عامرعلی خان
دنیا میں ترک تہذیب کی اپنی ایک منفرد پہچان ہے اس ملک میں قدم رکھتے ہی ہمیں اپنائیت کی خوشبو کا احساس ہونے لگا تھا ۔ وسیع و عریض سڑکیں ، سڑکوں کے درمیان سرسبز و شاداب منطقے ، فٹ پاتھ ایسے کہ انھیں دیکھ کر کسی خوبصورت عمارت کی راہداری کا احساس ہونے لگتا ہے ۔ جس طرح حیدرآبادیوں کی مہمان نوازی ان کی رحمدلی ، جذبہ انسانیت ، محبت و مروت اور سب سے پڑھ کر حیدرآباد دکن کی تہذیب سارے عالم میں ایک مخصوص پہچان رکھتی ہے اسی طرح کی خوبیاں ترک باشندوں میں بھی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہیں ۔ ہم نے اپنے دورہ ترکی کے بارے میں تحریر کردہ گذشتہ مضامین میں بتایا تھاکہ سلطنت عثمانیہ سے لے کر موجودہ اسلام پسند صدر رجب طیب اردغان کی حکومت کے دوران ترکی اور اس کے عوام کس طرح کی صورتحال ، انقلابات اور تبدیلیوں سے گذرے ہیں ، جہاں تک اقوام کا تعلق ہے دنیا میں ان قوموں نے ہی اپنی موجودگی کااحساس دلایا ہے جنھوں نے خود کو بدلتے دور کی ضروریات کے مطابق ہم آہنگ کیا ۔
حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے والی قوم کو ہی کامیابی و کامرانی نصیب ہوئی ۔ ایسی قوموں میں ترک قوم کا شمار ہوتا ہے ۔ سلطنت عثمانیہ کے بعد جمہوریت کے نام پر ترکی میں بے راہ روی ، مذہب بیزاری ، عیاشی عام کردی گئی ۔ اخلاقی اقدار کو تباہ و برباد کرنے کی بھرپور کوششیں کی گئیں ۔ اس بات کو یقینی بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی کہ عوام میں دین اسلام باقی ہی نہ رہے لیکن ترک قوم نے جن کے دل عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے معمور ہیں ان سازشوں کا بڑی پامردی سے مقابلہ کیا۔ نتیجہ میں آج ترکی کی خوبصورت اور فن تعمیر کی شاہکار ہزاروں مساجد کی بلند و بالا میناروں سے بلند ہوتی اذانیں یوروپ کے ایوان اقتدار سے لیکر گنجان آبادیوں اور سنسان راہوں پر بھی سنی جارہی ہیں ۔ جہاں تک ترکی میں مساجد اور ان کی تعمیرات کا سوال ہے ۔ یہ فن تعمیر کی شاہکار ہے ۔ بیرونی سیاح ان مساجد میں کئی گئی نقش و نگاری ، شیشے کے کام ، ان کی عجیب انداز کی گنبدوں میں کئے گئے روشنی و ہوا کے حیرت انگیز انتظامات فرش و عرش (چھتوں) کو دیکھ کر دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں ۔ ترکی میں جس مسجد میں بھی جائیں گے وہاں آپ کو شیشے کا انتہائی نازک کام دیکھنے کو ملے گا ۔ رنگ برنگے شیشے ان پر پھول بوٹے اور دیگر نقش و نگار دیکھنے والے میں ایک عجیب و غریب کیفیت پیدا کردیتے ہیں ۔
