تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری خیراللہ بیگ
چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے مسلمانوں کی کو 12فیصد تحفظات دینے کے وعدہ کے معاملہ میں کلامِ لیڈر بزبان حکمراں اعلان کردیا ہے کہ ٹاملناڈو کے خطو ط پر خصوصی قانون بنایا جائے گا، انہیں پیش کردہ سدھیر کمیشن کی رپورٹ کو منظرِ عام پر لائے بغیر ہی تحفظات سے متعلق خوش کن اعلان نے مسلمانوں کو کچھ وقفہ کے لئے دلاسہ دے دیا ہے۔ مسلمانوں کے حق میں سیاسی سانحات کی ایک طویل فہرست ہے ، اس طرح کے سانحات پر سرجوڑ کر سیاسی اسٹراٹیجی کا تفصیلی معائنہ کرنے کی مسلم لیڈروں کو ہرگز توفیق نہیں ہوئی۔چالاک سیاستداں بڑا کائیاں ہوتا ہے ، وہ لوگوں کو اس خوبصورتی سے گمراہ کرتا ہے کہ سادہ لوح عوام سمجھتے ہیں کہ وہ اُن کا سب سے بڑا خیر خواہ ہے۔ پسماندگی کا شکار لوگوں کو اپنی مرضی کے اعلانات کرکے ان کے سامنے چنندہ اسکیمات رکھ کر ایسی تصویر کشی کرتا ہے کہ لوگ نہ صرف اس کی عقل و دانش کے قائل ہوجاتے ہیں بلکہ اس کے پالیسی اعلانات سے بھی اتفاق کرتے ہوئے مطمئن ہوجاتے ہیں، بعد کے دنوں میں یہ پالیسی اعلانات ردی کی ٹوکری یا سرد خانوں کی نذر بھی ہوجائیں تو اس کا کوئی نوٹ نہیں لیا جاتا۔
حکومت نے مسلمانوں کی پسماندگی کا جائزہ لینے کے لئے ماہرین کی جو کمیٹیاں تشکیل دی تھیں ان کی پیش کردہ رپورٹس میں آبادی کے تناسب سے تحفظات فراہم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ تلنگانہ میں مسلمانوں کی آبادی 12فیصد ہے جبکہ قبائیلی آبادی 10فیصد بتائی جاتی ہے ۔ قبائیلیوں کی ترقی کے لئے دستوری منظوریاں حاصل ہیں جبکہ مسلمانوں کو تحفظات کیلئے دستور چُپ ہے تاہم مسلمانوں کے اندر کمزور ترین طبقہ کی نشاندہی کرکے تحفظات دینے کی بات کہی گئی ہے ۔اگر چیف منسٹر کے اقدام کو قانون کی بیڑیوں سے جکڑا نہیں گیا تو مسلمانوں کو 12فیصد تحفظات کے لئے معقول قانون بنانے تک مختلف واقعات رونما بھی ہوسکتے ہیں۔ عوامی بہبودی پروگراموں اور پالیسیوں کے بارے میں دو تلگو ریاستوں کے چیف منسٹروں کی کوشش بھی یکساں دکھائی دیتی ہے۔ چیف منسٹر آندھرا پردیش اور چیف منسٹر تلنگانہ دونوں بہبودی اسکیمات اور دیگر ترقیاتی پروگراموں کی ایک دوسرے کی نقل کررہے ہیں۔ سماج کے دیگر طبقات کے لئے تحفظات کے مسئلہ پر دونوں نے یکساں بیانات دیئے ہیں، اس سے اشارہ ملتا ہے کہ دونوں چیف منسٹرس اس متنازعہ مسئلہ کو وقت آنے پر اپنے فائدہ کیلئے استعمال کریں گے اور اپنی اپنی ریاستوں میں پارٹی کے موقف کو بہتر بنانے کیلئے کام کریں گے۔ عوام کے زیادہ سے زیادہ طبقات کو فوائد پہنچانے کیلئے تحفظات کی حد میں توسیع دینا ممکن نہیں ہے لیکن چندرا بابونائیڈو اور کے سی آر نے سپریم کورٹ کے قبل ازیں دیئے گئے فیصلوں کے برعکس فیصلہ کرتے ہوئے اپنی پارٹیوں کی ساکھ کو پہلے سے زیادہ مضبوط بنانا چاہا ہے۔
سپریم کورٹ نے فیصلہ میں واضح کہا تھا کہ تحفظات کا جملہ کوٹہ 50 فیصد سے زائد نہیں ہونا چاہیئے لیکن دونوں تلگو ریاستوں کے چیف منسٹروں نے یوم آزادی کے موقع پر پرچم کشائی کے بعد عوام کو اپنی تقریروں کے ذریعہ یہ یقین دلایا ہے کہ محفوظ زمرہ کے تحت زیادہ سے زیادہ عوام کو لائے جانے کی ان کی دیرینہ آرزو ہے تاکہ عوام کی بڑی تعداد روزگار اور تعلیمی شعبوں میں خصوصی مراعات سے استفادہ کرسکے۔ چندرا بابو نائیڈو نے کاپو طبقہ کو بی سی موقف دینے کی کوششوں کے علاوہ عام انتخابات کے دوران یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ ان کی حکومت ریاست کے خوشحال طبقات میں سب سے زیادہ غریب افراد کو تحفظات فراہم کرے گی اور آنے والے دنوں میں درج فہرست ذاتوں اور قبائیلوں کو بہبودی اسکیمات سے ترقی دے گی۔ اسی طرح چیف منسٹر تلنگانہ کے چندر شیکھر راؤ نے بھی اپنی حکومت کی پالیسیوں کو موثر طریقہ سے عوام تک پہنچانے کا اعلان کیا۔
