تحفظات اور آر ایس ایس

پہلے بال و پر کتر ڈالیں گے وہ
پھر ہمیں آزاد چھوڑا جائے گا
تحفظات اور آر ایس ایس
ملک کی تحفظات پالیسی پر نظرثانی کرنے آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کی تجویز کے بعد سیاسی طوفان اُٹھ کھڑا ہوا تو بی جے پی نے آر ایس ایس سربراہ کی اس تجویز سے اظہار لاتعلقی کرلی ۔ اس نے کہا کہ وہ دستور میں دیئے گئے موجودہ تحفظات کی پالیسی پر ازسرنو غور نہیں کرے گی اور اس نے موہن بھاگوت کے بیان کی حمایت نہیں کی ۔ بہار اسمبلی انتخابات کے پیش نظر بی جے پی بظاہر یہ تاثر دینے کی کوشش کررہی ہے کہ وہ تحفظات کی پالیسی کو برقرار رکھنے کی حامی ہے جبکہ اس کو گجرات کے ہاردک پٹیل کی تحفظات تحریک سے جو سیاسی نقصان ہونے جارہا ہے اس کی خاطر تحفظات پالیسی پر نظرثانی کا درپردہ خیال پیدا کرلیا تھا اور آر ایس ایس کے ذریعہ ایسا شوشہ چھوڑا کہ تحفظات کے مسئلہ پر عوام کی رائے مجتمع کرلی جاسکے لیکن بہار اسمبلی انتخابات بی جے پی کیلئے اہمیت رکھتے ہیں اس لئے وہ فی الحال تحفظات کی پالیسی کو چھیڑنے کی کوشش نہیں کرے گی ۔ بہار اسمبلی انتخابات کے بعد ذات پات کی اساس پر تحفظات فراہم کرنے دستوری اختیارات میں ترمیم کرنے کا فیصلہ کرسکتی ہے ۔ اگر معاشی بنیادوں پر تحفظات دیئے جائیں تو ملک کے ایس سی ایس ٹی طبقہ کیلئے شدید دھکہ پہونچے گا کیوں کہ ان دنوں معاشی اعتبار سے اگر ایس سی ، ایس ٹی طبقہ کے افراد مستحکم ہوں گے تو وہ تحفظات سے محروم ہوں گے۔ بی جے پی کو فی الحال بہار اسمبلی انتخابات میں کامیابی کی فکر ہے ۔ انتخابات کے بعد تحفظات یا کوٹہ پالیسی پر نظرثانی کرنا اس کی فطرت کے عین مطابق ہوگا ۔ آر ایس ایس کے لیڈروں کے بیانات کو پس پشت ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ بہار کے رائے دہندوں پر اس کا غلط اثر نہ پڑے ۔ ملک کے 5 فیصد برہمنوں کو اعلیٰ درجہ کی ملازمتیں ملتی ہیں اور 99 فیصد ملازمتوں پر ان کا ہی قبضہ تھا اب بی سی ، ایس سی ، ایس ٹی طبقہ کے لوگوں کو اپنا حصہ مل رہا ہے ایسے میں برہمنوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہونے لگا ۔ اس لئے تحفظات کی پالیسی پر نظرثانی کرکے معاشی بنیادوں پر تحفظات دینے کیلئے زور دیا جارہا ہے ۔ہاردک پٹیل نے تحفظات کا مطالبہ کرکے بی جے پی حکومت کو مشکلات میں ڈال دیا ہے کیوں کہ پٹیل طبقہ کو خوشحال طبقہ متصور کیا جاتا ہے ۔ اگر تحفظات کی پالیسی کو پٹیل برادری کے لئے نرم بنادیا گیا تو پھر برہمن وادی گروپس سرکاری ملازمتوں سے مزید محروم ہوجائے گا ۔ لہذا خوشحال طبقہ کو تحفظات سے دور رکھنے کی واحد ترکیب آر ایس ایس نے یہی سوچی ہے کہ دستور میں ترمیم کرتے ہوئے تحفظات پالیسی کو ذات پات کی بنیاد پر بننے کے بجائے طبقات کی معاشی قوت کی بنیاد پر تحفظات دیئے جائیں، ایسا کرنے سے پسماندہ طبقات کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جائے گا ۔ آر ایس ایس چاہتی ہے کہ پسماندہ طبقات کے لئے مثبت امتیازی سلوک کو ختم کردیا جائے۔ دستور سازوں نے ملک کے کمزور طبقات کو ترقی دینے کی غرض اور سماج میں انھیں اونچا اُٹھانے کی نیت سے دستور میں تحفظات کی گنجائش پیدا کی ہے لیکن آر ایس ایس اپنے نظریہ کو تقویت دینے کی مہم پر گامزن ہے تو بی جے پی حکومت کی آڑ میں اپنے فیصلوں کو صادر کرنا چاہتی ہے ۔ آر جے ڈی سربراہ لالو پرساد یادو نے آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کی تحفظات پالیسی پر نظرثانی تجویز کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ تحفظات پالیسی میں تبدیلی لاکر دکھایا جائے ۔ آر ایس ایس اس ملک کے دستور اور جمہوری اصولوں کو پامال کرنے کیلئے بدنام ہے اب ایسی نظریات کی حامل تنظیم کو نریندر مودی کی قیادت میں اقتدار حاصل ہوا ہے ،اس لئے وہ دستور کی پامالی اور جمہوری اصولوں کو بالائے طاق رکھنے والی تجاویز پیش کررہی ہے مگر ملک کے سیکولر مزاج سیاستدانوں کی موجودگی میں دستوری ترمیمات کی اجازت دی جاسکے گی یہ ممکن دکھائی نہیں دیتا ۔ انتخابات کے موقع پر ہر سیاسی پارٹی کو درج فہرست اقوام ، درجہ فہرست ذاتوں اور دیگر پسماندہ طبقات کے ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔ بہار کے اسمبلی انتخابات ہر پارٹی کیلئے کڑی آزمائش والے ہیں ایسے میں آر ایس ایس نے جو شوشہ چھوڑا ہے وہ سیاسی تنازعہ پیدا کرکے ہلچل مچانے کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا ۔ آر ایس ایس کے پاس نفرت پھیلانے ، نفرت پیدا کرنے اور نفرت کو ہوا دینے کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ ایسے میںمرکز کی بی جے پی حکومت بھی اس کے اشاروں پر عمل کررہی ہے تو آنے والے دنوں میں خود اس کیلئے مسائل پیدا ہوں گے کیونکہ ملک کا سیکولر رائے دہندہ ہنوز قوی اور معتبر خیالات کا حامل شہری ہے ۔ آر ایس ایس اور بی جے پی کو وقت آنے پر سبق سکھانے والا یہی سیکولر رائے دہندہ ملک کی موجودہ حکمراں پارٹی اور اس کی نظریاتی تنظیموں کو دوبارہ موقع نہیں دے گا۔