تذکرۂ مشاہیر

ڈاکٹر اخلاق احمد آہن
اردو دنیا میں بولی جانے والی تیسری بڑی زبان ہے۔ اقوام متحدہ ادارہ یونیسکو کے اعداد و شمار کے مطابق عام طور پر سمجھی اور بولی جانے والی زبانوں میں چینی اور انگریزی زبان کے بعد اردو دنیا کی تیسری بڑی زبان ہے۔ اس کے بولنے اور سمجھنے والے دنیا کے ہر علاقے اور ہر ملک میں موجود ہیں اور دن بہ دن اردو کے بولنے والوں کا حلقہ بڑھتا جارہا ہے،البتہ پڑھنے اور پڑھانے والے کم ہورہے ہیں۔
ایڈمنڈ برک(Edmun Burk)آئی لینڈ کے ایک ممتاز سیاستداں، فلسفی اور شعلہ بیاں مقرر تھے۔ انھوں نے 1789 ء میں صحافت کو چوتھی مملکت کے بطور متعارف کروایا۔جمہوری سماج میں اس چوتھی مملکت کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ صحافت ایک امانت ہے۔ ایک اچھے ادیب یا صحافی کی یہ خصوصیت ہوتی ہے کہ وہ اپنی بے باک تحریروں کے توسط سے عوام میں سچ اور جھوٹ کے فرق کی سمجھ پیدا کرتا ہے۔ وہ وقت کے خداؤں سے کبھی نہیں ڈرتا اور اس کی یہی سچائی اُس کے لئے طرۂ امتیاز بن جاتی ہے اور کبھی کبھار اسے قربانی کے بھینٹ بھی چڑھاتی ہے۔ جس طرح گوری لنکیش یا جمال خاشوقجی کے ساتھ ہوا۔ بہرحال سعید حسین قلم کی بے باکی اور سچائی کی وجہ سے اپنے مضامین میں پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہے ہیں۔
ایک دانشور کا قول ہے …’’بڑے آدمی زندگی میں کم اور کتابوں میں زیادہ ملیں گے اور ان کی تحریریں صدقۂ جاریہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔‘‘ اس قول کی صداقت کا احساس اُس وقت ہوا، جب سعید حسین کی تحریریں میری نظر سے گذریں۔ یہ تحریریں ہی ہیں جو لکھنے اور پڑھنے والے کے درمیان گہرا تعلق پیدا کرنے کا موجب بنتی ہیں۔ اسی طرح قاری اور تخلیق کار کے درمیان ایک اٹوٹ رشتہ استوار ہوجاتا ہے۔ اس رشتہ ٔ لطیف کے اسرار ان دونوں کے علاوہ کسی اور پر منکشف نہیں ہوسکتے۔
بہرحال مذکورہ کتاب جب میرے مطالعہ میں آئی تو مجھے بے حد خوشی ہوئی کہ ادب میں ایک نو وارد ، جس کی سوچ میں گہرائی اور گیرائی ہے، اپنے مطالعے اور معلومات کی روشنی میں جن مشاہیر پر مضامین لکھے ہیں ، وہ پہلے اخبار ’’سیاست‘‘ میں شائع ہوچکے ہیں، اخبار کے مطالعے کی کیفیت چند دنوں تک ہی باقی رہتی ہے، لیکن وہی مضامین جب کتابی شکلمیں یکجا ہوتیہیں تو اس کی اہمیت و افادیت بڑھ جاتی ہے اور قاری جب چاہے اس سے استفادہ کر سکتا ہے۔
’’تذکرۂ مشاہیر‘‘ چار ابواب پر مشتمل ہے۔
باب اول : مشاہیر صحافت جس میں تین مضامین ہیں۔
1)ایڈیٹر روزنامہ ’’سیاست‘‘ جناب زاہد علی خان صاحب :
اس مضمون میں روزنامہ ’’سیاست ‘‘کی تقریباً 70سال کی خدمات کی، صحافتی، سماجی اور ادبی خدمات کا ذکر کیا گیا ہے اور آن لائن انگریزی اخبار ’’مسلم مرر ـ‘‘کی جانب سے زاہد علی خان صاحب کو دہلی میں مسلم مرر ایوارڈ2016 دیئے جانے کا تفصیلی جائزہ لیا گیاہے ۔ یہ ایوارڈ امریکہ کے بہت بڑے سرمایہ دار (فخر الاسلام) فرینک اسلام کے ہاتھوں دیا گیا ہے۔ فرینک اسلام سابق امریکی صدر بارک اوباما کے فینانشیل ایڈوائزر رہ چکے ہیں۔