ترکی میں تاریخی آثار کی تاریخ سلطنت عثمانیہ ، برسادور ، کلاسیکی دور ، مغرب کے اثر انداز ہونے کا دور ، تلپ دور ، باروق دور اور مابعد سلطنت عثمانیہ دور پر محیط ہے ۔ 1299 تا 1326 کو سلطنت عثمانیہ کا اولین دور کہا جاتا ہے ۔ اس دور میں تکونی یک گنبدی مساجد کی تعمیر عمل میں لائی گئی ۔ اس سلسلہ میں مسجد حاجی ازبک (1333 میں تعمیر کردہ) کو فن تعمیر کا مثالی نمونہ کہا جاسکتا ہے ۔ یہ یک گنبدی مسجد ہے ۔ ہم نے سطور بالا میں برسادور کا حوالہ دیا یہ دور 1326تا 1437 تک جاری رہا ۔ برسا میں مسجد مقدس پہلی سلجوقی مسجد تھی ۔ اس دور میں مسجد بایزید دوم مسجد فاتح ، مسجد محمد پاشاہ کی تعمیر عمل میں لائی گئی ۔ اسی دور میں ملک بھر میں دینی مدارس شفاخانوں (اسپتالوں) ترکی حماموں اور گنبدوں کی بڑے پیمانے پر تعمیرات عمل میں لائی گئیں ۔ ترکی میں 1437-1703 کے دور کو فن تعمیر کا کلاسیکی دور کہا جاتا ہے ۔ اس دور میں جو مساجد ، محلات اور عمارتیں تعمیر کی گئیں وہ پہلے کے دور سے بالکل جداگانہ تھیں ۔ اس دور میں ترکی کے مایہ ناز آرکیٹکٹ معمار سینان کی پیدائش ہوئی ۔
اس غیر معمولی آرکیٹکٹ نے فن تعمیر کی دنیا میں ایک نئے دور کا آغاز کیا ۔ انھیں ترکی کے مختلف شہروں میں 334 خوبصورت اور فن تعمیر کی شاہکار عمارتیں تعمیر کرنے کا اعزاز حاصل رہا جو آج بھی اس عظیم معمار کے جمالیاتی ذوق کی داد دیتی نظر آتی ہیں ۔ معمار سینان کا سب سے پہلا اور اہم کام مسجد شہزادہ کی تعمیر تھا ۔ اس مسجد کی تعمیر 1545 میں پائے تکمیل کو پہنچی ۔ یہ مسجد انہوں نے سلطنت عثمانیہ کے عظیم سلطان سلیمان عالیشان کیلئے تعمیر کی تھی ۔ مسجد سلمیہ میں کیا گیاکام ان کے فن کا منہ بولتا شاہکار ہے ۔ اس مسجد کی تعمیر 1568 میں شروع ہوئی اور 1574 کو مکمل ہوئی ۔ معمار سینان کے دیگر اہم کارناموں میں مسجد رستم پاشاہ ، مسجد میر ماہ سلطان ، مسجد ابراہیم پاشا ، مسجد شہزادہ ، تربت سلیمان عالیشان (یہ سلیمان عالیشان کا مقبرہ ہے) اس میں بلقانی تہذیب کی جھلک دکھائی دیتی ہے ۔ ترکی میں 1703-1730 سلطان احمد سوم کے دور اقتدار کے دوران مغربی فن تعمیر کی حوصلہ افزائی کی گئی ۔ اس وقت سلطنت عثمانیہ اور فرانس کے درمیان کافی قربت تھی ۔ اس وجہ سے شاید باروق اور راکو کو طرز کو اپنایا گیا ۔ یہ طرز یوروپ میں کافی مقبول تھے آج ترکی میں خوبصورت مساجد کے ساتھ ساتھ آپ کو انتہائی خوبصورت اور آسمان کو چھوتی عمارتیں نظر آئیں گی جنھیں دیکھ کر ہماری زبان سے یقیناً ان کے معماروں کیلئے ستائشی کلمات نکل جاتے ہیں ۔ دنیا میں جہاں ترکی کی تہذیب ، وہاں کی خطاطی نقش و نگار فن تعمیر مشہور ہیں وہیں ترکی کھانے ، مشروبات ، مٹھائیاں ، حلوے ،کباب بھی اپنے لذیذ ذائقہ کے باعث ساری دنیا میں شہرت رکھتے ہیں ۔ ان میں دونر کباب ، اسکندر کباب ،سیس کباب ، عادنا کباب ، بیطی کباب ، لحم ماجون ، ڈالما ، کارنیارک ، مانتی ، پاسترما، سکوک ، بوریک ،بلگر ، میزے ، پیاز ، کاجک ، آئران ، بوڑا ، راکی ، ترکش چائے ، ترکش کافی ، سمیت ، بکلاوا ، اخیمک کدایفی ، تلمیہ ، حلوہ ، تاووک گاگسو ، اجی بادم کرابیسی اور تبلح وغیرہ شامل ہیں ۔ یہ کھانے ، میٹھے ، چائے اور مشروبات اپنا جواب نہیں رکھتے ۔
