ترکی ‘ اتاترک اور اردگان

ترکی میں صدراتی انتخابات قبل از وقت کرانے کے لئے تاریخ کا اعلان کردیاگیا ہے۔ ترک صدر رجب طیب اردگان کو اس پر اعتراض نہیں ہے۔ نومبر3سال2019کے مقررہ وقت سے پہلے 24جون 2018کو انتخابات کرانے کی وجوہات کیا ہیں‘ اس سلسلے میں کوئی حتمی بات کہنا ابھی مشکل ہے ۔ ویسے دیکھنے میں اکثریہ آیا ہے کہ کوئی حکمراں جب قبل ازوقت انتخابات کرانے میں دلچسپی لیتا ہے تو بنیاد ی طور پر اس کی دووجوہات ہوتی ہیں۔

ایک وجہہ تو یہ ہوتی ہے کہ وہ موجودہ حالات کو وہ اپنے حق میں مانتا ہے او ردوسری وجہہ یہ ہوتی ہے کہ اسے حالات کے بدلنے پر اپنی پوزیشن کے مستحکم نہ رہنے کا اندیشہ ہوتا ہے ۔ ترکی میں متعینہ وقت سے پہلے صدراتی انتخابات کرانے کے اعلان کی وجوہات جاننے کے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ترک صدر اردگان کی موجوہ پوزیشن مستحکم نہیں رہے گی ‘ کیونکہ شام کے حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں اور اسکے حالات کے اثرات سے ترکی کا محفوظ رہنا ممکن نظر نہیں آتا۔

اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ترکی میں سب سے زیاد ہ تقریبا36لاکھ شامی پناہ گزیں ہیں اور دوسری وجہہ یہ ہے شامی کردوں کے پاس جو ہتھیار ائے ہیں وہ شام کی سرحدوں تک محدود نہیں رہیں گے وہ ہتھیار ترکی کے علیحدگی پسند کردوں تک بھی پہنچ سکتے ہیں۔امریکہ ‘ اسرائیلی او رکئی یوروپی ممالک سے ترکی کے وہ رشتے بھی نہیں رہے جو کبھی ہوا کرتے تھے ۔ اتاترک کے ترکی کو امریکہ او ریوروپی ممالک ایک ائیڈیل مسلم ملک کے طور پر پیش کیاکرتے تھے۔ اس ترکی میں مغربی تہذیب کی اہمیت بہت زیادہ تھی۔

اسلامی تہذیب پسند کرنے والے لوگ فوج عدلیہ اور حکومت کی نگاہوں میں معتوب سمجھے جاتے تھے۔ ترک لیڈروں کو اس وقت ایسالگتا تھا ک ان کے انداز حکمرانی ترکی کی طاقت میں اضافے کا سبب بنے گا‘ اس کی اقتصادیات کو مستحکم بنائے گا‘ تری کو یوروپی یونین کی رکنیت آسانی سے مل جائے گی۔

وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ یوروپی یونین کے قیام کا مقصد مشترکہ مفاد کے حصول کی بنیاد پر رشتوں کو مضبوط کرنا تھا ‘ یوروپی ملکوں کو متحد کرنا تھا مگر اس کے قیام کا مقصد یہ نہیں تھا کہ ترکی جیسا شاندار ماضی رکھنے والا ایک مسلم لک یوروپی یونین کا حصہ بنے۔

دراصل اتا ترک بھی جانتے تھے کہ ملک کی ایج مبہم پالیسی اختیار کرکے نہیں بنتی اور اردگان بھی جانتے ہیں کہ ملک کی واضح پالیسی اپنائے بغیر اپنی ایک امیج نہیں بناسکتا ۔

اردگان نے ترکی میں اصلاحات کیں۔ عالمی ایشوز کے حوالے سے اپنے موقف کا کھل کر اظہار کیا۔ وہ اسرائیل جو کبھی ترک ہمنوا ہوا کرتا تھا ‘31مئی 2010کو بحیرہ روم میں اس کے فوجیوں نے غزہ کے فلسطینیوں کے لئے امدادی اشیاء سے بھرے ترکی کے جہاڑ کو روکنے کی کوشش کی او ران کی گولیوں سے نو لوگ ہلاک ہوگئے تو اردگان نے اسے چھوٹی بات نہیں سمجھا۔ان کے لئے ترکی کو اسرائیل سے دورکرنے کا یہ ایک اچھا موقع تھا۔

انہو ں نے اس سلسلے میں عملی احتجاج کرکے ترکی نئی پالیسی کا اشارہ دے دیا۔ یہ بتادیا کہ نیا ترکی اسرائیل کا دوست نہیں‘ فلسطین کا حامی ہے‘ کیونکہ وہ مانتا ہے کہ جب تک فلسطینی مغلوب ہیں‘ مسجد اقصیٰ میں نماز کی مکمل آزادی ممکن نہیں ہے۔

ترکوں کے بدلتے مزاج کو محسوس کرتے ہوئے یہ لگتا ہے کہ رجب طیب اردغان ایک با ر پھر ترکی کے صدر منتخب کرلئے جائیں گے اور ان کی سیاست کا اندازہ وہی ہوگا جواب تک رہا ہے۔