تحریک برائے تحفظ اقلیتی کردار … اے ایم یو

کے این واصف
ریاض کی سماجی تنظیم ’’بسواس‘‘ نے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی بحالی کیلئے مختلف سماجی کارکنان کے تعاون سے ’’تحریک برائے اقلیتی کردار علیگڑھ مسلم یونیورسٹی “STAND WITH AMU” کا آغاز کیا۔ اس کا پہلا عام اجلاس ہفتہ کو منعقد ہوا جس میں ریاض کی تنظیموں کے نمائندوں کے علاوہ انڈین کمیونٹی کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ اجلاس کی صدارت سینئر علیگ انجنیئر طارق مسعود نے کی۔ نظامت کے فرائض بسواس (Biswas) کے جنرل سکریٹری اخترالاسلام صدیقی نے انجام دیئے۔ شبیر احمد ندوی کی قرات کلام پاک کے بعد بسواس کے صدر ڈاکٹر مختار خاں نے خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس پلاٹ فارم کے ذریعہ اپنی بات ہندوستان کے ارباب مجاز اور ایوانان اقتدار تک پہنچانا چاہتے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ ملت کے تمام درد مند حضرات اس تحریک سے جڑیں۔
اس موقع پرریاض میں انڈیا اسلامک سنٹر نئی دہلی کے کنوینر مرشد کمال نے کہا کہ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی ہمیشہ دشمنانِ ملت کے نشانہ پر رہی ہے ۔ مسلمانوں کی قائم کردہ اور پروان چڑھائی اس درسگاہ کی حفاظت ہماری ملی و اخلاقی ذمہ داری ہے۔ یہ جامعہ ہمارا ملی ورثہ اور ہماری تہذیب کا حصہ ہے۔ مرشد کمال نے کہاکہ ساری دنیا میں پھیلے غیرمقیم ہندوستانیوں کے تعاون سے ہم اس تحریک کو بین الاقوامی سطح کی تحریک بنائیں گے۔

تنظیم ہم ہندوستانی کے صدر محمد قیصر نے کہا کہ ہندوستان کا دستور ملک کے تمام طبقات کے ساتھ عدل وانصاف کی ضمانت دیتا ہے ۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ہندوستان کی اقلیتوں خصوصا ً مسلم اقلیتی طبقہ کو اپنے حقوق کیلئے جدوجہد کرنی پڑ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان کا برسر اقتدار و بااختیار طبقہ ملک کے مسلمانوں کے تشخص کو مٹانے ، انہیں سماجی ، تعلیمی اور معاشی طور پر کمزور کرنا چاہتا ہے۔ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو ختم کرنے کا عمل اسی سازش کا حصہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ حیدرآباد میں اس وقت کے حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عثمانیہ یونیورسٹی کی تہذیب و تشخص کو یکلخت مٹادیا گیا ۔ قیصر نے کہا کہ علیگڑھ کے تشخص کی بقاء کیلئے ہم کو ایک طاقتور عملی جدوجہد کرنی چاہئے ۔ ملک میں سب کو برابر کے حقوق حاصل ہیں ۔ مسلم تعلیمی اداروں کو ملک کے دیگر تعلیمی درس گاہوں کے برابر حقوق حاصل ہونے چاہئیں۔ ملک میں عصبیت ، طبقاتی امتیاز جو انگریزوں نے شروع کی تھی اس سلسلہ کے آج آر ایس ایس آگے بڑھا رہی ہے ۔ انہوں نے تحریک کے ایک مؤثر لائحہ عمل کی تیاری پر زور دیا ۔
صدر علیگڑھ مسلم یونیورسٹی اولڈ بوائز اسوسی ایشن (اموبا) انجنیئر سہیل احمد نے کہا کہ علیگڑھ یونیورسٹی کے ساتھ ناانصافی کا عمل ملک کے دستور کے ساتھ چھیڑ چھاڑ ہے اور ایسا کرنے والے ملک دشمن ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم کو اپنے نظریاتی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر علیگڑھ کے اقلیتی کردار کے بحالی کی جدوجہد کرنی چاہئے ۔ سہیل نے کہا کہ انتہا پسند طاقتیں ملک کے سیکولر مزاج کو بدلنے کی کوشش کررہی ہیں۔

