تحیتہ الوضو

سوال :   ا س سے پیشتر سیاست سنڈے ایڈیشن کے سوال جواب کالم میں تحتیہ المسجد کی فضیلت سے متعلق احادیث شریفہ ذکر کی گئی تھیں۔ تحتیہ الوضو کے بارے میں بھی سنا جاتا ہے ۔ وضو کرنے کے بعد دو رکعت نفل نماز پڑھنی چاہئے ۔ اس کا بہت ثواب ہے ۔
کیا احادیث شریفہ میں تحتیہ الوضو اور اس کی فضیلت کا کوئی  ذکر ہے یا یہ بزرگان دین کے عمل سے ثابت ہے ۔ اس کے اوقات کیا ہیں؟
نعمت اللہ، محبوب نگر
جواب :   تحتیہ الوضو کی فضیلت احادیث سے ثابت ہے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : مامن احد یتوضا فیحسن الوضو ء و یصلی رکعتین یقبل بقلبہ وبو جھہ علیھما الا وجبت لہ الحسنۃ۔
ترجمہ : جو کوئی وضو کرتا ہے اور اچھی طرح وضو کرتا ہے اور دو رکعت نماز خشوع اور خضوع سے ادا کرتا ہے تو اس کیلئے ضرور جنت واجب ہوگی۔ (امام ابود اور امام مسلم نے اس کی روایت کی ہے)مستدرک کتاب الطھارۃ ، باب فضیلۃ تحتیہ الوضو میں حضرت عمر وبن تنبسۃ (تابعی) سے روایت ہے کہ حضرت ابو عبید نے ان سے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک نہیں ، دو نہیں، تین نہیں کئی مرتبہ سنا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے۔ جب بندہ مومن وضو کرتا ہے اور کلی کرتا ہے ، ناک میں پانی چڑھاتا ہے تو اس کے منہ کے اطراف سے گناہ خارج ہوجاتے ہیں اور جب وہ اپنے دونوں ہاتھ دھوتا ہے تو اس کے ناخن سے گناہ نکل جاتے ہیں۔ جب وہ اپنے سر کا مسح کرتا ہے تو سر کے اطراف سے خطائیں جھڑجاتی ہیں اور اگر وہ کھڑے ہوکر دو رکعت نماز خشوع و خضوع سے ادا کرتا ہے تو وہ اپنے گناہ سے ایسے نکل جاتا ہے جیسے اس کی ماں نے اس کو جنا ہے۔
عن عمر و بن عنبسۃ ، ان أبا عبید، قال لہ : حدثنا حدثیا سمعتہ من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال : سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غیرۃ مرۃ ولا مرتین ولا ثلاث یقول : اذا تو ضأ العبد المومن فمضمض و استنثر خرجت الخطایا من اطراف فمہ فاذا غسل یدیہ تناثرت الخطایا من اظفارہ ، فاذ مسح براسہ تناثرت الخطایا من اطراف رأسہ ، فان قام و صلی رکعتین یقبل فیھما لقلبہ و طرفہ الی اللہ عزو جل خرج من ذنوبہ کما ولدتہ امہ ۔
(اس حدیث کی سند امام بخاری اور امام مسلم کی شر ط کے مطابق ہے)
پس تحتیہ الوضو کی دو رکعت نفل نماز پڑھنا مندوب و مستحب ہے۔ ممنوع و مکروہ (یعنی طلوع آفتاب اور اس سے قبل ، زوال آفتاب ، غروب آفتاب اور اس سے قبل یعنی عصر کے بعد) کے علاوہ کسی بھی وقت وضو کے فوری بعد دو رکعت پڑھنا مستحب ہے ۔ رد المحتار جلد اول ص 141 دارالفکر بیروت مطلب فی التمسح بمندیل میں (و صلاۃ رکعتین فی غیر وقت کراھۃ) کے تحت منقول ہے : ھی الاوقات الخمسۃ الطلوع و ماقبلہ والاستواء والغروب وما قبلہ بعد صلاۃ العصر ، و ذلک لان ترک المکروہ او لھا من فعل المندوب کما فی شرح المنیۃ۔

موسم سرما میں تیمم کرنا
سوال :  میری عمر ساٹھ (60) سال ہے، میں صوم و صلوۃ کی بچپن سے پابند ہوں۔ حالیہ عرصہ میں بیمار ہوئی تھی، الحمد للہ اب بہتر ہوں، بسا اوقات فجر کے وقت سردی محسوس ہوتی ہے تو کیا ایسے وقت میں مجھے تیمم کی اجازت مل سکتی ہے یا مجھے وضو کرنا چا ہئے۔
اسرا فاطمہ، وٹے پلی
جواب :   سردی کی وجہ سے تمام ائمہ کے اجماع کے مطابق تیمم کرنا صحیح نہیں، البتہ اتنی سخت سردی ہو کہ جس کی وجہ سے عضو کے تلف ہوجانے کا اندیشہ ہو یا بیماری کے بڑھنے کا خدشہ ہو تو ایسی صورت میں تیمم کرنا درست ہے۔ نفع المفتی والسائل ص : 14 میں ہے : اذا الم تخف فوات العضو اوزیادۃ المرض وغیرہ من الاعذار المرخصۃ للتیمم لا یجوز التیمم بمجرد شدۃ البرد بالا جماع من خزانۃ الروایۃ عن الغیاثیۃ۔
لہذا حسب صراحت صدر آپ عمل کریں۔ تاہم سردی کے موقع پر آپ پانی گرم کر کے وضو کرلیا کریں تو بہتر ہے۔

