محمد مصطفی علی سروری
ویلکی چرلہ محبوب نگر کا ایک گا ؤں ہے ۔ اس گاؤں کی ایک 17 سالہ لڑکی جی مہیشوری ہے جس کے والدین یومیہ اجرت پر مزدوری کا کام کرتے ہیں۔ مہیشوری بھی اپنے والدین کے ساتھ کام پر چلی جاتی تھی لیکن اُس کو پڑھائی میں بھی دلچسپی تھی اور اس نے گھر کے کام کاج سے بھی دل نہیں چرایا۔ گھر کا ہی نہیں بلکہ جب اس کے ماں باپ نے اس کو دوسروں کے گھر میں نوکرانی کا کام کرنے کو کہا تھا ، تب بھی مہیشوری نے والدین کو نہ نہیں کہا ۔ گھر کے علاوہ مہیشوری دوسرے چار گھروں میں کام کرنے لگی تھی اور کام پر جانے کیلئے اس کو 25 کیلو میٹر کا فاصلہ طئے کرنا پڑتا تھا ۔ گھر کے کام کاج پھر چار اور لوگوں کے گھروں میں کام اس کے بعد کالج جانا مہیشوری کا معمول بن گیا تھا ۔ ان سارے کاموں کو وقت پر انجام دینے کیلئے مہیشوری کو تیز تیز چلنا پڑتا تھا بلکہ دوڑنا پڑتا تھا لیکن دوڑنے کیلئے جوتا تو دور مہیشوری کے پاؤں میں چپل تک نہیں تھی لیکن مہیشوری نے کبھی بھی ہمت نہیں ہاری۔ ننگے پاؤں دوڑتے دوڑتے وہ تھک جاتی تھی لیکن اسنے اپنے کام کاج کو نہیں روکا۔ ایک دن مہیشوری کے گورنمنٹ جونیئر کالج کے پی ٹی ٹیچر نے اس کو دوڑتے دیکھا تو اس کو ترغیب دی کہ تم دوڑنے کے مقابلوں میں کیوں حصہ نہیں لیتی ؟ کالج کے پی ٹی سر کی ترغیب اور ایوارڈ یافتہ رمیش کی صرف 6 مہینوں کی ٹریننگ کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب 14 جنوری 2018 ء کو گوا میں 52 ویں نیشنل چمپین شپ کے مقابلے منعقد ہوئے تو محبوب نگر کی جی مہیشوری نے لڑکیوں کے زمرے میں چاندی کا تمغہ (سلور میڈل) جیتا۔ مہیشوری نے اپنے والدین کی محنت کو دیکھ کر خود بھی محنت کرنا سیکھا ۔ والدین نے چار گھروں میں کام پر رکھوایا تو ان کو نہ نہیں بولا۔ تعلیم سے شوق تھا تو اپنے شوق کو بھی نہیں چھوڑا۔ دوڑنا مجبوری تھی تو دوڑ لگاتی رہی ۔ پاؤں میں جوتا تو دور چپل تک نہیں تھی تو شکوہ شکایت نہیں کی ۔ پاؤں درد ہوتے تھے ، درد کو برداشت کرتی رہی اور جب گوا میں منعقدہ دوڑ کے مقابلوں میں سلور میڈل ملا تو اس کے بعد اپنی تربیت کرنے والے ٹیچرس کا شکریہ ادا کیا اور ساتھ ہی اپنے دل کی بات کردی کہ مجھے بڑی خوشی ہوتی اگر کوئی مجھے اچھی نوکری دلاتا تاکہ میں اپنے والدین کی مدد کرسکوں۔ ( بحوالہ اخبار تلنگانہ ٹوڈے 17 جنوری 2018 ئ)
21 جنوری 2018 ء کو الیکشن کمیشن آف انڈیا نے عاپ (عام آدمی پارٹی) کے 20 ایم ایل ایز کو نفع بخش عہدوں پر فائز رہنے کے الزام میں ان کی اسمبلی کی رکنیت کو برخواست کردیا ۔ جی ہاں ایم ایل اے چاہے کسی بھی پارٹی سے تعلق رکھتا ہو، اس کے متعلق عوام میں یہ بات عمومی طور پر تسلیم کرلی جاتی ہے کہ اگر کوئی ایک مرتبہ ایم ایل اے بن جائے تو بس اس کے خاندان کیلئے پیسہ ہی پیسہ اور انہیں محنت کرنے اور پیسہ کمانے کیلئے پسینہ بہانے کی ضرورت نہیں لیکن دہلی اسمبلی میں جنگ پورہ حلقہ کی نمائندگی کرنے والے عاپ کے ایم ایل اے پروین کمار کی کہانی بالکل ہی الگ ہے۔