کے سی آر اور چندرا بابو نائیڈو نے پہلے ہی دیگر پارٹیوں کے گھر اُجاڑ کر ارکان اسمبلی کو اپنی صف میں شامل کرلیا ہے اس لئے دونوں ریاستوں میں اپوزیشن کا وجود نہیں کے برابر ہے تو حکمرانوں کے پاس اعلانات اور ان پر عمل آوری پر نظر رکھنے والا کون ہوگا؟ اگرچیکہ اپوزیشن پارٹیوں نے تحفظات کے تعلق سے دونوں چیف منسٹروں کی پالیسیوں پر تنقید کی ہے۔ اپوزیشن کی تنقیدیں ان چیف منسٹروں کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ صرف وقت ہی بتائے گا کہ دونوں نے عوام کے حق میں کس حد تک بہتر کام کیا ہے۔ اس وقت تلنگانہ کے چیف منسٹر کی حیثیت سے اگر کے سی آر اپنے پڑوسی چیف منسٹر چندرا بابو نائیڈو سے دو قدم آگے دکھائی دے رہے ہیں تو پھر مسلمانوں کو 12فیصد تحفظات دلانے میں وہ ضرور کامیاب ہونے کی کوشش کریں گے، مسلمانوں نے ان سے کافی توقعات وابستہ کی ہیں اور یہ وعدہ ان کا آخری تک تعاقب کرے گا۔
اس وقت ریاست میں نعیم کے انکاؤنٹر کا مسئلہ حکمراں پارٹی ٹی آر ایس کا تعاقب کررہا ہے، اس انکاؤنٹر نے جہاں کئی راز کھول دیئے ہیں اس حکمراں پارٹی کے تعلق سے اپوزیشن نے الزامات عائد کئے ہیں کہ گینگسٹر نعیم نے ساتھ رہنے والے اب ٹی آر ایس میں شامل ہوچکے ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جو چکن کھاکر ہڈیاں پھینک دیں تو اس سے بھی کرنسی پیدا کرلیں گے۔ مرغی کو باجرہ کھلا کر اس سے سونے کا انڈہ حاصل کرتے ہیں۔ بے نامی جائیدادوں کو بچانے کیلئے سیاسی سرپرستی تو ہونی ہی چاہیئے۔ جب انہیں سیاسی سایہ مل جاتا ہے تو پھر بے ایمانیوں کا بازار سج جاتا ہے۔ ایک نعیم کے چلے جانے سے کیا ہوا، اس طرح کے کئی نعیم اب بھی پولیس کے مـخبر ہیں اور حکمرانوں کے تلوے چاٹتے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ حکمرانوں کے درودیوار پر ایسی درجنوں کھونٹیاں لگی ہوئی ہوتی ہیں جن چھوٹی، بڑی اسٹیل کی یا لکڑی کی آنکڑے والی اور بغیر آنکڑے والی کھونٹیاں ہوتی ہیں اور ان کھونٹیوں پر اسے ہی ٹانگا جاتا ہے جو اس کے لائق ہوتا ہے۔ ان کھونٹیوں پر طرح طرح کے کپڑے لٹکے ہوئے ہوتے ہیں جن کو دیکھ کر آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ یہاں کس قسم کے لوگ رہتے ہوں گے۔ حکمراں کے درودیوار پر لگی کھونٹیوں کے درمیان خفیہ اور پُر اسرار دروازہ بھی ہوتا ہے جو اس وقت کھلتا ہے جب کھونٹی پر ٹنگے ہوئے لباس کا مالک بے نقاب ہوتا ہے تو اسے فوری روپوش کردیا جاتا ہے یا پھر انکاؤنٹر کے ذریعہ قصہ ہمیشہ کے لئے ختم کردیا جاتا ہے۔
گینگسٹر نعیم کی ہلاکت کے بعد پولیس کس نتیجہ پر پہونچی اور اس کے ساتھیوں کی گرفتاری اور ڈائری سے دستیاب ثبوت کے بعد کیا کارروائی کی جائے گی، یہ سب سیاسی آقاؤں کے اشاروں کے محتاج ہوں گے۔ پولیس اپنے طور پر ہر ممکنہ طریقہ سے ثبوت اکٹھا کرنے کوشاں ہے۔ ریاست تلنگانہ کی پولیس اور یہاں کے لاء اینڈ آرڈر کی برقراری میں اس کے رول کی ستائش کے درمیان حکومت نے اس سال یوم آزادی کے موقع پر تلنگانہ سے تعلق رکھنے والے پولیس ملازمین کو ان کی جرأت اور بہادرانہ ڈیوٹی کے عوض 38 میڈلس عطاء کئے ہیں۔ تلنگانہ کو فائر سرویس میں شاندار خدمات کیلئے پریسیڈنٹ پولیس مڈل بھی حاصل ہوا ہے۔
kbaig92@gmail.com