یہ دراصل اس یورو ایشیائی ملک کی پہچان بن گئے ہیں ۔ حکومت ترکی نے سیاحت پر بھی خصوصی توجہ مرکوز کی جس کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ وہاں کم ازکم 14 ایسے میوزیمس یا عجائب گھر ہیں جن کا شمار دنیا کے قدیم ترین میوزیمس میں ہوتا ہے ۔ ان میں عدانہ ، انقرہ ، انطالیہ ، غازین ٹیپ ، بے برٹ ، ہالے ، استنبول ، ازمیر ،کونیا ، منبیا ، مرسین ،تاکیرداج ، ترابزان اور اساک جیسے میوزیمس شامل ہیں ۔ جیسا کہ ہم نے اپنے گذشتہ کے مضامین میں بتایا تھا کہ ترکی سلطنت عثمانیہ کے دور سے ہی عالم اسلام میں ایک اہم رول ادا کرتا رہا ہے اس کا سلسلہ اب بھی جاری و ساری ہے ۔ حکومت ترکی نے انسانی خدمات کو صرف عالم اسلام یا کسی ایک علاقہ تک محدود نہیں رکھا بلکہ دنیا بھر میں جہاں کہیں بندگان خدا آفات سماوی ، مشکلات ، بیماریوں اور پریشانیوں میں مبتلا ہوتے ہیں حکومت ترکی اور اس کے تحت کام کرنے والے فلاحی و بہبودی ادارے فوری ان کی مدد کیلئے پہنچ جاتے ہیں ۔ اس کی تازہ ترین مثال شام میں جاری خون آشامی ہے ۔ جاریہ صدی کی اس بدترین خانہ جنگی نے لاکھوں افراد کو موت کی نیند سلادیا اور لاتعداد مقامی باشندوں نے ملک سے فرار ہو کر دوسرے ملکوں میں پناہ لی ہے اور فی الوقت سب سے زیادہ شامی متاثرین ترکی کی سرحدوں پر قائم ریلیف کیمپوں میں پناہ لئے ہوئے ہیں جہاں اپنے مصیبت زدہ شامی بھائیوں کی مدد میں حکومت ترکی و ترکی کے عوام کوئی کسر باقی نہیں رکھے ہوئے ہیں۔ اس معاملہ میں حکومت ترکی کی سرپرستی میں کام کرنے والا ادارہ TIKA (Turkish Cooperation and Co ordination Agency) بہت زیادہ سرگرم ہے ۔ اس کے تحت بے شمار غیر سرکاری تنظیمیں (این جی اوز) کام کرتی ہیں ۔ دنیا کے کسی بھی خطہ میں جہاں کہیں مسلمانوں پر مصیبت آن پڑتی ہے TIKA وہاں پہنچ کر پریشان حال مسلمانوں کی مدد کرتی ہے ۔ اس نے اب تک سوڈان ، صومالیہ ، افغانستان ، برما ، پاکستان جیسے ملکوں میں پریشان حال برادران اسلام کی مدد کی ہے ۔ اس تنظیم کی کارکردگی کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ اس نے تاحال 3.5 ارب ڈالرس کے چیارٹی کام کئے ہیں ۔ افغانستان میں TIKA نے 2005 اور 2014 کے دوارن 806 پراجکٹس شروع کئے جس کے تحت ایک لاکھ افغان بچوں کی اسکولس تک رسائی کو یقینی بنایا گیا ۔ 151 پراجکٹس ایسے شروع کئے گئے جس کے ذریعہ درجنوں اسکولوں کو تعلیمی مواد فراہم کیا گیا ۔ 83 نئے اسکول تعمیر کرائے گئے ، 6 کی تزئین نو کی گئی ، 23 کیلومیٹر شاہراہ کی تعمیر عمل میں لائی گئی ۔ TIKA نے افغانستان میں صحت عامہ کے 214 پراجکٹس کا آغاز کرکے اسپتالوں اور صحت عامہ کے اداروں کو طبی آلات وغیرہ فراہم کئے ۔ TIKA وہاں 2005 سے پانچ اسپتال بھی چلارہا ہے جس میں اب تک 5 ملین سے زائد مریضوں کا علاج کیا جاچکا ہے ۔ اس کے علاوہ پینے کے پانی اور زرعی شعبوں میں افغان کسانوں کی مدد کیلئے بھی کئی ایک پراجکٹس شروع کئے گئے ہیں۔
