عامر علی خان
ترکی جسے کبھی یورپ کا ’’مرد بیمار‘‘ کہا جاتا تھا اس نے اسلام پسند قائدر جب طیب اردغان کی قیادت میں دنیا کی عظیم معاشی قوت کی حیثیت حاصل کرلی ہے اور اپنے اعلیٰ تعلیمی و اقتصادی اصلاحات کے ذریعے 2005 میں تمام عالمی مالیاتی اداروں کے قرض واپس کر کے ترقی کا جو سفر شروع کیا تھا وہ آج دنیا بھر میں مثال بن چکا ہے۔ یہی ترکی تھا جو صرف دیڑھ دہائی قبل بین الاقوامی برادری میں رینگ رہا تھا ، آج یہ چھلانگیں لگاتا پھر رہا ہے۔ کل تک جو ترکی اپنے حریف ممالک سے برسوں متصادم رہا اوراربو ڈالر بربادکئے،آج وہی ترکی عدم تصادم کی راہ پر گامزن ہے اوراسکیZero Confilict خارجہ پالیسی نے برسوں سے متصادم علاقا ئی حریفوں آرمینیا، روس، یونان، شام اور ایران کو ترکی کے قریب کردیا۔ کہتے ہیں، قوموں کی ترقی کے لیے قوم کے افراد کا قومی مقصد اور ہدف کے بارے میں متفق ہونا لازمی ہے ،یہ سچ ہے مگر، ایک ایسے معاشرے میں جہاں کوئی شخص ایک چیز کو سفید کہے اور دوسرا اْسی کو سیاہ کہے‘ اور جہاں کبھی بائیں بازو سے ٹکراؤ ہو جائے اور کبھی دائیں بازو سے‘ تو وہاں کسی حالت میں بھی ترقی اور نشوونما نہیں ہو سکتی۔مگرترک کی موجودہ قیادت نے تو اسے بھی غلط ثابت کردیا۔ اور مغربی پروپگنڈہ کے برعکس اسلامی تشخص کو برقراررکھنے کی جد جہد کرتے ہوئے صدر اردگان کی قیادت میں ترکی معاشی طور پر انتہائی پسماندہ ملک سے دنیا کی سترہویں بڑی معیشت بن کر ابھرا ہے۔جبکہ یوروپ میں آج وہ پانچویں سب سے بڑی معیشت ہے۔اب سے پندرہ سال قبل جہاں فی کس آمدنی 2500ڈالرتھی ،آج وہاں فی کس آمدنی 10500 ڈالر ہے۔مگرترکی نے یہ سب کچھ کیسے حاصل کیا ؟ اور ایسی کونسی پالیسی اختیارکی ،کونسا طریقہ اپنا یا جس نے ترکی کو عالمی سطح پر ایک باوقار مقام پرلا کر کھڑا کردیا۔عام طور پر اس خیال کا اظہار کیا جاتاہے کہ تنہا ایک آدمی تبدیلی نہیں لا سکتا،با لکل لا سکتا ہے ، شرط یہ ہے کہ اس کے دل میں اپنی قوم کا درد ہو اور قوانین کا اطلاق سب سے پہلے خود پر کرے۔ راقم الحروف نے حالیہ دورہ ترکی کے دوران جو محسوس کیا ہے ،اسکے مطابق، ترکی نے چار اہم شعبوںپراپنی توجہ مرکوز کی ہے اوراس پرسختی سے عمل پیرا ہے۔نمبر (1) پڑوسی ممالک کے ساتھ برادرانہ تعلقات ،دوسرا (2) تعلیمی استحکام ،تیسرا (3) معاشی استحکام اورچوتھا(4) بنیادی سہولیات کی فراہمی۔ جہاں تک بات برادرانہ تعلقات کی ہے ،ترکی نے اس حقیقت کو شدت سے محسوس کرلیا کہ تصادم اورٹکراؤ کسی مسلے کا مستقل حل نہیں ہوسکتا۔تقریباً 30سال تک ترقی کسی نہ کسی ملک کے ساتھ متصادم رہا ،مگراب اس نے ’’جنگ نہیں صرف بات چیت ‘‘ کی پالیسی اختیارکرلی ہے۔اوراپنی اعتدال پسندی اور مصالحت پرمبنی پالیسی کے باعث وہ علاقا ئی حریفوں آرمینیا، روس، یونان، اور ایران ترکی کے قریب آگیا۔اسکے علاوہ دیگر ممالک کے ساتھ بھی ترکی نے باہمی تعلقات کو ایک نئی جہت دینے کی کوششوںمیں مصروف ہے۔