پروین کمار نے برکت اللہ یونیورسٹی سے ایم بی اے کی تعلیم حاصل کی ہے اور اس کے والد 57 سال کے دیش مکھ مدھیہ پردیش کے شہر بھوپال میں گاڑیوں کے پنکچر بنانے کا کام کرتے ہیں۔ اخبار ہندوستان ٹائمز کے مطابق ایم ایل اے کے والد دیش مکھ کی ٹائروں کے پنکچرس بنانے کی دکان ہے۔ جہاں پر وہ صبح سے لیکر شام تک لوگوں کی گاڑیوں کے ٹائرس کی مرمت کا کام کرتے ہیں ہندوستان ٹائمز سے بات کرتے ہوئے ایم ایل اے کے والد نے فخریہ طور پر بتلایا کہ میرا بیٹا ایم ایل اے بننے کے بعد بھی اپنے دوستوں کے ساتھ دہلی میں ایک کرایہ کے فلیٹ میں رہتا ہے۔ اس کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے، مجھے خوشی ہے کہ وہ سادگی سے زندگی گزار رہا ہے اور دہلی کے لوگوں کی خدمات انجام دے رہا ہے۔ اگر میرا لڑکا صرف منافع ہی کمانا چاہتا تھا تو کمپنی کی نوکری نہیں چھوڑتا جہاں پر وہ ریجنل مینجر کے طور پر کام کررہا تھا ۔ ایم ایل اے کے والد نے مزید کہا کہ اگر ان کے لڑکے کی اسمبلی رکنیت ختم بھی ہوجائے تو لوگوں کی خدمت کرنے سے اس کو کوئی نہیں روک سکتا ہے۔ (بحوالہ ہندوستان ٹائمز 17 جون 2016 ئ)
مہیشوری ہو یا پروین کمار یہ لوگ ہماری دنیا میں رہتے ہیں۔ بلکہ ہمارے سماج اور ہما رے ملک سے ہی ان کا تعلق ہے اور ان کے مسائل بھی ہماری ہی طرح ہیں۔ غربت دونوں کا مشترکہ مسئلہ ہے۔ مہیشوری نے حالات کی کبھی شکایت نہیں کی۔ تعلیم کے ساتھ ایک دو نہیں چار چار گھروں میں کام کیا۔ کام پر جانے کیلئے 25 کیلو میٹر دور جانا پڑتا تھا لیکن مہیشوری نے اپنے قدم پیچھے نہیں ہٹایا۔ پاؤں میں چپل نہیں ہونے کا بہانہ بھی نہیں بنایا اور آج جب اس کو ہاسٹل میں رہنے کی سہولت ملی اور دوڑنے کیلئے تربیت دی جارہی ہے تو تب بھی اس کی ایک ہی فکر ہیکہ وہ اپنے ماں باپ کی مدد کرسکے اس لئے تو وہ کہتی ہے کہ اگر کوئی نوکری ہو تو وہ کرنا چاہتی ہے تاکہ اپنے ماں باپ کی مدد کرسکے ۔ دوسری جانب 57 سال کے ایم ایل اے کے والد آج بھی اپنے گزارے کیلئے گاڑیوں کے ٹائیر مرمت کر کے پیسے کماتے ہیں اور اپنی محنت پر فخر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میرے بیٹے کی سادہ زندگی پر مجھے خوشی ہے اور اگر اس کی ایم ایل اے کی رکنیت چلی بھی چائے تو عوام کی خدمت کرنے سے اس کو کوئی نہیں روک سکتا ۔ اب قارئین کرام میں آپ حضرات کی توجہ گزشتہ سال کی ایک خبر پر مبذول کروانا چاہتا ہوں۔ یہ کسی ایک فرد کی انفرادی خرابی کی نشاندہی نہیں ہے بلکہ بحیثیت مجموعی مسلمانوں میں پھیلنے والی خراب اور بری سوچ کی نشاندہی ہے۔
فروری 2017 ء میں انڈین پریمیئر لیگ آئی پی ایل کیلئے کھلاڑیوں کوہراج کیا گیا تو حیدرآباد کے محمد سراج کو 2.6 کروڑ کی بولی میں سن رائزر کی ٹیم نے خرید لیا۔ جس دن سے سراج کے آئی پی ایل میں سلیکشن کی خبر آئی اس کے دوسرے دن سے اس کے والد نے آٹو چلانا بند کردیا۔ (بحوالہ اخبار ہندوستان ٹائمز 16 مئی 2017 ء شالینی گپتا کی رپورٹ) سراج کے والد محمد غوث کی عمر 48 برس بتلائی گئی ہے جو آٹو چلاکر ہر ماہ 6 تا 10 ہزار کماتے تھے۔