2)مشہور صحافی خالد المعینا :
آپ سعودی عرب کے مشہور انگریزی اخبار۔ عرب نیوز اور سعودی گزٹ کے چیف ایڈیٹر رہ چکے ہیں۔ صحافت کی دنیا میں اپنی بیباکی کے لیے یاد کئے جاتے ہیں۔خالد المعینا سعودی شہری ہیں، سعید صاحب ملازمت کے سلسلہ میں 40 سال جدہ میں رہے ہیں، اور ان سے ذاتی طور پر واقف ہیں۔
3)ایڈیٹر ہفتہ وار ’’گواہ‘‘ ڈاکٹر فاضل حسین پرویز :
آپ کی کتاب ’’اردو میڈیا ، کل آج کل‘‘ کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں صحافت اور پرنٹ میڈیا کے تعلق سے کافی معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ڈاکٹر فاضل حسین نے میڈیا سے تعلق رکھنے والے ہر اُس گوشہ کا جائزہ لیا ہے جس میں اردومیڈیا کا حال، ماضی اور مستقبل عیاں ہے۔ مذہب ، ادب، سائنس، اطفال، خواتین، کھیل کود وغیرہ تمام شعبوں میں آج کل اردو میڈیا کہاں کھڑا ہے۔ اس پر بحث کی گئی ہے۔ میڈیا برادری، ریسرچ اسکالر اور اردو داں حضرات کے لئے یہ کتاب ایک سند کی حیثیت رکھتی ہے۔
کتاب کا دوسرا باب : مشاہیر سیاست
1)بلبل ہند سروجنی نائیڈو :
اس مضمون میں سروجنی کی سیاسی، سماجی اور ادبی سرگرمیوں کا تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے۔ ہندوستان کی آزادی کی لڑائی میں انہوں نے مہاتما گاندھی، پنڈت جواہر لعل نہرو، مولانا آزاد اور ٹیگور کے ساتھ مل کر جو کام کیا ہے، ان تمام تفصیلات کو قلمبند کیا گیا ہے۔
2)وکٹر ماؤنٹ بیٹن :
آخری وائسرائے ہند وکٹر ماؤنٹ بیٹن کا ذکر کیا گیا ہے ۔ Freedom at night ماخذ ہے۔ اس کتاب کے مصنف ہیں سیری کولسن، لیپر دامنک اور اردو ترجمہ سعید سہروردی نے کیا ہے۔ اس مضمون میں ہندوستان کی تقسیم اور آزادی میں ان کے رول کا جائزہ لیا گیا ہے۔
3)ملا عبدالقیوم :
آپ سروجنی نائیڈو کے والد ڈاکٹر رگھوناتھ چٹوپادھیا کے قریبی دوست تھے۔ ڈاکٹر چٹوپادھیا اور ملا عبدالقیوم نے ریاستی اورقومیمسائل کو حل کرنے میں دم آخر یعنی 1906ء تک ایک دوسرے کے ساتھ رہے۔ ملا عبدالقیوم نے ’’مدرسہ سرداران‘‘ قائم کیا جو جاگیر داروں اور انعام داروں کے بچوں کے لئے قائم کیا گیا جس کا افتتاح 14 اگست 1888ء میں وزیراعظم حیدرآباد سراعظم جاہ بہادر کے ہاتھوں عمل میں آیا۔
کتاب کا تیسرا باب: مشاہیر تاریخ : اس باب میں چار مضامین ہیں ۔
1)سکندر اعظم :
دنیا کا ایک عظیم فاتح جس نے 32سال کی عمر میں تقریباً آدھی دنیا فتح کرلیا، لیکن مرنے سے پہلے اس کے آخری الفاظ یہ تھے۔ ’’کوئی ہے جو مجھ سے میری ساری سلطنت لے لے اور اس کے بدلے میری موت سے چند دن کی مہلت دیدے۔ میری آخری خواہش ہے کہ میں اپنے ملک اور اپنے گھر میں مروں۔‘‘ کیونکہ سکندر کی موت فتوحات کے دوران زہر دینے کی وجہ سے ہوئی تھی جو اس کے دشمنوں کی سازش کا نتیجہ تھی۔صاحب مضمون کہتے ہیں کہ سکندر کی فتوحات کا موازنہ حضرت سیدنا عمر فاروقؓ کی فتوحات سے کیا جائے تو سیدنا عمر فاروقؓ کی فتوحات کے مقابلہ میں سکندر کی فتوحات ادنی ہیں۔