اردغان کی 12 سالہ دور میں ترکی کو عالمی سطح پر نمایاں مقام حاصل ہوا۔ اس نے یورپی یونین کی رکنیت حاصل کرنے کے لیے مذاکرات شروع کیے اوردنیا بھر خاص طور پر افریقہ میں اپنے سفیروں کی تعداد میں اضافہ کیا۔اگرچہ اب بھی بعض تجزیہ نگاروں کے خیال میں ترک حکومت کو اس بات کا ادراک ہے کہ سفارتی محاذ پر اس کو کسی قدر پسپائی کا سامنا ہے۔ لیکن حکومت کا کہناہے کہ ترکی کو اس محاذ پراسلئے محاذآرائی کا سامنا ہے کیونکہ یہ دنیا میں واحد ملک ہے جس کی خارجہ پالیسی اخلاقی اقدار اور اصولوں پر مبنی ہے۔اردغان کے حامی اس بات پر یقین کرتے ہیں اور ان کے لیے یہ ہی بات اہمیت رکھتی ہے۔رجب طیب اردغان کیلئے یہ بات ہی تحریک کا باعث ہے۔ پچھلے انتخابات میں ان کی بے مثال کامیابی نے ان کے اس یقین کو کہ ان کی پالیسیاں درست ہیں مزید مستحکم کر دیا ہے۔ملک شام میں بشارالاسد کی حکومت کے خلاف مغربی ملکوںنے حملہ تو کردیا مگر اس سے پیداہونے والی انسانی بحران کا خمیازہ ترک حکومت کو بھگتنا پڑاہے ،آ ج لاکھوں کی تعداد میں شامی پناہ گز ین ترکی کی پناہ گزین کیمپ میں مقیم ہیں جنکے سارے اخراجات حکومت ترکی برداشت کرتی ہے۔
آج یہاں 1.7ملین شامی باشندے مقیم ہیںجنہیںہرقسم کی سہولیات فراہم کرنے کے باعث سالانہ 5.5بلین ڈالرکے مصارف عائدہوتے ہیں ،جبکہ عالمی برادری اس مد میں صر ف ایک ملین ڈالرہی فراہم کی ہے۔ غازین اتیپ نامی علاقے میں قائم NIZIP نامی کیمپ میںضروریات زندگی کی تمام سہولیات فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔یہاں کے باشندوں کیلئے ایرکنڈیشنڈ روم،کچن ،باتھ روم،وغیرہ کے ساتھ ساتھ خورد نوش اوربچوں کی تعلیم کا بھی معقول انتظام کیا گیاہے،ترک حکومت کے اس اقدام کو خودترک باشندے بھی قد رکی نگاہ سے دیکھتے ہیں ،چونکہ وہ شامی باشندو ں کو پناہ گزین کے بجائے اپنا بھائی تصورکرتے ہیں۔ اگربات تعلیمی استحکام کے حوالے سے کئے جانے والے اقدامات کی جائے تو،اس شعبے میں بھی ترکی نے خاطر خواہ کامیابی حاصل کی ہے۔اس وقت پورے ملک میں 820اعلی تعلیمی ادارے بشمول 180یونیورسٹیز کام رہی ہے جس میں خانگی یونیورسٹیز کی تعداد 70 ہے (جبکہ تعلیمی سال 2001-2002 کے دوران صرف 76یونیورسٹیز تھے) ان اداروں میں مجموعی طور10لاکھ سے سے زائد طلبا تعلیم حاصل کررہے ہیں ۔ان یونیورسٹیز میں موجود 15000 بیرونی طلباء کو ترک حکومت اسکالرشپ فراہم کرتی ہے
