ترجمہ غالب اورخوشونت سنگھ کا ایک یادگار خط

ڈاکٹر حسن الدین صدیقی
زیر نظر مضمون میرے سابقہ مضمون ’’پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے‘‘( سیاست 26 اپریل 2014) کے سلسلہ کی ایک کڑی ہے ۔ پچھلے مضمون میں غالب کی متنوع شخصیت کا ایک مختصر خاکہ پیش کیا گیا تھا اور اب غالب کے ترجمہ کے تعلق سے سردار خوشونت سنگھ کے ایک خط کے حوالے سے کچھ باتیں قلمبند کی جارہی ہیں جس کی اب ایک یادگار حیثیت ہے۔
خوشونت سنگھ سے میری ملاقات جولائی 1991 میں ان کے دہلی کے سُجان سنگھ پارک رہائش گاہ میں ہوئی تھی۔ قریباً ایک گھنٹہ، بات چیت زیادہ تر ان کے مشہور کالم with Malice Towards One and All کے بارے میں بعض دلچسپ موضوعات پر مرکوز رہی۔خوشونت سنگھ کا شمار ہندوستان کے ایک نامور صحافی، مصنف و مورخ اور انگریزی زبان کے مشاہیر ادب میںہوتا ہے۔ ان کی ہمہ موضوعاتی معلوماتی اور چٹخارے والی زبان پڑھ کر برا مزہ آتا ۔ وہ بے تکان لکھتے اور قلم برداشتہ لکھتے، کسی ردو قدح سے درگذر۔ جب کسی کی حقیقت کھولنی ہوتی تو بات صرف اس کی چاک دامنی تک محدود نہیں ہوتی بلکہ اس کے پورے خد و خال کو نمایاں کر کے رکھ دیتے ۔ پھر بھی لوگ انہیں چاہتے اور بہت چاہتے ۔ وہ بھانت بھانت کا تجربہ رکھنے والے، گربہ یاراں دیدہ، بے مثال حقیقت پسند اور ایک بے لاگ شخصیت کے مالک سیکولر مزاج کے انسان تھے۔ ساتھ ساتھ وہ اردو کے ایک عظیم پرستار کی حیثیت سے میں بھی جانے جاتے۔ وہ لکھتے تو انگریزی زبان میںتھے لیکن اردو میں سوچتے تھے۔ اردو شاعری خصوصاً اردر غزل سے ان کا بے حد لگاو تھا اور غالب تو گویا ان کی کمزوری تھی۔

انہوں نے اردو کے بعض مشہور شعراء کے منتخبہ کلام کا انگریزی میں ترجمہ بھی کیا تھا اور اسے ایک کتابی شکل میں مس کا منا پرشاد ( جو جشن بہار کے نام سے اردو کے عالمی مشاعروں کا اہتمام کرتی ہیں) کے اشتراک سے The Best of Urdu Poetry کے نام سے Penguin India ( پبلشرز)کے ذریعہ شائع بھی کروایا ۔خوشونت سنگھ بالخصوص کلام غالب کے بڑے رسیا تھے اور اس کا انگریزی ترجمہ کرنا ان کا ایک محبوب مشغلہ تھا۔ اس کیلئے وہ ہر وقت مناسب الفاظ کی تلاش میں لگے رہتے۔ کبھی مطمئن اور کبھی غیر مطمئن۔ اور کبھی کسی منتخبہ شعر کا انگریزی ترجمہ موزوں کر کے اپنے کالم میں چھاپ دیتے اور اس پر مشورہ بھی چاہتے۔ وہ بڑے کھلے دل کے اسکالر تھے ۔ ایسے ہی ایک موقع پر میں نے ان کے ایک ترجمہ کے غلط ہونے کا اشارہ دیا تھا اور اس کا متبادل انگریزی زبان میں موزوں کر کے انہیں لکھ بھیجا۔ خوشونت سنگھ نے اس پر اپنے ترجمہ کے غلط ہونے کا اعتراض کرتے ہوئے مجھے لکھا اور میری کی گئی تصحیح پر بڑی خوشدلی سے میرا شکریہ ادا کیا اور اپنے خط میں اس بات کا بھی صاف اظہار کیا کہ غالب کا بیشتر حصہ ان کی سمجھ سے باہر ہے ۔ بہر حال خوشونت سنگھ جیسی مانی ہوئی شخصیت کا اس طرح کا اعتراف اور کسی ذہنی تحفظ کے بغیر ان کی صاف گوئی کوئی معمولی بات نہیں۔ ان کے اس خط سے بڑے آدمیوں کی پہچان ہوتی ہے اور یہی غایت اس مضمون کی ہے کہ لوگ اس سے سبق لیں اور سیاست میں اس یادگار خط و کتابت کی چھاپ، رہ جائے۔ ذیل میں ملاحظہ ہو میرے خط کی ٹائپ کاپی اور خوشونت سنگھ کے ہاتھ کا لکھا ہوا خط۔