اِن دنوں ملک کے بیشتر حصوں میں جہاں مختلف زاویوں سے مسائل درپیش ہیں، وہیں ایک مسئلہ بہت مشترک ہے؛ وہ ہے لڑکیوں و خواتین کی حفاظت و سلامتی کا۔ چونکہ ملک کے طول و عرض میں صنف ِ نازک کے خلاف تشدد یا اُسے کسی بھی طرح ہراساں کرنے کے واقعات اتنی تیزی سے رونما ہورہے ہیں کہ بالعموم سماج میں عجیب سا خوف چھا گیا ہے۔ ماں باپ، سرپرست فکرمند رہتے ہیں کہ اُن کی لڑکیاں اور متعلقین کو تعلیم، نوکری اور مختلف ضروریات کی بناء اپنے گھروں سے باہر نکلنا ہی پڑتا ہے، اور جب تک وہ واپس نہیں آجائیں مکینوں کو بڑی فکر دامن گیر رہتی ہے! اس پس منظر میں فلمساز اور مصنفہ نتاشا بدھوار کی ‘آؤٹ لُک‘ میں شائع تحریر یہاں قارئین کی نذر کی جارہی ہے، جس کا عنوان انھوں نے A Letter To My Daughters رکھا ہے۔ (ادارہ)
ناکامی کو برداشت کرنا سیکھو۔ آپ کو ناکامیاں بھی ملیں گی۔ آپ سہیلیوں سے بھی محروم ہونا پڑے گا۔ بعض اوقات تو آپ خود کو کھوئی پائیں گی۔ بعض اوقات ناکامی کی ذلت لازمی طور پر آپ کو پستی میں لے جاتی ہے۔ خود کو ایسی صورتحال کیلئے بھی تیار رکھیں۔ انصاف کیلئے ڈٹ جانا مشکل کام ہے۔ اکثروبیشتر یہ طویل جدوجہد والا عمل ہوجاتا ہے۔ یہ بلاشبہ اُس سے کہیں مشکل تر ہے کہ خود اپنے موقف کی بنیاد پر سنجیدگی کے بغیر فوری فیصلے صادر کردیئے جائیں۔ یوں لگتا ہے کہ سب کچھ ختم ہوچکا۔ مگر نہیں، ازسرنو شروعات کریں، پھر سے اُٹھ کھڑی ہوں۔ کالج کی تازہ فارغ التحصیل نے مجھ سے حالیہ ملاقات میں کہا، ’’آپ کو (شاید) اندازہ نہیں (کہ) نوجوان جہدکار برائے حقوق نسواں ہونا کس قدر مشکل امر ہے‘‘۔ میں نے اس اشارہ کو نظرانداز کرتے ہوئے کہ میں نہ نوجوان ہوں اور نا ہی جہدکار برائے حقوق نسواں، اُس سے سوال کیا کہ ایسا کیوں؟ اُس نے کہا: ’’لوگ آپ پر کڑی نظر رکھتے ہیں۔ وہ آپ کو مخصوص زمرہ میں ڈال دیتے ہیں، آپ کے تعلق سے کچھ بھی جانے بغیر مقاصد منسوب کردیتے ہیں۔‘‘ میں نے خود سے کہا کہ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمیں سب سے پہلے تحریک نسواں کی ضرورت ہے۔
تحریک نسواں مختلف مسائل کے حل کی مختصر راہ نہیں ہے۔ یہ ایسی راہ ہے کہ اس میں کافی تنوع مضمر ہے۔ ازخود شعور بیداری میں بڑے فوائد ہیں۔ کہیں کہیں معذرت خواہی اور مصالحتوں کیلئے بھی رُکنا پڑے گا۔ کہیں کہیں طویل، سنسان راہیں آئیں گی جب آپ کو تنہا چلنا پڑے گا۔ کبھی تلخ تر مواقع آئیں گے جب آپ کی عزت نفس دوسروں کے حقوق کو کچلتی چلی جائے گی اور آپ کو دکھائی نہ دے گا تاوقتیکہ اس کی آپ پر نشاندہی نہ کی جائے۔ دیگر لوگ اتنے شائستہ شاید نہ ہوں جتنا آپ ان سے توقع کریں گے۔ یہ آپ پر طمانچہ کے مترادف معلوم ہوگا۔ آپ کو پتہ چلے گا کہ کبھی ظالم بننا کتنا اطمینان بخش ہوتا ہے۔ یہ چیز آپ کیلئے بھی کس طرح طرز زندگی بن گئی؟ شخصی فروغ اور خود اپنے جائزے کے عمل کیلئے ’’حقوق نسواں کی علمبردار‘‘ کا لیبل لگالینا کوئی متبادل نہیں ہوتا۔ خود اپنے جنسی تعصب کو کھوج کر اسے ترک کردینا زندگی بھر کا کارنامہ ہوتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ جس دنیا کو ہم قریب سے جانتے ہیں، جو دنیا میں ہم ’’محفوظ وسلامت‘‘ محسوس کرتے ہیں، وہاں بنیادی طور پر ضرور تبدیلی لانا چاہئے۔ تحریک نسواں میں ہر کسی کو تبدیل ہونے کی ضرورت پڑے گی، محض وہ نہیں جن کو ہم دشمن یا ظالمین قرار دیتے ہیں۔ جب کوئی تحریک برائے آزادی بنیادی طور پر دشمن سے نفرت پر اُکساتی ہے، بجائے اس کہ نئے امکانات کھوجے جائیں، تو پھر یہ ازخود ناکام ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ بقول آنجہانی فلسفی۔ ماہر تعلیم پالو فریئر، ’’مذاکرات اس دنیا اور خواتین اور مردوں کیلئے گہری محبت کے فقدان میں نہیں ہوسکتے ہیں۔ محبت بہ یک وقت بات چیت کی بنیاد اور خود بات چیت ہے‘‘۔
خواتین کے مابین اتحاد اور بات چیت ضروری بنیاد ہے۔ یگانگت اور بہنوں جیسا برتاؤ کے خیال کو ترک کردینا ہم تمام کو کمزور اور ختم کردیتا ہے۔ امریکی جہدکار بیل ہوکس نے اپنی کتاب Feminist Theory: From Margin to the Center میں لکھتی ہے، ’’علحدگی پسند نظریہ ہمیں ایسا ماننے پر اُکساتا ہے کہ تنہا خواتین تحریک نسواں کا انقلاب لاسکتی ہیں … ہم ایسا نہیں کرسکتے۔ چونکہ مرد لوگ ہی بنیادی کارندے ہوتے ہیں جو جنسی تعصب اور جنسی تعصب کے سبب ظلم کو برقرار رکھتے اور اس کی تائید کرتے ہیں، اس لئے ایسے عناصر کو کامیابی سے اُسی وقت ختم کیا جاسکتا ہے بشرطیکہ مرد لوگوں کو اپنے ضمیر اور مجموعی طور پر سماج کے ضمیر کو بدلنے کی ذمے داری نبھانے پر مجبور کیا جائے‘‘۔
دھیرے دھیرے اور بتدریج آگے بڑھنے کیلئے تیار رہیں۔ کبھی کبھی بہت تیز چلنے کیلئے بھی تیار رہیں۔ کبھی ایسا وقت ہوتا کہ فوری مدد اور عاجلانہ مداخلت درکار ہوتی ہے، اور کبھی دھیمے عمل کی ضرورت پڑتی ہے۔ تحریک نسواں اگر متقاطع نہیں تو پھر کچھ بھی نہیں ۔ آپ اور میرے حقوق بمقامِ کار اور بمکان اتنے ہی اہم ہیں جتنے ہمارے پاس کام کرنے والی خادماؤں کے حقوق ہوتے ہیں۔ اُن کا کام کا مقام ہمارا مکان ہوتا ہے۔ جو کچھ بھی میں میرے مقامِ کار اور گھر سے حاصل ہونے کی توقع رکھتی ہوں، وہ خادمائیں بھی اسی طرح کے حقوق کی مستحق ہوتی ہیں۔ چند بنیادی حقوق کا نام لیتی ہوں: تنخواہ ؍ اُجرت کے ساتھ رخصت برائے زچگی، ترقیاں، تنخواہ؍ اُجرت میں اضافہ، مقامِ کار پر وقفے، چھٹیاں، کام سے چھٹی کے ایام، طبی فوائد۔
بعض خواتین کے نقطہ نظر سے تحریک نسواں کا مطلب کام کیلئے گھروں سے باہر نکلنا اور گھر سے باہر کی دنیا میں سفر کرنا ہوگا۔ بعض دیگر کیلئے یہ تو اپنی فیملیوں کے ساتھ اور گھر پر زیادہ سے زیادہ وقت گزارنے کا معاملہ رہے گا۔ ہر کوئی خود اپنے تناظر کے ساتھ جیتی ہے اور کوئی بھی سرگرم جہدکار برائے حقوق نسواں ایک جج کی طرح اپنے رول کے معاملے غلط فہمی کا شکار نہیں ہوتی ہے۔ تحریک نسواں آپ کا ضمیر ہے۔ یہ آپ کو اپنے شعور میں انقلاب لانا سکھائے گا۔ تبدیلی پیچیدہ عمل ہے جو ہر قدم پر کچھ نہ کچھ سکھاتی ہے۔ دوبارہ جانچ اور کچھ غمناک صورتحال کا سامنا کرنے کیلئے کھلا ذہن رکھیں۔ ایسے احساس میں مبتلا نہ ہوں کہ الجھن اور پیچیدگیوں کو غصہ اور اشتعال سے بدلنے پر مجبور ہوجایا کریں۔ غصہ اپنا کام ضرور کرتا ہے لیکن یہ زہرآلود اور آلودہ بھی ہوتا ہے۔ اس سے واضح نظری کے ساتھ نمٹنے کی ضرورت ہے۔ خودآگاہی کے ساتھ! غصے سے کہیں آگے بڑھیں۔ یہ تو میں نے خود تم سے سیکھا ہے۔ غصہ ایسا مرحلہ ہے جو مختصر لازمی مرحلہ ہوتا ہے۔ یہ گمراہ کن طور پر ہمیں ایسی سوچ باور کراتا ہے کہ ہمارے موقف کا برملا اظہار کردینا یوں ہے کہ ہم نے ہمارا کام کردیا۔ حقیقی کام اور رول تو تب شروع ہوتا ہے جب آپ اپنے غصے کو عملی اقدام تک لیجاتے ہو۔ غصہ آپ کو مظلومہ کے جال میں پھنساتا ہے۔ سوشل میڈیا نے صحیح اور غلط کی ہماری فطری حس کو ماند کرڈالا ہے۔ ہم اس کی آسان پھسلاہٹ کا شکار نہیں ہونا چاہئے۔
آپ کے پاس پہلے ہی سابقہ نسلوں کے مقابل بہتر ہنرمندی ہے۔ خود کو سماج میں ڈھالنے اور اس سے ہم آہنگ کرنے میں احتیاط سے کام لیں۔ آپ جان لیں کہ آپ یہاں تمام دیگر کو خوش کرنے کیلئے نہیں نہیں آئے ہو۔ دوسروں کا مذاق اُڑانا بھی وقت گزاری کا مشغلہ نہ بنائیں۔ آپ کی زندگی میں کئی مرحلے آئیں گے جب اندرون سسٹم اقتدار کا توازن آپ کے حق میں رہے گا۔ وہی آپ کی تحریک نسواں کی آزمائش والا مرحلہ ہوگا۔ کیا آپ جن کو سزا اور نقصان پہنچا سکتی ہو ایسا کریں گی، یا آپ عمومی انتقام کی آسان اُکساہٹ کے خلاف مزاحمت کریں گی؟ سوجھ بوجھ کی حکمت عملی اختیار کیا کریں، جیسا کہ آپ اکثروبیشتر مجھے یاد دلاتے ہو۔ آخر کو وہ بچے (اولاد) ہی ہوتے ہیں جو ہماری بنائی ہوئی پیچیدگیوں کو آسان کردیتے ہیں۔ آپ انصاف چاہتے ہو، نہ کہ انتقام۔ آپ کے چہرے مجھے بتادیتے ہیں کہ جب میں میرے غصے اور میری مایوسی میں گمراہ ہوئی تو میرے سیدھی راہ سے ہٹ گئی۔
جب آپ بھروسہ کھوکر ترش رَو اور برہم بننے لگیں، جب آپ کو محسوس ہونے لگے کہ تعلق خاطر اور خود سے محبت کے آپ کے سارے جذبات ہوا ہونے لگے ہیں، تو پھر مطالعہ کی طرف لوٹ آئیں۔ اپنے شدتِ احساس کو ہلکا کریں۔ خود کی نگہداشت نظریۂ تحریک نسواں کا لازمی جز ہے۔ حقوق نسواں کی علمبرداروں کو دیکھیں اور اُن کے تعلق سے پڑھیں۔ صرف اُن کو نہ پڑھیں جنھوں نے کتب لکھ دیئے۔ (بلکہ) ایسی خواتین کے بارے میں جانیں جنھوں نے آپ کیلئے راہ قائم کی ہے۔ تحریک نسواں اُبھرتا نظریہ ہے، جس پر لازمی طور پر ہمیں تنقید بھی کرنا ہے، سوال بھی اُٹھانا ہے، اس کی ازسرنو جانچ بھی کرنا ہے، اور اس تعلق سے نئے نئے امکانات کھوجنا بھی ہے۔ اُتنا ہی سننے کی بھی عادت ڈالیں جتنا آپ بولتے ہو۔ ہر کسی سے کچھ نہ کچھ سیکھنے کو ملتا ہے وہ سیکھیں۔ تب کہیں تحریک نسواں کو کامیابی ملنے لگے گی۔