، اسٹوڈینٹس ایکسچنج پروگرام کے تحت ان میں 92ہندوستانی طلبا ء بھی شامل ہیں۔ ویسے یہاں مختلف شعبہ حیات میں تقریباً 1000ہندوستانی ترکی میں خدمات انجام دے رہیں،اوراسی طرح 400ترک افراد ہندوستان کے مختلف شعبہ حیات میں موجود ہیں۔
یہاںمیٹرک تک لازمی تعلیم ہے ، خلاف ورزی کی صورت میں والدین کو سزا ہوسکتی ہے۔اسی طرح اختصا رکے ساتھ اگر ہم تیسرا شعبہ ،یعنی عوام کو فراہم کی جانے والی بنیادی سہولیات کی بات کریں تو اس میں بھی ترکی نے پچھلے ایک دیڑ ھ دہائی میں قابل ستائش اقدامات انجام دی ہے۔ مثال کے طورپر اردغان کے دور سے پہلے یہاں خاص کر استنبول میں پانی کی قلت تھی ، جنہیں موجود حکومت نے قریبی جھیلوں سے پانی لاکر ختم کیا۔ شہر کی سیوریج کو صاف کرنے کے لیے ٹریٹمنٹ پلانٹ لگے ہیں جو بغیر ٹریٹ کیے ہوئے پانی کو جھیلوں میں گرنے نہیں دیتے۔ اگر کوئی اس کی خلاف ورزی کرے اسے سخت سزا دیجاتی ہے۔اسی طرح گندے پانی کی نکاسی کا نظام ،موجودہ حکومت کے قیام سے پہلے یہاں بھی بارشوں میں پانی بھر جایا کرتا تھا اور کشتیاں استعمال کرنی پڑتی تھیں، اب ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا۔
بلدیہ کی طرف سے مفت طبی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں، اس کے تحت آٹھ شعبوں میں کام ہوتاہے ،یہ سارے طبی مراکز علیحدہ علیحدہ شعبے کے تحت کام کرتے ہیں۔ سب سے زیادہ موثر فیملی فیزیشن سسٹم ہے جس کا آغاز 7 سال قبل آزمائشی طور پر حکومت ترکی نے مختلف علاقوں میں کیا تھا ، جب اس کو کامیاب پایا گیا تو اس کو پورے ملک میں نافذ کردیا گیا۔ اسی طرح بلدیہ نے اسمارٹ فون اپیلیکشن بنایا ہے جو ٹریفک کے بہاو کے بارے میں آپ کو بتاتا ہے، براہ راست کیمروں کے ذریعے آپ اہم مقامات کا براہ راست جائزہ لے سکتے ہیں۔دیگر بنیادی مسائل میں سے آلودگی بھی ایک اہم مسئلہ تھا۔ لوگوں میں سانس کی بیماریاں عام تھیں۔ وجہ یہ تھی کہ سردی سے بچاؤ کیلئے لوگ کوئلے کا استعمال کرتے تھے۔ ترکی میں قدرتی گیس پیدا نہیں ہوتی ، مگرموجود حکومت نے وسط ایشیاء اور روس سے گیس پائپ لائن کے ذریعے لوگوں کے گھروں میں گیس فراہم کی اور آلودگی قصہ پارینہ بن گئی۔جہاںتک معیشت کا تعلق ہے ،مجموعی گھریلو پیداوار820.827 ڈالر سے زائدہوچکاہے۔