سوڈان میں بھی اس ادارہ کی خدمات مثالی ہیں ۔ 2013 میں سوڈان ۔ ترکش ووکیشنل اینڈ ٹکنیکل ٹرینرس ایجوکیشن سنٹر کھولا گیا ۔ خرطوم میں قائم اس مرکز کے ذریعہ 9 مختلف شعبوں میں 1100 طلبہ نے تربیت حاصل کرتے ہوئے روزگار حاصل کیا ہے ۔ نائیجریا میں بھی TIKA نے اپنی خدمات کا ریکارڈ قائم کیا ہے ۔ ہر سال ترک ڈاکٹرس مختلف افریقی ممالک کا دورہ کرتے ہوئے مریضوں کا علاج کرتے ہیں ۔ پاکستان میں گذشتہ 6 برسوں کے دوران اس ادارہ نے جملہ 94 پراجکٹس پر کام کیا جس میں یتیم و یسیر بچوں میں تعلیمی مواد ، اسٹیشنری ، کتابیں اور بیگس کی تقسیم 4 کمپیوٹر لیابس کی تعمیر ، کیمیا ، طبیعیات اور حیاتیات کی لیباٹریز کی تعمیر 32 کمروں پر مشتمل ایک عالیشان اسکول کی تعمیر ، اور صحت عامہ کے پروگرامس میں مدد و اعانت شامل ہے ۔ TIKA کے ذریعہ حکومت ترکی نے مقدونیہ میں اسلامی تاریخی آثار کے تحفظ کا بیڑہ اٹھایا ہے اسی سلسلہ کی ایک کڑی کے طور پر مقدونیہ میں اس نے مسجد سلطان مراد ، اسکوپجے کی مسجد العرف اور سارے میں واقع مسجد حسین شاہ کی عظمت رفتہ بحال کی ۔ ہم نے جیسا کہ پہلے کہا ہے کہ حکومت ترکی دنیا بھر میں اسلامی آثار کے تحفظ میں خصوصی دلچسپی رکھتی ہے چنانچہ اس نے قبلہ اول بیت المقدس (مسجد اقصی) کے اطراف و اکناف اسلامی آثار کے تحفظ کیلئے کئی ایک پراجکٹس شروع کئے ہیں ۔ TIKA نے 400 سال قدیم آرکائیوز کے ریکارڈ کو محفوظ کیا ہے لبنان میں بھی TIKAکی خدمات قابل ستائش ہیں ۔ اس نے تریپولی کے اسلامک میڈیکل سنٹر کو ادویات و طبی آلات فراہم کئے ہیں جس کا مقصد وہاں موجود ایک ملین سے زائد شامی پناہ گزینوں کی مدد کرتا ہے ۔ برما میں روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام اور ان پر بدھسٹ دہشت گردوں و حکومت کے مظالم پر ترکی نے شدید برہمی ظاہر کی تھی خود رجب طیب اردغان کی اہلیہ اور ان کے افراد خاندان نے برما پہنچ کر اپنے مظلوم روہنگیائی مسلمان بھائیوں بہنوں کی دلجوئی کی اور ان کی مدد میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ۔
ترکی میں SETA مفکرین و دانشوروں کا ایک معروف ادارہ ہے جس کے مراکز ترکی کے مختلف مقامات خاص کر استنبول ، انقرہ کے علاوہ واشنگٹن ، قاہرہ ، برسلز اور برلن میں بھی قائم ہیں ۔ اس ادارہ نے جرمنی پر زیادہ توجہ مرکوز کی ہے جہاں 30 لاکھ سے زائد ترک باشندے مقیم ہیں ۔ SETA دراصل سیاسی ، اقتصادی اور سماجی تحقیق کا غیر منفعت بخش ادارہ ہے جو قومی علاقائی اور عالمی مسائل و موضوعات پر تحقیق کرتاہے اس کا مقصد عالم اسلام کو دنیا کے سیاسی ،اقتصادی ، سماجی حالات اور ان میں رونما ہورہی تبدیلیوں سے واقف کرانا ہے ۔ یہ ادارہ سیاستدانوں اور عوام دونوں کو حالات حاضرہ سے آگاہ کرتا رہتا ہے ۔ مشرق وسطی کے حالات پر بھی اس کی گہری نظر ہے ۔ قارئین سیاست SETA کے تحقیقی مقالے اس کے ویٹ سائٹ www.setav.orgپر ربط پیدا کرتے ہوئے حاصل کرسکتے ہیں ۔