20 جنوری 2018 ء کو اخبار ہندوستان ٹائمز نے ایک پان والے کی اسٹوری شائع کی جس کے مطابق ہندوستان کی آزادی کے بعد پاکستان کے علاقے سندھ سے بھگوان داس نام کا ایک شخص نقل مقام کر کے ہندوستان آتا ہے اور یہاں پر قلی کا کام کرتا ہے اور پکوڑے تل کر فروخت کرتا ہے ۔ جب اس سے کام نہیں بنتا تو فٹ پاتھ پر ہی پان شاپ کھول کر چلانے لگے۔ بھگوان داس نے پان بیچ کر اتنے پیسے جمع کرلئے کہ جس فٹ پاتھ پر وہ پان بیچا کرتے تھے اس روڈ پر ایک اپنی پان شاپ کھول لی۔ بھگوان داس تو آج اس دنیا میں نہیں ہے لیکن ان کے بیٹے کی پان کی دکان دہلی میں کتنی مشہور ہے اس کا اندازہ دکان میں لگی تصاویر سے لگایا جاسکتا ہے ۔ ایک تصویر میں سری دیوی تو دوسری تصویر میں شاہ رخ ، اکشئے کمار ، یہاں تک کہ لتا منگیشکر نے بھی اس دکان کا پان بھی کھایا اور مالک دکان کے ساتھ تصویر بھی کھنچوائی ۔ آج دکان کے مالک بھگوان داس کے بیٹے یش ٹیکوانی ہے وہ کہتے ہیں کہ امبانی فیملی اور بچن ہی نہیں کپور خاندان اور دہلی کی ہر بڑی فیملی انہی کی دکان سے پان خریدتی ہے ۔ ان کے مطابق پان صرف ہونٹوں کو لال کرنے کیلئے نہیں ہے جیسا کہ عام طور پر سمجھا جارہا ہے ۔ پان دراصل خوشبو اور منہ کی تازگی بڑھانے کا کام کرتا ہے۔ آج اس پرنس پان کارنر پر دو درجن انواع و اقسام کے پان فروخت ہوتے ہیں ، جن کی قیمتیں 30 روپئے سے لیکر 1100 روپئے تک ہے ۔ اس رپورٹ کا سب سے اہم نکتہ کہ یش ٹیکوانی کے بیٹے پر ٹیک ٹیکوانی کے متعلق ہے ۔ اب بھگوان داس کی دوسری نسل اس پان کی دکان کو سنبھالنے جارہی ہے اور خاص بات یہ ہے کہ یش ٹیکوانی نے اپنے بیٹے کو ایم بی اے کی اعلیٰ تعلیم لندن میں دلوائی اور لندن سے واپسی کے بعدپرٹیک ٹیکوانی نے اپنے والد کے کاروبار کو سنبھال لیا ہے ۔ اخبار ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق پان والوں کی اس فیملی کی امیری کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے جس کمرے میں پرٹیک کا انٹرویو لیا جارہا تھا وہاں پر کرسیوں سے لیکر صوفے تک اور دیوار پر لگے بڑے بڑے آئینوں کو سونے اور چاندی کا پانی چڑھا ہوا تھا ۔ بڑے اعتماد کے ساتھ پرنس پان کارنر کا یہ نوجوان مالک کہتا ہے کہ میں اپنے پان کے برانڈ کو میکڈونالڈ کی طرح عالمی برانڈ بنانے کیلئے کوشاں ہوں۔ یہ تو اوروں کی بات ہے ۔ ہم کہاں ہیں ؟ ہمارے ہاں تو محنت کو ہی معیوب بنادیا گیا ہے ۔ اب چاہے کوئی کچھ بولے لیکن شریعت محمدیؐ کی ر وشنی میں نہ تو آٹو چلانا حرام ہے اور نہ ہی پنکچر بنانا خراب کام ہے ۔ شریعت میں تو پان فروخت کرنے کی بھی ممانعت نہیں ہے ۔ نہ بال کاٹنے کا کام کرنا حرام ہے ۔ نہ گوشت کاٹنا اور بیچنا حرام ہے ۔ نہ تو کپڑے دھونے کے کام سے منع کیا گیا اور نہ لوگوں کے گھروں تک دودھ اور اخبار پہونچانے کے کام سے ممانعت آئی ہے لیکن ہم مسلمانوں نے اپنے آپ کو شمع محمدیؐ کے پروانے ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے ان سبھی پیشوں کو ایسا بناکر رکھ دیا کہ ان سے جڑے کسی فرد کو عزت دینے ، رشتہ کرنے اور تو اور اپنے میں سے ہی ماننا چھوڑدیا اور نتیجہ یہ کہ ہمارے نوجوان چوری اور ہر طرح کی غیر اخلاقی و غیر قانونی کاموں میں ملوث ہورہے اور اگر کہیں سے راہ فراری اختیار کر رہے ہیں تو وہ میدان ہے محنت کا اور تعلیم کا ، جدوجہد کا، ہر ایک کو شارٹ کٹ کی تلاش ہے ۔ پسینہ بہانے کو کمزوروں کی علامت بنادیا گیا ہے ۔ اللہ رب العزت ہم سبھی کو نیک توفیق عطا فرمائے اور ہر طرح کے شرور سے ہماری حفاظت فرمائے ۔ ہمارے مساجد کے خطبوں کو امت کیلئے فائدہ مند بنادے آمین ۔
sarwari829@yahoo.com