اخلاقی انحطاط
سوال :   مسلم معاشرہ میں روز بہ روز خرابیاں بڑھتی جارہی ہیں اور مسلمان برائی کو برائی نہیں سمجھ رہا ہے، غیبت ، چغلی دوسرے کی ٹوہ میں رہنا کسی کی برائی بیان کرنا اور اس پر ہنسنا اس طرح کی اخلاقی خرابیاں مسلم معاشرہ میں بڑھتی جارہی ہیں۔ بداخلاقی ، بدکرداری کی کوئی لمٹ نہیں رہی۔ آپ سے ادباً التجاء ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کی روشنی میں بیان کیجئے کہ ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کے ساتھ کیسا رہنا چاہئے ؟
نعیم الدین، ای میل
جواب :  نبی ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ اپنے دل کو دوسروں سے متعلق پاک و صاف رکھنے پر زور دیا اور آپ کے روبرو کسی دوسرے کی شکایت کی جائے تو سخت ناپسندیدگی کا اظہار فرمائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر فرمایا کرتے : میرے سامنے دوسروں کی ایسی باتیں نہ کیا کرو جنہیں سن کر میرے دل میں ان کے متعلق کوئی کدورت پیدا ہو کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ میں سب سے صاف دل (سلیم الصدر) کے ساتھ ملوں۔ (ابو داؤد السنین) ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے دو افراد سے متعلق آپ کو شکایت پہنچائی  جسے سن کر آپ کا چہرہ مبارک سرخ ہوگیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کو کنایۃً فرمایا کہ اس طرح کی باتیں مجھے نہ پہنچایا کرو۔ (بخاری 127:41 )
آپ ہمیشہ صحابہ کو تلقین فرماتے کہ وہ دوسروں کے حق میں اچھی گفتگو کریں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ’’اخلاق کی بلندی یہ نہیں ہے کہ تم اس کے ساتھ نیکی کرو جو تمہارے ساتھ نیکی کرے اور اس کے ساتھ برائی کرو جو تمہارے ساتھ برائی کرے بلکہ عمدہ اخلاق تو یہ ہے کہ ہر شخص سے نیک سلوک کرو خواہ وہ تم سے برے طریقے ہی سے پیش آئے یا تم سے زیادتی کرے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے نیکی کا مفہوم حسن خلق (عمدہ اخلاق) بیان فرمایا۔ یعنی نیکی دوسروں سے اچھا برتاؤ کرنا ہے ۔ آپ کا ارشاد ہے : البر احسن الخلق (سلم 1980:40 یہ بھی فرمایا : اکمل المؤمنین ایمانا احسنھم خلقا‘‘ یعنی مومنین میں سب سے زیادہ کامل مؤمن وہ ہیں جو ان میں زیادہ اچھے اخلاق والے ہوں (ترمذی) اس سے واضح ہے کہ ایمان کی تکمیل اخلاق اور طرز معاشرت کی تکمیل کے بغیر نہیں ہوسکتی ۔ فرمایا : ان خیارکم احسنکم اخلاقا (بخاری) تم میں وہی بہتر ہے جس کے اخلاق دوسروں سے اچھے ہوں۔ ایک بار آپ نے فرمایا : اچھے اخلاق والے کو اس کے اچھے اخلاق کی وجہ سے روزہ دار اور قائم اللیل (شب بیدار) کا درجہ مل جاتا ہے ۔ (ابو داؤد)صرف یہی نہیں آپ اس جذبے کو پورے انسانی معاشرہ میں رواں دواں دیکھنا چاہتے تھے ، ارشاد ہے : تم اس وقت تک مسلمان نہیں ہوسکتے جب تک دوسروں کیلئے وہی پسند نہ کرو جو خود اپنے لئے پسند کرتے ہو۔ (مسلم) ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ایک دوسرے سے روگردانی اختیار نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کے اندرونی معاملات کی خواہ مخواہ ٹوہ میں رہو اور اے اللہ کے بندو ! سب بھائی بھائی ہوجاؤ (مسلم) یہی اخلاق عالیہ کی تعلیم تھی کہ مسلمان تو مسلمان غیر مسلم بھی آپ کے گرویدہ تھے لیکن افسوس کہ مسلمان اپنے پاس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ اخلاق کا نمونہ اور اخلاقیات پر مبنی اعلیٰ تعلیمات کو رکھنے کے باوجود اخلاقی اعتبار سے تنزل کے شکار ہیں۔ ہر مسلمان اپنے اخلاق کو اخلاق نبوی کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کریں۔

