ترقی کا نعرہ دینے والی حکومت تبدیلیٔ مذہب کی گھنونی مہم میں مصروف

ظفر آغا
ایک مسلمان کی قیمت پانچ لاکھ روپئے ! یہ ہے سنگھ پریوار کی جانب سے مسلمانوں کو پھر سے ہندو بنانے کا پروگرام ۔ اسکا باقاعدہ اعلان سنگھ کی جانب سے ہوچکا ہے اور صرف اعلان ہی نہیں بلکہ وہ اس پروگرام کو سرگرمی سے لاگو کررہے ہیں ۔ اس کا ثبوت آگرہ میں ہونے والا واقعہ ہے ، جہاں غریب مسلمانوں کو ہندو بنایا گیا ۔ یہ اور بات ہے کہ کافی شور شرابے کے بعد وہ واپس اسلام میں داخل ہوگئے ، لیکن سنگھ کے عزائم پست نہیں ہوئے ۔ اسی پلان کے تحت انہوں نے آگرہ کے واقعہ کے بعد یہ اعلان کیا کہ وہ ہر سال پانچ لاکھ مسلمانوں اور عیسائیوں کا مذہب تبدیل کرکے ان کو ہندو بنائیں گے اور اس سلسلے میں وہ علی گڑھ میں اس ماہ ایک اور ’’گھر واپسی‘‘ پروگرام منعقد کررہے ہیں ، جس میں آگرہ کی ہی طرح مسلمان اور عیسائیوں کو ہندو بنانے کا پروگرام ہے ۔
اب تک ہندوستان میں اقلیتوں کی جان و مال اور عبادت گاہیں محفوظ نہیں تھیں ، لیکن اب ان کا عقیدہ بھی خطرے میں ہے ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایک مسلمان یا ایک عیسائی محض چند لاکھ روپیوں کے لئے اپنے ایمان و عقیدہ کا سودا کرلے گا؟ ۔ ظاہر ہے یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ ایسا ممکن ہے ۔ لیکن یہ مت بھولیں کہ آگرہ میں محض ’’راشن کارڈ اور آدھار کارڈ‘‘ بنوانے کے لئے کچھ حضرات نے کم از کم ماتھے پر تلک لگواکر تصویریں تو کھنچوالیں ، تب ہی تو سنگھ کے حوصلے بلند ہیں اور وہ اب ایک مسلمان کو پانچ لاکھ دے کر ہندو بنانے کو تیار ہیں ۔ تو کیا واقعی اب اس ملک میں ایمان کا بھی سودا ہوگا ۔ اس سوال کے جواب کے لئے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آخر کوئی شخص یا کوئی گروہ عقیدہ کیوں بدلتا ہے ؟

ہندوستان میں تبدیلی مذہب کی سب سے بڑی مثال دلت افراد ہیں ، جو کبھی اسلام اور کبھی بدھ مذہب اختیار کرتے رہتے ہیں ۔ آخر ایک ہندو برہمن عموماً اپنا مذہب کیوں نہیں تبدیل کرتا ہے ، جبکہ ایک ہندو دلت اپنا مذہب بدل لیتا ہے ۔ سیدھی سی بات یہ ہے کہ برہمن ہندوستانی معاشرے میں ترقی کی بلندیوں کو چھو رہا ہے ۔ وہ پڑھا لکھا ہے ، اس کے پاس بہترین نوکریاں ہیں ، وہ ذات کے اعتبار سے سب سے بلند ہے ، مندر اور مذہب پر اس کی اجارہ داری ہے اور ہندوستانی اقتدار بھی کم و بیش اسی کے قبضے میں ہے ۔
اس کے برخلاف ایک دلت سماجی اعتبار سے اچھوت ہے ، عموماً پڑھا لکھا نہیں ہے ، نوکریاں اس کو میسر نہیں ، مندر میں وہ قدم نہیں رکھ سکتا اور اقتدار سے وہ کوسوں دور ہے ، یعنی ہندوستانی برہمن اپنے ملک میں ہر اعتبار سے خوشحال ہے جبکہ دلت ہندو ہو کر بھی قطعاً خود مختار نہیں ۔ اسی لئے دلت خود کو بااختیار اور خود مختار بنانے کے لئے اکثر اپنا عقیدہ ترک کرکے اسلام ، عیسائیت یا بدھ مذہب اختیار کرلیتا ہے ، جہاں اس کے لئے خود مختاری کے نئے راستے کھل جاتے ہیں ۔