2002میں سالانہ تجارت جو 36ملین ڈالرتک محدود تھی وہ بڑھکر ایک لاکھ 36 ہزار ملین ڈالرتک پہنچ چکی ہے۔عالمی بینک کے اندازوں کے مطابق اردغان کے دورِ حکمرانی میں بارہ برسوں سے کم عرصے کے اندر اندر ترکی میں فی کس آمدنی میں تقریباً تین گنا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ترکی اب بھی انتہائی اہم ملک ہے۔ یہ مغرب کے لیے مشرق وسطی تک جانے کا راستہ ہے اور ایک ترقی کرتی ہوئی معیشت ہے جسے کوئی نظر انداز نہیں کر سکتا۔واضح رہے کہ صدر ادغان کے حامیوں کی اکثریت مذہب پسندوں پر مشتمل ہے اور انھیں اپنے صدر کی طرف سے ا سکولوں، یونیورسٹیوں اور دفاتر میں حجاب پہننے کی حوصلہ افزائی پر آزادی ملنے کا احساس ہوتا ہے۔ ملک میں سیکولر حکومت کے 80 سالہ دور میں حجاب پر پابندی عائد تھی۔ وہ اپنے صدر کو ایک ایسے مضبوط اور جراء ت مند رہنما کی حیثیت سے دیکھتے ہیں جو مغرب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکتا ہے۔ خارجہ پالیسی کے ماہرین کے مطابق اردغان نے ترکی کو ایک سیاسی اور معاشی طاقت بنایا ہے جس میں متوسط طبقے کو بااختیار بنایا گیا ہے۔ ان کے مطابق اردغان نے کردستان کے مسئلہ کو حل کرنے کے لیے مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا اور مذہبی اقلیتوں کے حقوق کا احترام کرنے کے لیے کئی ایک اقدامات اٹھائے ہیں اور فوجی دبدبہ کے خلاف سخت موقف اختیار کیا ہے، اب فوج اپنا کام کرتی ہے اورسیاستداں اپنا کام۔ لیکن ان کی کامیابیوں کو ان کے سخت گیر رویے کی وجہ سے مغربی میڈیا اورسیاستداں فراموش کرتارہاہے۔ مختصر یہ کہ ترکی اپنی ماضی کی تابندہ تاریخ اور مسلم دنیا کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کامیاب کوشش کی ہے، جس کی تیز رفتار اقتصادی ترقی اور خوشحالی و پْرامن معاشرے کے لئے اٹھائے گئے اقدامات سے استفادہ کر کے مغربی دنیا میں دین اسلام کے متشدد ہونے کے بارے میں پھیلائے جانے والے تاثر کا ازالہ کیا جا سکتا ہے۔ اورقدرتی وسائل سے مالا مال عرب دنیا اور مسلم ممالک باہمی تعاون سے نہ صرف خود کو جدید مغربی دنیا کے مقابل لا سکتے ہیں بلکہ دنیا میں طاقت کا بگاڑا جانے والا توازن بھی درست کر سکتے ہیں تاہم اس کے لئے مسلم قیادتوں کا ذاتی مفادات اور فروعی اختلافات کو ترک کرنا ضروری ہے۔اسلامی ممالک کے پاس ہر طرح کی افرادی اور مادی وسائل موجود ہیں جغرافیائی لحاظ سے وہ دنیا کے اہم ترین خطے پر مشتمل ہے۔اس میں رہنے والے لوگوں نے ایک ہزار سال سے زیادہ عرصہ کے لئے دنیا کی امامت کی ہے۔عالم اسلام ایک مرتبہ پھر انگڑائی لے رہاہے۔ اگر مسلم ممالک کے حکمران امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی ذہنی غلامی سے نکلنے کیلئے تیا ر ہو جائیں تو تذلیل اور انحطاط کے دور سے نکل کر ہم بلندی اور عروج کے سفر پر گامزن ہوسکتے ہیں۔ حالیہ عرصے میں’’سیاسی اسلام‘‘ کی ناکامی کا جو ڈھنڈورا پیٹا گیا ہے، اس کا ہدف دنیا بھرمیں اسلام کی سربلندی کے لیے کام کرنے والے افراد یا ممالک ہیں۔ چاہے وہ مروجہ معنوں میں سیاست کر رہے ہوں یا نہیں۔ انہیں یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ اسلام بحیثیت نظام اس زمانے میں ناکام ہو چکا ہے۔ جو تنظیمیں ملک کے نظم و نسق کو اسلام کے مطابق بدلنے کے لیے کوشاں تھیں انہیں جب اقتدار ملا بھی تو وہ ناکام رہیں۔ یہ مسئلہ کسی خاص ملک کسی خاص تحریک تک ہی محدود نہیں، ہر جگہ اللہ کے دین کے غلبہ کے لیے کام کرنے والے حضرات ان مشکلات کا شکارہیں۔تھوڑے بہت فرق کے ساتھ کہانی ہر جگہ کی ایک ہی ہے۔ چاہے مصر میں منتخب حکومت کی برطرفی ہو، بنگلہ دیش میں سب سے بڑی اور مضبوط مذہبی اپوزیشن پر پابندیاں اور سزائیں ہوں۔ شام کے مسلمانوں پر ظلم و ستم ہوں۔ وسطی افریقہ اور برما میں مسلمانوں کا قتل و غارت ہو یا پاکستان و افغان کی تباہی ۔ جہاں تک ترکی کی بات ہے، تو یہاں کی موجودہ حکومت نے لا کھ مخالفتوںکے باوجود 1824میں خلیفہ کشکن کا شروع کردہ محکمہ مذہبی امور میں پھر سے ایک نئی روح پھونک دی ہے۔آج اس محکمہ میں ڈیڑھ لاکھ افراد مذہبی خدمات انجام دیتے ہیں۔ترکی بھرمیں85ہزار مساجد ہیں،مذہبی خدمات پرمامور افراد 120ممالک میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔یوروپ ،امریکہ ،کینیڈا،اوردیگرمغربی ملکوں کے 4000مساجد میں ترک مذہبی عملہ خدمات انجام دے رہے ہیں۔ترک عہدیداروں کے مطابق،مذہبی امور میںزائد از ڈھائی ہزار افراد نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔ یہ اور اس طرح کے کئی ایک اقدامات ہیں جنکی وجہہ سے اردغان کی اسلام پسند جماعت اے کے پی، جس نے 2002میں 34 فیصد ووٹ حاصل کرتے ہوئے زبردست کامیابی حاصل کی تھی، مسلسل اپنی طاقت میں اضافہ کرتی رہی ہے، یہاں تک کہ چارسال پہلے کے پارلیمانی انتخابات میں وہ اپنی حمایت کو تقریباً پچاس فیصد تک لے جانے میں کامیاب ہو گئی۔
اپنی پیشرو جماعتوں کے تجربات کی بناپر اردغان کو اس بات کا واضح طور پر علم تھا کہ عام شہری کو کہاں کہاں مشکلات کا سامنا ہے اور اْسے کیا کچھ چاہیے۔ترک صدر کو اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ اْن کے دور میں پریس کی آزادی اور جمہوری قدروں کی پاسداری کو اتنا محدود کیا جا چکا ہے کہ ان شعبوں میں ترکی بین الاقوامی موازنے میںافسوسناک حد تک انحطاط پذیر ہوچکاہے۔عام عوام کیلئے یہی کافی ہے کہ اردغان نے مذہبی اَقدار کی بنیاد پر ترک قوم کو ایک نئی خود اعتمادی بخش دی ہے جسکی تمنا دیگر ممالک کے مسلم امہ بھی کرتے ہیں ۔