معروف صحافی محمد غضنفر علی خاں (روزنامہ عرب نیوز) نے کہا کہ آج جو کچھ ملک میں ہورہا ہے وہ ناگپور (آر ایس ایس کا ہیڈکوارٹر) میں لکھی گئی اسکرپٹ کے مطابق ہورہا ہے۔ ہمیں ملک کے سیکولر ذہین افراد کو جگانا اور ملک کے سیکولر کردار کو بچاناہے ۔انہوں نے کہا کہ مسائل نہ جذباتی نعروں سے حل ہوتے ہیں ،’ نہ جوشیلی تقریریں ہماری مشکلوں کامداوا ہوسکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بے شک ہندوستانی مسلمانوں کی ا کثریت تعلیمی اور معاشی طور پر پسماندہ ہیں۔ مگر اب بھی ملک میں ایک قابل لحاظ تعداد ایسے مسلمانوں کی ہے جن کی آواز ہے ، جن کی پہنچ ایوان اقتدار تک ہے، جن کی ملک اور ملک سے باہر ایک حیثیت ہے ۔ ایسی شخصیات کو چاہئے کہ وہ ایک ایسا پریشر گروپ تشکیل دیں اور متحدہ طور پر اپنے مسائل کی نمائندگی کریں۔ انہوں نے کہا کہ خلیجی ممالک جہاں تقریباً ایک کروڑ ہندوستانی باشندے برسرکار ہیں۔ ہندوستان کے ساتھ ان ممالک کے گہرے تجارتی تعلقات اور مستحکم دوستانہ رشتے ہیں جس کا ہندوستانی معیشت پر بڑا مثبت اثر ہے ۔نیز عالمی سطح کے مسلم ادارے جن سے ہندوستان راست یا بالواسطہ طریقہ سے مستفید بھی ہوتا ہے۔ ہمارا پریشر گروپ ان تمام کا اثر و رسوخ استعمال کرسکتا ہے ۔ چاہے وہ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کا انفرادی معاملہ ہو یا ہندوستانی مسلمانوں کے عمومی مسائل۔
اخترالاسلام صدیقی نے کہا کہ ہمیں علیگڑھ کے مسئلہ کو بہت سنجیدگی سے لینا چاہئے۔ تحریک برائے تحفظ اقلیتی کردار علیگڑھ یونیورسٹی کامیاب بنانے کی کوششوں میں ہمیں کوئی دقیقہ فرد گزاشت نہیں چھوڑنا چاہئے ۔ ہمیں کسی قیمت پر اپنی جامعہ کو ہاتھ سے نکلنے نہیں دینا چاہئے ، اس کیلئے ہمیں جان کی بازی ہی کیوں نہ لگانی پڑے۔ اس ادارے کے اقلیتی کردار کو بحال کرنا حکومت کا فرض اور مسلمانوں کا حق ہے۔ علیگڑھ یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی بحالی میں ملک کی بھلائی اور ملک کے دستور کا وقار قائم رہے گا۔ سابق صدر اموبا ڈاکٹر مصباح العارفین نے ایک پر مغز اور تحقیقی مقالہ پیش کیا جس میں 18 ویں صدی سے آج کی علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کی تاریخ پیش کی اور اس مسلم تعلیمی ادارے کے قیام کی ضرورت اور اہمیت وغیرہ پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ ڈاکٹر مصباح نے 1950 ء کے بعد سے علیگڑھ یونیورسٹی کے ساتھ کی گئی ناانصافیاں، اس کے اقلیتی کردار کو ختم کرنے میں کی گئی سازشوں کی تفصیل بھی پیش کی ۔
اجلاس کے صدر انجنیئر طارق مسعود نے کہا کہ ہمیں مکمل فہم و فراست سے کام لیتے ہوئے تحریک کا بیڑا اٹھانا چاہئے ۔ تحریکوں کی کامیابی جوش میں نہیں ہوش میں مضمر ہوتی ہیں۔ طارق مسعود نے اپنے پیش رو مقررین کی پیش کردہ تجاویز جیسے پریشر گروپ کی تشکیل اور تحریک کا مؤثر لائحہ عمل تیار کرنے کی تجاویز کی پرزور تائید کی۔ انہوں نے کہا کہ بطور انفرادی شخص یا بحیثیت تنظیم ہمیں اپنا محاسبہ کرنا چاہئے کہ ہم اپنے ارادوں میں کس قدر مستحکم اور ثابت قدم ہیں۔ اس اجلاس سے صدر جامعہ ملیہ اسلامیہ المنائی اسوسی ایشن کے صدر انیس الرحمن کے علاوہ مرغوب الرحمن ، ذاکر احمد اعظزی ، شبیر احمد ندوی نے بھی خطاب کیا۔ آخر میں مرشد کمال نے 20 فعال سماجی کارکنان پر مشتمل ایک ا سٹیرنگ کمیٹی کا اعلان کیا۔
بہرحال ہندوستان میں اقلیتوں اور ہندوؤں کے پسماندہ طبقات کے ساتھ ناانصافی ان کو دبانے کچلنے کی کوششیں یہ سب کچھ خود ساختہ اعلیٰ ذات طبقہ کے منصوبوں کا حصہ ہیں ۔ مگر ان ناگفتہ بہ حالات میں ملک کی مسلم اقلیت جس میں ہمیشہ سے اتحاد و یکجہتی کا فقدان رہا ہے ، اب چھوٹے چھوٹے نظریات اختلافات کے تحت اپنے کو مزید ٹکڑوں میں تقسیم کر کے دشمنان ملت کے کام کو آسان بنا رہے ہیں۔ کہا تو یہ بھی جارہا ہے کہ مختلف عقائد کے علماء آر ایس ایس سے بڑی بڑی رقم حاصل کر کے مسلمانوں میں عقائد کی بنیاد پر بنے گروپس کے درمیان فاصلے بڑھانے کا کام کر رہے ہیں ۔ مسجدیں تقسیم ہورہی ہیں ۔ ایک عقیدے کے علماء دوسرے عقیدے کے افراد کو مساجد میں داخلے پرپابندی لگانے کیلئے فتوے تک جاری کر رہے ہیں۔

ایک طرف ملک سے باہر غیر مقیم ہندوستانی متحدہ طور پر جدوجہد کر کے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو بحال کرانے کی کوششیں کر رہے ہیں اور وہیں ملک میں یونیورسٹی طلباء میں عدم اتحاد اور نااتفاقی اتنی بڑھ رہی ہے کہ مختلف گروپس آپس میں قتل و خون کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں۔ یعنی علیگڑھ کے طلباء ان لوگوں کیلئے جو علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کو نقصان پہنچانے کے در پر ہیں ، ان کیلئے راہ ہموار کر رہے ہیں۔ شاید ہمیں اب دشمنوں کے ناپاک ارادوں کا شمار کرنے سے زیادہ اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