2)مغلیہ سلطنت کا بانی ظہیر الدین بابر :
اس مضمون میںبابر کی پیدائش تخت نشینی دشمنوں کی سرکوبی کے بعد ہندوستان میں ابراہیم لودھی سے پانی پت کے مقام پر جنگ، جس میں ابراہیم لودھی کو شکست ہوئی اور ہندوستان پر مغلیہ سلطنت کی بنیاد قائم کی گئی۔ بابر ایک بہترین سپہ سالار، مدبر اور دین دار حکمران ثابت ہوا۔ اسی مضمون میں بابر کی پیدائش سے لے کر مو ت تک کے بابر کی زندگی کے تمام مہمات اور واقعات کا ذکر کیا گیا ہے۔
3)آصف سابع میر عثمان علی خان بہادر :
ریاست حیدرآباد کے آخری تاجدار آصف سابع میر عثمان علی خان کی فہم و فراست، ادب دوستی، شعراء، ادباء، دانشور اور علماء حضرات کی قدر شناسی کا ذکر کیا گیا ہے جس میں خاص طور پر مولوی احمد حسین صاحب کا ذکر ہے۔ میر عثمان علی خان صاحب کی آدم شناسی اور ان کی شرافت اور قدر دانی کے واقعات کا تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے۔
4)مہاراجہ کشن پرشاد :
اس مضمون میں مہاراجہ کی ادب نوازی اور فیاضیکا ذکر ہے۔ مہاراجہ وزیراعظم حیدرآباد ہونے کے باوجود سادہ دل اور سادہ مزاج شخصیت کے مالک تھے۔ مہمان نواز تھے اور دانشوروں کا بہت خیال رکھتے تھے۔
چوتھا باب : مشاہیر ادب …
1)حضرتِ امیر خسرو :
اس مضمون میں نامورصحافی فاروق ارگلی کی کتاب ’’جہان خسرو‘‘ میں شامل مضامین کا احاطہ کیا گیا ہے۔ یہ کتاب تقریبا ً900 صفحات اور 9ابواب پر مشتمل ہے۔
2)مولانا جلال الدین رومی ؒ :
مثنوی مولانا رومی نے اہل مغرب کی بیقرار روح کے لیے غذاے روحانی کو بطور متعارف ہوا۔ دنیا کی کئی زبانوں میں مثنوی کا ترجمہ کیا گیا۔ اے آرنکلسن نے مثنوی کی پوری تشریح انگریزی میں لکھی ہے۔ اس مضمون میں مولانا رومی نے جس طرح قرآن مجید کے مضامین کو شعر کا قالب عطا کیا اور قرآن کریم کے ابدی حقائق کو بلند ترین تخلیقی سطح پر پیش کیا ہے، اس کا احاطہ کیا گیا ہے۔
3)ابو ریحان البیرو نی :
علم بصریات کا محقق، ماہر طبیعات، نامور سائنسدان کے نام سے محمد ؐ زکریا درک نے تقریباً دنیا کی تمام مشہور لائبریریوں سے تفصیلات حاصل کرکے کتاب لکھی ہے جو مصنف کا بہت بڑا کارنامہ ہے جن مشاہیر اسلام نے علم اور سائنسی معلومات کے فلک کو چار چاند لگائے ہیں ان میں البیرونی کا شمار سرفہرست ہے۔
4)یعقوب میراں مجتہدی :
لغت مجتہدی کے مرتب اردو کے قدردان دھن کے پکے مرد مجاہد تھے۔ لغت کو ترتیب دینے میں اپنی زندگی کے تقریباً 25 سال لگا دیئے۔ اردو ادب اور ادب دوست حضرات کے لئے آپ کا کارنامہ قابل تحسین ہے۔ جو کام ایک ادارہ بھی نہیں کرسکتا تھا آپ نے تن تنہا اس کام کو تکمیل تک پہچایا۔ لغت مجتہدی تقریباً تین جلدوں اور 2800صفحات پر مشتمل ہے۔ جس میں 90,000 سے زائد اندراجات ہیں اور بنیادی الفاظ کی تعداد 25,000 سے زیادہ ہے۔اردو ادب کے طالب کے لئے یہ ایک قیمتی اثاثہ ہے۔
5)سید جلال الدین توفیق حیدرآبادی :