بالفاظ دیگر اگر عقیدہ انسان کو بااختیار بنانے میں کارگر ثابت نہیں ہوتا تو اکثر انسان اپنا عقیدہ بھی بدل لیتے ہیں ۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اسلام انسان کو بااختیار نہیں بناتا ؟ اس سلسلے میں راقم الحروف حال ہی میں قرآن اور رسول اکرمﷺ کی تعلیمات کی روشنی میں اسلام پر روشنی ڈال چکا ہے ۔ ان مضامین کا نچوڑ یہی تھا کہ اسلام نے انسانیت کو عہد وسطی میں جس قدر بااختیار بنایا اسکی نظیر نہیں ملتی ۔ یہی سبب ہے کہ قرون وسطی کا دور اسلام کا دور تھا جس نے مسلمانوں کو اس پورے دور میں گلوبل پاور کی حیثیت پر پہونچادیا تھا ۔ لیکن یوروپ میں سترہویں اور اٹھارویں صدی میں انڈسٹریل انقلاب کے بعد کہانی بدل گئی ۔ سائنس و ٹکنالوجی نے انڈسٹری کو جنم دیا ، جس نے نئی سیاست ، نئی تعلیم اور نئی تجارت کو جنم دیا ۔ اب یوروپ میں شہنشاہیت ختم ہونے لگی ہے اور اس کی جگہ جمہوریت نے لے لی ۔ اسی طرح انڈسٹری نے نئی معیشت پیدا کرکے زمینداروں اور جاگیرداروں کا سماج سے دبدبہ ختم کردیا اور یوروپ کا ہر شخص جمہوریت کے راستے حاکم وقت بننے کا مستحق ہوگیا ۔ اسی طرح ووٹ کی طاقت نے ہر شخص کو اپنا حاکم چننے کا حق دے دیا ۔ پھر ایک نیا تعلیمی نظام پیدا ہوگیا جس نے ہر شخص کو اسکول تک پہونچا کر تعلیمی میدان میں بااختیار کردیا ۔ اس طرح نئی جمہوری سیاست نے سیکولرازم کو جنم دے کر یوروپ سے سیاسی میدان میں چرچ اور عیسائی علماء کا دبدبہ ختم کردیا ۔ لب لباب یہ ہے کہ انڈسٹریل انقلاب نے جدید اداروں کو جنم دے کر empowerment کی بالکل نئی راہیں کھول دیں ۔ بس یہیں سے مسلمانوںکا زوال شروع ہوگیا ، کیونکہ مسلمانوں نے یوروپ کی پیدا کردہ جدیدیت کو رد کردیا ۔ عہد وسطی کے سپر پاور مسلمانوں کا یوروپ سے تصادم ہوا ۔ اس تصادم کو مسلمان محض ایک سیاسی تصادم نہیں بلکہ تہذیبی تصادم سمجھ بیٹھے اور یوروپ کی پوری جدیدیت کو اپنا دشمن سمجھ بیٹھے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ مسلمان زیادہ تر ممالک میں آج بھی بادشاہی یا ایک شخص کے آمرانہ سیاسی نظام کا غلام ہے ۔ وہ جدید تعلیم میں دنیا بھر کے دیگر اقوام سے پسماندہ ہے ۔ وہ آج بھی انگریزی ، سائنس اور ٹکنالوجی میں پسماندہ ہے ۔ اسی طرح وہ جدید انڈسٹری اور جدید معیشت میں بھی یوروپ سے بہت پیچھے ہے ۔

لب لباب یہ ہے کہ انڈسٹریل انقلاب کے بعد سے مسلمان جدید empowerment سے دور ہوتا جارہا ہے ۔ وہ اصل اسلامی قدروں کے بجائے عہدوسطی کے زمیندارانہ قدروں کو ہی اصل اسلام سمجھ رہا ہے ۔ مثلاً ہم ہندوستانی مسلمانوں میں ذات پات کا نظام گھر کرگیا ہے ، جس کے سبب اب لوگوں نے اسلام قبول کرنا کم کردیا ہے ۔ یعنی مسلم معاشرہ جس طرح پہلے لوگوں کو بااختیار بناتا تھا وہ اب اس طرح لوگوں کو بااختیار نہیں بنارہا ہے ۔ دوسروں کو بااختیار بنانا تو درکنار ، حقیقت یہ ہے کہ ہندوتوا کے اس دور میں خود ہندوستان میں مسلمان ہونا ایک مصیبت کا سبب ہوتا جارہا ہے ۔ مسلمانوں کو فساد کا سامنا ہے ۔ طرح طرح کی سماجی اور معاشی مشکلات کا سامنا ہے ، سنگھ پریوار نے یہ سمجھ لیا ہے ۔ چنانچہ اس نے مسلمانوں کا عقیدہ بدلنے کے لئے کبھی راشن کارڈ ، کبھی آدھار کارڈ تو کبھی پانچ لاکھ روپیوں (یہ سب آج کے دور کے empowerment کے ذرائع ہیں) کی لالچ دینا شروع کردیا ہے ۔ اس لئے سنگھ کے اس نئے حربہ سے بچنے کے لئے محض چلّانے سے کام نہیں چلنے والا ہے ۔ اب مسلمانوں کو اپنا ایمان بچانے کے لئے ایک بہت سوچی سمجھی حکمت عملی بنانی ہوگی ۔ راقم الحروف کی ادنی رائے میں اس حکمت عملی کے دو پہلو ہونے چاہئیں ۔ اولاً مساجد ، مدارس اور درگاہوں سے اپنے لوگوں کو خبردار کرنے کی ضرورت ہے کہ کس طرح لالچ دے کر کچھ گروہ مسلمانوں کو تبدیلی مذہب کی طرف راغب کررہے ہیں اور اس سازش سے بچنے کی ضرورت ہے ، لیکن اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو وہ راستے بھی اختیارکرنے ہوں گے جو عام اور غریب مسلمان کو بااختیار بناسکیں ۔ یعنی اب مسلمانوں کو سب سے پہلے جدید تعلیم کی طرف دھیان دینا ہوگا ۔ یہ کام باقاعدہ منظم بیداری تعلیم تحریک کے ذریعہ ہی ہوسکتا ہے ۔ پھر اسلام کی وہ بنیادی قدریں جو مسلمان کو اخوت ، انسانی حقوق اور نسوانی حقوق کی تعلیم دیتی ہیں ، ان کو شدت سے اجاگر کرنا ہوگا ۔ بالفاظ دیگر مسلم معاشرے کے دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