ترقی کے پیچھے سرپٹ دوڑ تے ممالک اور کروڑوں بچوںکی اموات

محمد علیم الدین
موجودہ دور کا یہ اک المیہ ہی ہے کہ ایک طرف عالمی سطح پر حکومتیں اپنی طاقت اور اپنا تسلط بڑھانے کے لئے ہر طرح کی جتن کررہی ہیں وہیں انہی حکومتوں کے معصوم شہریوں کی ایک بڑی آبادی ہلاکت کا شکار ہورہی ہے ۔دنیا بھر کے بچوں کے حالات پر یونیسیف کی تازہ ترین رپورٹ ان خوفناک حالات کے نتائج کے طور پر ابھرے کچھ اعداد و شمار کو پیش کرتی ہے جو صدی در صدی اس دنیا پر قابض ہیں۔ یہ حالات ہیں بچوں کی ناخواندگی، غربت، بھوک، غذائی قلت اور استحصال کی جو بد سے بدتر ہوئی جاتی ہیں۔یونیسیف کے مطابق 2030 تک پانچ سال عمرتک کے دنیا کے قریب 7کروڑ بچے ایسی بیمار یوں سے ہلاک ہو سکتے ہیں جن کا علاج ممکن ہے۔ قریب 17 کروڑ بچے غربت کی زد میں آکر دم توڑ سکتے ہیں اور 75 کروڑ بچیوں کو شادی کے نام پر ایک جہنم میں ڈھکیلاجا سکتا ہے۔ یہ اندازہ محض قیاس آرائی پر مبنی نہیں ہیں، برسوں کے مطالعہ، تحقیق اور کئی دہائیوں سے ابھرتی ہوئی پیٹرن کی بنیاد پر یہ اندازے قائم کئے گئے ہیں ۔ اور اب تو اسے ستم ظریفی کہنا بھی جیسے اس فکر کو ہلکا کرنا ہے تاکہ انتہائی عالمی ترقی اور مقابلہ آرائی میں آخر یہ بچے کس طرح چھوٹتے جا رہے ہیں اور ان کے خلاف غیرانسانی کارروائیوں کا دائرہ مسلسل پھیلتا کیوں جا رہا ہے؟ یونیسیف کی اس رپورٹ کے حوالے سے اگر ہندوستان کے حالات پر نظر ڈالیں تو یہاں کے حالات بھی کم ڈرانے والے نہیں۔ نعروں، وعدوں، پالیسیوں، پروگراموں اور مہمات کے طویل اور کم و بیش لامتناہی سلسلے کے بعد اب یہ ملک ایسے مقام پر ہے جہاں آئے دن من کی بات ہوتی ہے لیکن یہ بھی ایک رسم کی طرح کتابی اخلاق کی طرح پیش کی جا رہی ہے ۔ جبکہ سماج یاور اقتصادی صورت حال روبہ زوال ہیں۔یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان بھی ان5 ممالک میں شامل ہے جہاں 2015 میں ہوئی قریب چھ کروڑ بچوںکی اموات میں سے نصف اموات ہندوستان میں ہوئی ہیں۔ دوسرے ملکوںمیں ڈیموکریٹک جمہوریہ آف کانگو، ایتھوپیا، نائیجیریا اور پاکستان۔ لیکن یہ ملک معیشت اور طاقت کے معاملے میں ہندوستان کے نزدیک نہیں ٹھہرتے ہیں۔ پھر بھی بیماریوں سے ہونے والی اموات میں ہندوستان ان کے برابر آ کھڑا ہوا ہے۔ رپورٹ بھی یہی ظاہر کرتی ہے کہ ہندستان جیسیا ملک جو کہ عالمی اقتصادی ترقی کی راہ پر تو سرپٹ دوڑ لگا رہے ہیں لیکن بچوں کی شرح اموات میں کمی کے معاملے میں پستی کا شکارہے۔ اس کا مطلب کیا ہے؟ ظاہر ہے اس کا مطلب یہی ہے کہ’’ ترقی کی ڈگڈگی ‘‘بجائی جارہی ہے ۔ ترقی کے مناظر دکھانا الگ بات ہے اور ترقی کا سماج کے ہر حصے تک پہنچا پانا الگ بات ہے۔ مودی حکومت آج جس ترقی کا تاج سجائے بیٹھا ہے اس کے پیچھے کروڑوں چیخیںدبی ہوئی ہیں۔ غربت، ناخواندگی، بھوک، تشدد اور استحصال سے گھرے محروم معاشرے کی چیخ۔ایک اور اعداد و شمار دیکھئے۔ ہندوستان میں وقت سے پہلے پیدائس اور حمل کی مدت سے منسلک پیچیدگیاں بچوں کی موت کی سب سے بڑی وجہ بتائی گئی ہیں۔ ان کی شرح ہے 39 فیصد۔ نمونیا سے تقریبا 15 فیصد بچے، اسہال سے تقریبا 10 فیصد موت کا شکار بنتے ہیں۔ البتہ ہندوستان میں پانچ سال سے کم عمرکے بچوں میں شرح اموات میں کمی آئی ہے۔ 1990 میں فی ہزار پیدا ہوئے بچوں میں یہ تعداد 126 تھی اور اب یہ گھٹ کر 48 رہ گئی ہے۔ یونیسیف کے مطابق ہندوستان میں 2015 میں ڈھائی کروڑ بچے پیدا ہوئے۔ جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک میں ہندوستان کی صورت حال افغانستان اور پاکستان کے بعد سب سے خراب ہیں۔ نیپال اور بنگلہ دیش میں پانچ سے کم کی عمر میں ان تینوں ممالک سے کم ا موات کی شرح پائی جاتی ہیں۔ ہندوستان میں یوں تو 94 فیصد آبادی کے پاس پینے کا صاف پانی ہے لیکن بیت الخلاء کی سہولیات صرف 40 فیصد لوگوں کو ہی دستیاب ہے۔ مناسب غذائیت، ویکسینیشن، انفیکشن سے بچاؤ، پینے کا صاف پانی، یہ سب چیزیں ایسی ہیں جو بچوں کو موت سے بچا سکتی ہے۔ اگر لڑکیوں کی تعلیم پر زور دیا جائے تو جنوبی ایشیا میں بچوں کی موت کے معاملات میں زبردست کمی آ سکتی ہے۔ ظاہر ہے تعلیم بھی ایک بہت بڑا فیکٹرہے۔ بنیادی بات یہی ہے کہ سال در سال اس طرح کی رپورٹیں آتی رہتی ہیں لیکن نہ تو سیاسی جماعتوں کے منشور اور نہ ہی حکومتوں کے ایکشن پلان میں نونہالوں کی صحت، غذائیت اور تعلیم کا مسئلہ شامل ہو پاتا ہے۔ یہ ایک پرانا مسئلہ ہے اور جدید ماحول میں اسے نئے سرے سے دیکھے جانے کی ضرورت ہے۔ اس کیلئے سماجی علاقے میں مزید سرمایہ کاری اور ایک مربوط پالیسی منصوبہ بندی اور اس پر ایمانداری سے عمل ضروری ہے۔ ’’سیاسی سطح پر قوت ارادی میں کمی‘‘ کی بات اب تو طوطا رٹائی ہو گئی ہے۔ ’’من کی بات‘‘ کی باتیں بھی کتنے دن من کو بھائیںگی۔ لہذا کریں تو کچھ ایسا کریں کہ واقعتاتبدیلی نظر آنے لگے۔دوسری طرف یونیسیف کی ہی جاری کردہ ایک اور رپورٹ کے مطابق، دنیا بھرمیں اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے کم عمر بچیوں کی شادیوں کی شرح میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔ اقوام متحدہ کے بچوں کی بہبود کے ادارے یونیسیف نے یہ باتیں اپنی منگل 28 جون کو جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں بتائی ہیں۔ اس سالانہ رپورٹ کے مطابق غریب بچوں کے پانچ برس کی عمر تک پہنچنے سے قبل مرنے کے امکانات متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے بچوں سے دو گْنا زیادہ ہیں۔ جبکہ بڑھتی ہوئی عدم مساوات کے باعث غریب لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کے امکانات دو گنا سے بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ اسی باعث اس ادارے کی طرف سے اس امر پر زور دیا گیا ہے کہ دنیا بھر کے غریب ترین بچوں کی مدد کے لیے زیادہ بھرپور کوششیں عمل میں لائی جائیں۔یونیسیف کے ڈپٹی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر جسٹن فورسِتھ نے تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کو بتایا کہ ’’بعض بڑے چیلنجز جن کا ہم سامنا کر رہے ہیں جیسے مہاجرین یا تارکین وطن، عدم مساوات اور غربت سے جڑے ہوئے ہیں۔‘‘ فورستھ کے مطابق عدم مساوات کا خاتمہ ایسے بچوں کے حق میں ہے مگر یہ بات بھی اہم ہے کہ مستقبل میں ایسے تنازعات کو روکا جائے۔یونیسیف کی طرف سے جاری ہونے والی اس رپورٹ میں اس بات کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے کہ دنیا بھر کے بچوں کو تعلیم دی جائے ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اوسطاًاگر ایک بچہ ایک برس کی اضافی تعلیم حاصل کرتا ہے تو بالغ ہونے پر اس کی کمائی 10 فیصد تک بڑھ جاتی ہے۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ اگر کسی قوم میں نوجوان اوسطاً ایک سال کی اضافی تعلیم حاصل کرتے ہیں تو اس قوم کی غربت کی شرح میں نو فیصد تک کی کمی واقع ہو جاتی ہے۔یونیسیف کی اس سالانہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس وقت دنیا میں قریب 124 ملین بچے ایسے ہیں جو پرائمری یا لوئر سیکنڈری اسکول نہیں جاتے۔ یہ تعداد 2011 کے مقابلے میں دو ملین زائد ہے۔یونیسیف کے پروگرام ڈائریکٹر ٹَیڈ چاپان نے نیویارک میں اپنے ادارے کی سالانہ رپورٹ کے اجراء کے موقع پر بتایا کہ اگرچہ گزشتہ25 برسوں کے دوران بچوں کی تعلیم اور صحت کے حوالے سے ’’زبردست پیشرفت‘‘ ہوئی ہے تاہم اس پیشرفت کی تقسیم مساوی نہیں تھی۔ اْنہوں نے کہا کہ اگر دنیا کے ہر غریب بچے تک پہنچنے میں کامیابی نہ ہوئی تو اگلے پندرہ برسوں کے دوران پانچ سال سے کم عمر کے 69 ملین بچے ایسی بیماریوں کے باعث موت کے منہ میں چلے جائیں گے، جن کا آسانی سے علاج ہو سکتا ہے۔