تحفظ جمہوریت ملک کے ہر شہری کی ذمہ داری

مذہب کے نام پر ظلم و بربریت نقصان دہ ، پرکاش راج
حیدرآباد ۔ 29 ۔ نومبر : ( سیاست نیوز ) : مذہب کے نام پر ظلم و بربریت کرنا ملک کے لیے نقصان دہ ہے ۔ اس تشویش کا اظہار مشہور و معروف فلمی شخصیت پرکاش راج نے مقتولہ صحافی گوری لنکیش کی کتاب کے رسم اجراء پروگرام میں مہمان خصوصی شرکت کے بعد میڈیا نمائندوں سے مخاطب تھے ۔ انہوں نے سماج کو آواز دی کہ ملک میں خوف و دہشت سے عاری زندگی گزارنے کے لیے سماج اپنی زبان کھولے ۔ انہوں نے اس بات کا بھی ادعا کیا کہ جمہوریت کا تحفظ سماج کے ہر شخص کی ذمہ داری ہے ۔ واضح ہو کہ اپنی بے پناہ صلاحیتوں کے ذریعہ فلمی دنیا میں اپنا لوہا منوانے والے پرکاش راج گوری لنکیش قتل کے بعد سے عوامی جمہوری حقوق سے متعلق سرگرم ہوگئے ہیں ۔ اور صحافی گوری لنکیش کے قتل کے بعد انہوں نے وزیر اعظم پر بھی سوالیہ نشان لگایا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سوال کرنا ہر ایک شہری کا حق ہے ۔ لہذا سماج کو اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ صحافی گوری لنکیش کا قتل میرے گھر کے سامنے ہوا ہے اور گوری لنکیش کے میرے ساتھ تعلقات 35 سالہ قدیم ہیں ایک آواز کو دبانے کی کوشش کی گئی مگر وہی ایک آواز ہزاروں زبانوں سے آرہی ہے ۔ اسی لیے میں ایک ذمہ دار شہری کی حیثیت سے سوال کررہا ہوں ۔ مسٹر پرکاش راج نے مزید کہا کہ لنکیش کے لکھے ہوئے اداریوں کو وزراء اعلیٰ پڑھنے کے بعد ان کے دفتر آکر ملاقات کیا کرتے تھے اور گوری لنکیش کہا کرتے تھے کہ ہم ہمیشہ اپوزیشن میں ہی رہنا چاہتے ۔ مقتول گوری لنکیش اپنے والد کی صحیح جانشین تھیں ۔ پرکاش راج نے اپنے خطاب کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ گوری لنکیش نے ہمیشہ حق بات اور سچائی کو اپنی زندگی کا شیوا بنالیا تھا ۔ سماج میں اگر کچھ اختلاف ہو تو آپسی مشاورت کے ساتھ مسئلہ کو حل کیا جانا چاہئے نہ کہ کسی کا قتل کیا جائے کیوں کہ دنیا کا کوئی بھی مذہب ظلم کی تعلیم نہیں دیتا بلکہ ہر ایک مذہب محبت و اخوت کا سبق ہی دیتا ہے ۔ انہوں نے مزیدکہا کہ عوامی جمہوریت میں سماج پر ہونے والے حملوں کے خلاف سماج کو بآواز بلند احتجاج کرنا چاہئے اور سماج کو اس معاملہ میں اپنی خاموشی توڑنے کی سخت ضرورت ہے ۔ انہوں نے وزیراعظم نریندر مودی کے تعلق سے کہا کہ وہ صرف ایک نمائندہ ہی ہیں اور عوام ہمیشہ حکمراں طبقہ کے لیے اپوزیشن ہی ہیں کیوں کہ کوئی بھی عوامی نمائندہ 50 فیصد سے زائد ووٹ حاصل نہیں کرپا رہا ہے اس صورت میں انہیں کس طرح اکثریت قرار دیا جاسکتا ہے ۔ سوال کرنا زندگی کا شعار ہونا چاہئے ۔ اسی وقت سماج کا ہر ایک آدمی آزاد اور بے خوف زندگی بسر کرسکتا ہے ۔۔