تربیت

اولاد تمام والدین کیلئے سرمایۂ حیات کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہیکہ وہ سو دکھ اٹھا کر بھی اولاد کیلئے ہر خوشی اور ہر آرام مہیا کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ان کی ذمہ داری یہیں پوری نہیں ہوجاتی بلکہ بچوں کی تعلیم و تربیت بھی اسی قدر ضروری ہے۔ تربیت کی زیادہ ذمہ داری ماں پر عائد ہوتی ہے کیونکہ وہ زیادہ وقت بچوں کے ساتھ رہتی ہے۔ تاہم جیسا کہ پہلے کہا جاتا تھا کہ ’’کھلاؤ سونے کا نوالہ اور دیکھو شیر کی نظر سے …‘‘ تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ بچوں کی تربیت کی خاطر اس قدر ظالم اور جابر بن جائیں کہ وہ اپنے مسائل اور دل کی بات ہی آپ سے شیئر نہ کرسکیں کیونکہ بچوں کے ساتھ آپ کی گفتگو اور ان کے مختلف مسائل پر بات چیت ان کی تربیت کے سلسلے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔

بچوں کے ساتھ گفتگو کرنے سے آپ کو ان کی الجھنوں اور پریشانیوں کا پتہ چلتا ہے۔ لہٰذا آپ ان کے مسائل اور پریشانیوں کو دور کرنے کی تدبیر کرسکتی ہیں یا انہیں اس سلسلے میں بہتر مشورے دے سکتی ہیں۔ بچوں کو گھر میں ہمیشہ آزادی کے ساتھ اپنی رائے کے اظہار کا موقع دیں کیونکہ اسی صورت میں آپ ان کے دل کی بات اور ذہن میں پرورش پانے والے خیالات سے آگاہ ہوسکتی ہیں اور پھر ان کی رہنمائی کرسکتی ہیں۔ لہٰذا ان کے ہر مسئلے پر کھل کر بات چیت کریں ورنہ آپ کی سختی اور تکلف انہیں آپ سے دور کرسکتا ہے اور عین ممکن ہیکہ وہ بہت سے معاملات میں تذبذب کا شکار ہوکر کسی نہ کسی مشکل سے دوچار ہوجائیں۔

جب میں ننھا سا تھا
ایک مرتبہ میری امی جان نے مجھ کو ایک مرغے کی آواز سنائی تھی ۔ وہ مرغا ایک بادشاہ کا تھا ۔ بادشاہ اس کو باسی روٹی کے ٹکڑے توڑ توڑ کر نہیں کھلاتا تھا ۔ یہ چیزیں تو غریب آدمی اپنے مرغوں کو دیا کرتے ہیں ۔ بادشاہ تو اپنے اس مرغ کو انار کے دانے کھلایا کرتا تھا اور کبھی کبھی موتی بھی اس کے سامنے ڈالے جاتے تھے تاکہ وہ ان کو چگ لے ۔ اس مرغے کو سوہن حلوے کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کاٹ کر کھلائے جاتے تھے اور اس کیلئے اس طرح کی مٹھائیاں بنائی جاتی تھیں شکر پارے اور بوندیاں ۔ اس کہانی کو سن کر میرا کئی مرتبہ جی چاہا کہ میں مرغا بن جاؤں اور کوئی بادشاہ مجھ کو پال لے مگر میں نے یہ بھی سن رکھا تھا کہ بادشاہ مرغ کھانے کے بھی بڑے شوقین ہوتے ہیں

اگر میں مرغا بن بھی گیا اور بادشاہ نے مجھ کو نہ پالاتو کہیں ایسا نہ ہو کہ میں کھا لیا جاؤں بھون بھان کر ۔ دو تین دن تک اسی بات پر سوچتا رہا کہ مرغا بن جانے میں فائدہ ہے یا نقصان ۔ ایک دن میں نے دیکھا کہ ایک مرغے کو بوانصیبن کی بلی نے دبوچ لیا ۔ میں نے اس دن سے توبہ کرلی کہ اب میں کبھی مرغا بننا نہ چاہوں گا ۔ مگر اس توبہ کے بعد ہی میں ایک دم مرغ بن گیا ۔ آپ اسے جھوٹ نہ سمجھیں ۔ میں جھوٹ نہیں بولتا ۔ میں سچ مچ مرغا بن گیا تھا ۔ ’’سن لیجئے کہ میں کیسے مرغا بنا ۔‘‘ میں نے دیکھا کہ میری بڑی بہن نے سرخ سرخ دہکتا ہوا قندھاری انار خریدا ۔ میں اپنے پیسوں کی ٹافی خریدکر پہلے ہی چٹ کرچکا تھا ۔ اب میں انار کیسے کھاتا ۔ میری سمجھ میں ایک ترکیب آئی ۔ میں نے اپنی بہن سے کہا ۔ باجی آج تو تم بادشاہ نظر آرہی ہو ۔ ’’ باجی نے کہا ! وہ کیسے ؟‘‘میں نے کہا ۔ انار ہے نا تمہارے ہاتھ میں ۔ جو بادشاہ اپنے مرغوں کو کھلاتے ہیں ۔ باجی نے ہنس کرکہا ۔ اچھا وہ کہانی والی بات مگر میرے پاس تو صرف انار ہے مرغا کہاں ہے ؟ یہ کہہ کر میں نے ہاتھ سے چونچ بند کی اور اپنے منہ کے سامنے وہ ہاتھ لگالیا اور کہنیوں اورگھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ گیا ۔ باجی نے انار کے دانے ہاتھ پر ڈالنا شروع کردئے اور اپنے ہاتھ کی چونچ سے میں وہ دانے کھاتا رہا ۔ تھوڑی دیر میں سارا انار میں کھاچکا تھا اور اب جو باجی نے دیکھا تو نہ وہ بادشاہ تھیں نہ میں مرغا تھا البتہ انار کا خالی چھلکا ان کے ہاتھ میں تھا ۔