جبراً قرضہ کو معاف کرانا
سوال :  زید نے خالد سے دو سال قبل پانچ لاکھ روپئے لئے اور ادائی قرض کی مدت دو سال مقرر ہوئی ، لکھا پڑھائی وکیل کے ذریعہ مکمل کی گئی ، زید نے دو سال کی مقررہ مدت میں قرض ادا نہیں کیا ۔ خالد نے زید کو تنبیہہ کرتے ہوئے کہا کہ وقت مقررہ پر ادا نہ کئے جانے کی صورت میں قانونی چارہ جوئی کی جائے گی چونکہ اس کی دستاویزات موجود تھیں۔ زید نے خالد کو اپنے دوست کے گھر بلایا اور وہاں چند افراد پہلے سے موجود تھے اور خالد کو جان کی دھمکی دی ۔ زبردستی و مجبور کر کے قرض کی معافی کے تیار شدہ کاغذات پر دستخط لے لی۔ کیا ایسی صورت میں ازروئے شرع مجبوراً معاف کروایا قرض زید کے ذمہ سے معاف ہوگا یا وہ واجب الادا ہے۔
نام مخفی
جواب :  جبراً قرضہ معاف کروانے سے قرضہ معاف نہیں ہوتا ، قرضدار کے ذمہ اس کی ادائیگی بدستور برقرار رہے گی ۔ درمختار کے کتاب الاکراہ میں ہے ۔ مالا یصح مع الاکراہ ابراء مدیونہ۔ لہذا بشرط صحبت سوال زید نے خالد کے ساتھ زبردستی جو معافی قرضہ کی تحریر پر دستخط لی ہے اس کی وجہ سے اس کے ذمہ قرض معاف نہ ہوا۔

کیا نفل روزوں کیلئے شوہر کی اجازت ضرور ہے ؟
سوال :  میں نفل روزے رکھنا چاہتی ہوں لیکن میرے شوہر مجھے نفل روزے رکھنے سے منع کر رہے ہیں۔ کیا نفل روزے رکھنے کیلئے بیوی کو شوہر کی اجازت لینا ضروری ہے؟
سعیدہ بانو، احمد نگر
جواب :  روزہ چونکہ طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کھانے پینے اور جماع سے اجتناب کرنے سے عبارت ہے ، لہذا اگر بیوی روزے کی حالت میں ہو تو شوہر اپنی ضرورت کی تکمیل نہیں کرسکتا اسی لئے شوہر کو اپنی ضرورت کیلئے بیوی کو نفل روزہ رکھنے سے منع کرنے کا حق دیا گیا اور بیوی کو ہدایت دی گئی کہ اس سلسلہ میں شوہر سے اجازت حاصل کرلے (مراقی الفلاح علی حاشیۃ الطحطاوی ص 641 )
آپ نفل روزہ رکھنا چاہتی ہیں تو اس کیلئے اپنے شوہر سے اجازت طلب کریں اگر اجازت نہیں دیتے تو آپ نفل روزہ نہ رکھیں، ہاں اگر نفل روزہ رکھنے کی وجہ سے جسمانی کمزوری پیدا نہیں ہوتی اور ضرورت کی تکمیل میں کسی اعتبار سے رکاوٹ نہیں ہوتی تو شوہر اجازت دے دے، اس سے بیوی کے جذبہ عبادت میں اضافہ ہوگا۔
بیمار کیلئے قبلہ کا حکم
سوال :  میرے والد کا گزشتہ مہینے آپریشن ہوا ، وہ ہاسپٹل میں آٹھ دن ایسی حالت میں ہے کہ اٹھنا بیٹھنا اور پلٹنا ممکن نہ تھا ، وہ ہوش و حو اس میں تھے ، گفتگو وغیرہ کرتے ، تیمم کرلیتے اور اسی طرح نماز پڑھ لیتے، ان کا چہرہ قبلہ کی طرف نہیں تھا ۔ غیر قبلہ کی طرف رخ کر کے انہوں نے چار دن نمازیں پڑھی ہیں۔ کیا ان کی نماز ادا ہوگئی، قبلہ کا رخ ترک کرنے کی وجہ سے کیا ان کی قضاء کرنا ہوگا ؟
محمد شکیل، بورہ بنڈہ
جواب :  اگر کوئی شخص بیمار ہو اور اس کا قبلہ کی طرف رخ کرنا ممکن نہ ہو اور کوئی اس کے ساتھ موجود نہ ہو جو اس کو روبہ قبلہ کرسکے یا کوئی موجود ہو لیکن رخ کرنا دشوار ہو تو اس کا کسی بھی سمت میں رخ کرنا ادائیگی نماز کیلئے کافی ہے ۔ عالمگیری جلد اول ص : 63 میں ہے:  مریض صاحب فراش لا یمکنہ أن یحول وجھہ ولیس بحضرتہ احد یوجھہ یجزیہ صلوتہ الی حیثما  شاء کذا فی الخلاصۃ۔
پس آپ کے والد کو دواخانہ میں قبلہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنا ممکن نہ تھا تو مجبوری میں غیر قبلہ کی طرف ادا کی گئی نماز ادائیگی فریضہ کیلئے کافی ہے ۔