقع اتنے سنگین شکل اختیار کر گئے ہیں کہ کالجس دن بہ دن بند ہوتے جارہے ہیں۔ ہاں سرکاری اور اعلیٰ معیاری اداروں سے انجنیئرنگ کرنے والے با صلاحیت طلباء کو لاکھوں بلکہ کروڑوں کی سالانہ تنخواہ پر ملازمت کا پیشکش کیا جارہا ہے۔
جاب مارکٹ میں موجود ہزاروں مواقع سے وہی طلباء استفادہ کرسکتے ہیں جنہوں نے صرف سند ہی نہیں بلکہ صلاحیت بھی حاصل کی ہے۔ آج بڑی بڑی کمپنیوں کی ایک ہی ترجیح ہے کہ ایسے امیدواروں کو تلاش کیا جائے جو نوکری کے پہلے ہی دن کام کرنے کے قابل ہوں اور ان کے لئے (Asset) بن سکیں۔ کوئی بھی آج ایسے کسی فرد کو نوکری دینے تیار نہیں ہے ۔ جب نوکری کے نام پر مزید تربیت اور ٹریننگ کی ضرورت پڑے ۔
دلت انڈین چیامبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے حال ہی میں این روی کمار کو اپنی تنظیم کا کارگزار صدر مقرر کیا ہے ۔ این روی کمار حیدرآباد کے ایک سلم علاقے میں پلے بڑے ہیں۔ ان کے والد یومیہ اجرت پر پتھر بچھانے کا کام کرتے تھے اوران کی والدہ روزانہ مزدوری کرتی تھی ۔ ان محنتی والدین کے لڑکے روی کمار نے لاء میں پوسٹ گریجویشن کی ڈگری مکمل کی ۔ جرنلزم اور پبلک ریلیشن میں ڈپلوما پاس کیا اور نوکری کی تلاش میں بیٹھے نہیں رہے بلکہ اپنا کاروبار شروع کیا اور کنسٹرکشن کی فیلڈ میں کام کرنے لگے (بحوالہ 17 جولائی 2018 ء روزنامہ ہندو) مسلمانوں کی مجموعی صورتحال مایوس کن نہیں ، ایسی کئی مثالیں ہیں جہاں مسلمانوں نے بے شمار مسائل کے باوجود کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیئے ہیں۔ تعلیم کے میدان میں بھی صرف آگے جانا کافی نہیں ، صحیح منصوبہ بندی اور صحیح ترجیحات طئے کرنا ضروری ہے ۔ اپنے ایک کالم میں میں نے ٹاملناڈو کے ایک ایسے دیہات کا ذکر کیا جہاں رہنے ولے کٹے بالوں کو جمع کر کے کاروبار کرتے ہیں۔ پچھلے دنوں یعنی 7 اگست 2018 ء کو اخبار ہندوستان ٹائمز نے کرائم کی ایک خبر شائع کی۔ خبر کی تفصیلات کے مطابق دہلی میں جہانگیر اور ان کے بھائی مصنوعی بالوں کی وگ بنانے کا کاروبار کرتے ہیں ۔ ان کے کامیاب کاروبار کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے ۔ ان کے ایک بزنس حریف نے انہیں لوٹ لینے کا منصوبہ بنایا ۔ خبر میں پولیس کے حوالے سے لوٹ کے واقعہ کو حل کرنے کی تفصیلات بتلائی گئی لیکن قارئین میں صرف وہ تفصیلات یہاں درج کر رہا ہوں جس سے مصنوعی بالوں کے کاروبار کی مالیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ جہانگیر نامی بزنس مین کے ایک دشمن نے ان کے 200 کیلو کے مصنوعی بالوں کو چرالیا اور پولیس نے ان 200 کیلو بالوں کی قیمت 25 لاکھ بتلائی ہے تو حضرات کاروبار کوئی بھی ہو چھوٹا نہیں ہوتا ۔ مصنوعی بالوں کا کاروبار بھی لاکھوں کروڑوں کا ہے ۔ ضرورت منصوبہ بندی کی ہے ، چاہے تعلیم ہو یا تجارت کامیاب لوگوں کی نقل کامیابی کا راستہ نہیں ۔ محنت ہی کامیابی ہے۔ کاش کہ کوئی سمجھائے اب ہم اور کیا بتلائیں ، ایک اچھا بزنس کرنے والی دکان کے بازو ہی دکان کھولنا کامیابی کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے لئے اکل حلال کو آسان فرمائے اور ہمیں بھی نفع والا علم عطا فرمائے۔ آمین۔
sarwari829@yahoo.com