توفیق حیدرآبادی کے تعلق سے پروفیسر مغنی تبسم رقم طراز ہیں کہ حضرت توفیق کے کلام میں مجاز اور حقیقت کے جلوے دوش بدوش نظر آتے ہیں۔ ان کے کلام میں دھوپ چھاؤں کی سی کیفیت محسوس ہوتی ہے۔ صنائع اور بدائع پر انہیں عبور تھا۔ توفیق کا کلام میر اور غالب کی یاد دلاتا ہے۔ مجموعہ کلام ’’فانوس خیال‘‘ کو ادب دوست حضرات نے کافی سراہا ہے۔
6)نیاز فتح پوری … ادیب ، نقاد اور صحافی :
نیاز فتح پوری کے تعلق سے ڈاکٹر عبادت بریلوی لکھتے ہیں ۔ ’’نیاز پر مشرقی رنگ تنقید کا اچھا خاصہ اثر ہے۔ وہ اپنی تنقید میں معانی و بیان کی اصطلاحات کے علاوہ جدتِ ادا ، شوخی بیان، ندرتِ خیال، اسلوبِ بیان طرزِ ادا، ترکیبوں کی جدت اور قوافی و ردیف کا ذکر ضرور کرتے ہیں۔ ڈاکٹر سید رزاق علی نے پروفیسر مجید بیدار صاحب کی سرپرستی میں ’’نیاز فتح پوری … ادیب، نقاد اور صحافی کے عنوان سے تفصیلی مقالہ لکھ کر Ph. D کی ڈگری حاصل کی ہے۔
7)سید فضل اللہ سے فضل جاوید تک ( پیروڈی کی دنیا کا ایک روشن ستارہ):
فضل جاوید اردو ادب کے ایک نامور طنز و مزاح نگار ہیں۔ اب تک آپ کی چار کتابیں (1) گل بوٹے (2) گہرائیاں (3) نگینے (4) اردو پیروڈی کے نام سے شائع ہوچکی ہیں۔ ماہنامہ ’’شگوفہ‘‘ نے پروفیسر آفاق احمد صاحب کی تجویز پر فضل جاوید صاحب کی ادارت میں ایک پیروڈی نمبر ستمبر 1976ء میں شائع کیا تھا۔ پروفیسر گیان چند جین ڈاکٹر ابو محمد سحر، پروفیسر عبدالقوی دسنوی اور پروفیسر آفاق احمد جیسے اساتذہ کی نگرانی میں آپ کے ادبی ذوق کو پرواز ملی۔
8)توحید جنت کی کنجی One and only :
مذکورہ کتاب One and Only کے نام سے معید صدیقی صاحب نے انگریزی میں لکھی ہے۔ اس کا اردو ترجمہ ان کی اہلیہ رقیہ صدیقی صاحبہ نے کیا ہے۔ اس کتاب کا لب لباب بقول مصنف ’’ میں وحدانیت پر کامل یقین رکھتا ہوں اور اس پر عمل بھی کرتا ہوں وہ قاری سے سوال کرتے ہوئے پوچھتے ہیں اگر کوئی میرے مذہب کے بارے میں پوچھے تو میں صرف یہیں کہوں گا کہ میں مسلمان ہوں۔ میں اس پر یقین نہیں رکھتا کہ میں فرقوں میں بٹ جاؤں۔ مذہب اسلام میں فرقوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ میں قرآن پر یقین رکھتا ہوں اور حدیث شریف پر میرا کامل عقیدہ ہے۔
بہرحال ’’تذکرہ ٔ مشاہیر‘‘ کے مضامین قابل تحسین ہیں۔ سعید حسین نے بڑی عرق ریزی اور جانفشانی سے مطالعہ اور تحقیق کے بعد جو مضامین روزنامہ ’’سیاست‘‘ کے توسط سے قاری تک پہنچائے ہیں، مبارکباد کے مستحق ہیں۔ مذکورہ کتاب ریسرچ اسکالرس، طلباء ، اہل ذوق و ادب اور اساتذہ کے لئے مفید ہے۔ خاص طور پر جن مشاہیر پر سعید حسین صاحب نے قلم اٹھایا ہے، وہ میدان صحافت، سیاست، تاریخ اور ادب کے نامور اور تاریخ ساز شخصیات ہیں۔ ہاں کہیں کہیں املائی غلطیاں رہ گئی ہیں، سرورق دیدہ زیب ہے۔ سرورق کے وسط میں نواب میر عثمان علی خاں آصف جاہ سابع کی تصویر بہت دیدہ زیب ہے، جس سے کتاب کی خوبصورتی میں چار چاند لگ گئے ہیں۔مذکورہ کتاب کا ہدیہ صرف 200 روپئے رکھا گیا ہے ، جس کسی کو بھی چاہئے وہ فون نمبر 7842458283 پر ربط پیدا کرکے حاصل کرسکتے ہیں۔