تباہی و بربادی کے شعبہ میں زبردست ترقی !

مودی جی ہیلتھ انشورنس کی بات کر رہے ہیں جبکہ لوگ ملک میں بھوک کے باعث تڑپ تڑپ کر مر رہے ہیں۔ فرقہ پرستی کا حال یہ ہے کہ کب کیا ہوجائے پتہ نہیں اس لئے ہیلتھ انشورنس کے بجائے فرقہ پرست حملوں کے خلاف انشورنس اسکیم شروع کی جائے جس سے نہ صرف فرقہ پرستوں کے حوصلے پست ہوں گے بلکہ ان کے نشانہ بننے والوں کو مالی راحت بھی نصیب ہوگی۔

محمد ریاض احمد
وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی پارٹی بی جے پی کے ساتھ ساتھ اس کی سرپرست آر ایس ایس نے 2019 کے عام انتخابات میں کامیابی کے لئے جان توڑ کوششیں شروع کردی ہیں۔ 2014 کے عام انتخابات میں مودی جی کی قیادت میں بی جے پی کی کامیابی نے حیرت کی لہر دوڑا دی تھی۔ صرف 33 فیصد ووٹ حاصل کرتے ہوئے انہوں نے حکومت بنائی اور 4 برسوں سے مودی جی کے مخالفین کے بقول ملک میں فرقہ پرستی، خواتین پر جنسی حملوں، گاوکشی اور جانوروں کے نام پر اقلیتوں کا قتل، دانشوروں اور معقولیت پسندوں پر جان لیوا حملے اور ان کے بہیمانہ قتل، قومی بینکوں کو اربوں روپیوں کا دھوکہ دے کر صنعت کاروں کی راہ فراری اور معاشی اسکامس کے شبعوں میں زبردست ترقی ہوئی ہے اس کے برعکس روزگار، تعلیم، صحت، کاروبار جیسے شعبوں میں معاملات ٹھپ ہوکر رہ گئے۔ اگر مخالفین مودی کے ان بیانات پر غور کیا جائے تو ان کے بیانات میں سچائی بھی نظر آتی ہے کیونکہ پچھلے چار برسوں سے ہندوستان بھر میں صرف فرقہ پرستی کو فروغ حاصل ہوا ہے۔ ملک کے مختلف مقامات پر اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں اور عیسائیوں کو نشانہ بنایا گیا۔ مساجد اور گرجا گھروں پر حملے کئے گئے۔ بچارے دلتوں پر ظلم و بربریت کرتے ہوئے درندگی کی بدترین مثالیں پیش کی گئیں۔ صرف ہندو، مسلم ، ہندو ، مسلم کا راگ الاپا گیا۔ قومی ترقی کو یکدم نظرانداز کردیا گیا جس کا خمیازہ آنے والے برسوں میں ملک کی نئی نسل کو بھگتنا پڑے گا۔ اگر دیکھا جائے تو خارجی سطح پر بھی ہماری پالیسی بالکل ناکام رہی۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے ساتھ مودی جی نے دوستانہ تعلقات بڑھائے لیکن اس دوستی نے کچھ کام نہیں کیا بلکہ اب ٹرمپ خود ہمارے ملک کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔ ہندوستان کو انہوں نے چین جیسے دشمن ممالک کی فہرست میں شامل کرلیا۔ حد تو یہ ہے کہ ٹرمپ ہندوستانی حکومت کو ایران سے تیل کی درآمدات ختم کرنے کا حکم دے رہے ہیں جیسے وہ ہمارے ملک کے مالک ہوں۔ اگر مودی حکومت کی یہی روش مزید ایک سال تک باقی رہتی ہے تو ہندوستان کا خدا ہی حافظ ہے۔ مودی جی کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہندوستان ایک عظیم ملک ہے جس میں دنیا کی قیادت کی تمام خوبیاں موجود ہیں۔ ہندوستانی تہذیب نے دنیا کو بہت کچھ دیا جس میں خود امریکہ بھی شامل ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ امریکہ کی تقدیر سنوارنے میں ہندوستانی ماہرین کا اہم رول ہے، تبھی تو امریکہ میں مقیم ہندوستانی باشندوں کو امریکہ کا اثاثہ کہا جاتا ہے۔ ایسے میں ڈونالڈ ٹرمپ ہندوستان کو کسی بھی دوسرے ملک سے معاملت کرنے یا نہ کرنے کا حکم دینے والے کون ہوتے ہیں؟ یہ سوال اب ہر ہندوستانی کے ذہن میں گردش کررہا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ مودی ٹرمپ کا حکم مانیں، لیکن ہم غیور ہندوستانی ٹرمپ کے حکم کی تعمیل کے پابند نہیں۔ بہرحال مودی جی کی جب بات نکل ہی آئی تو آپ کو بتادیں کہ عام انتخابات کو ذہن میں رکھتے ہوئے نریندر مودی نے 50 کروڑ ہندوستانیوں کو ہیلتھ انشورنس فراہم کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا۔ مودی کا یہ منصوبہ سابق امریکی صدر بارک اوباما کے شروع کردہ اوباما ہیلتھ کیئر کی طرح ہی ہوگا۔ ماہرین کے خیال میں ہندوستان کو ہیلتھ انشورنس کی نہیں بلکہ شعبہ صحت کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ صحت کا ایسا نظام ملک میں بنایا جانا چاہئے جس سے عام آدمی کو فائدہ پہنچ سکے۔ بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے وطن عزیز میں بڑی تیزی کے ساتھ کارپوریٹ اسپتالوں کا جال پھیل رہا ہے جہاں غریب اور متوسط اور ان سے بہتر خاندان بھی علاج کرانے کے متحمل نہیں ہیں۔ سنگین بیماریوں کی صورت میں ہم ہندوستانیوں کو اپنے مکانات، زیورات، زمینات وغیرہ فروخت کرنے پڑتے ہیں۔ مودی حکومت کو ہیلتھ انشورنس کے بجائے ہر شہر میں کارپوریٹ اسپتالوں کی طرح سرکاری اسپتالوں کو فروغ دینا چاہئے جہاں چھوٹی سے لے کر بڑی بیماریوں کے علاوج اور آپریشنس کی سہولتیں ہونی چاہئیں۔ جہاں تک حکومت کا سوال ہے مودی حکومت کے بارے میں عام رائے یہی ہے کہ یہ چند صنعت کاروں کو فوائد پہنچانے تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ اس نے ارب پتی صنعت کاروں کے لاکھوں کروڑہا روپے کے قرض معاف کئے لیکن اسے غریب کسانوں کے قرض معاف کرنے کی زحمت نہیں ہوئی، حالانکہ ملک کے کونے کونے میں قرض کے بوجھ تلے دبے کسان خودکشی کررہے ہیں۔ مودی حکومت کو ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی اس رپورٹ کو بھی ذہن میں رکھنا ہوگا جس میں بتایا گیا تھا کہ ہندوستان میں جو بلا شبہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے لیکن52 ملین لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گذارتے ہیں۔ کانگریس اور اپوزیشن کا الزام ہے کہ مودی حکومت غریبوں کی نہیں بلکہ صنعت کاروں اور بڑے تاجرین کی دوست ہے اور ان کے مفادات کی نگہبانی میں مصروف ہے۔ مودی نے ہیلتھ انشورنس کا اعلان تو کردیا لیکن اعلیٰ عہدہ داروں کا کہنا ہے کہ یہ کام خانگی شعبہ سے مدد لئے بنا نہیں کیا جاسکتا کیونکہ سرکاری شعبہ کے اسپتالوں میں خانگی اسپتالوں میں موجود سہولتیں نہیں پائی جاتیں لیکن حکومت کو یقین ہے کہ 15 اگست تک نریندر مودی کی یہ پسندیدہ اسکیم تیار ہو جائے گی۔ مارچ میں مودی حکومت نے سماجی، سلامتی پروگرام سے متعلق ایک مسودہ بل پیش کیا تھا جس کا مقصد 500 ملین غریب ورکروں بشمول غیر منظم شعبوں میں کام کرنے والے ملازمین کی بہبود تھا۔ یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ مودی کے ہیلتھ انشورنس اسکیم کے تحت غریب خاندانوں کا سالانہ 5 لاکھ روپے تک ہیلتھ انشورنس کیا جائے گا لیکن اس میں کثیر سرمایہ کاری اور غیر معمولی افرادی قوت درکار ہوگی۔ مودی جی ہیلتھ انشورنس کی بات کر رہے ہیں جبکہ لوگ ملک میں بھوک کے باعث تڑپ تڑپ کر مر رہے ہیں۔ فرقہ پرستی کا حال یہ ہے کہ کب کیا ہوجائے پتہ نہیں اس لئے ہیلتھ انشورنس کے بجائے فرقہ پرست حملوں کے خلاف انشورنس اسکیم شروع کی جائے جس سے نہ صرف فرقہ پرستوں کے حوصلے پست ہوں گے بلکہ ان کے نشانہ بننے والوں کو مالی راحت بھی نصیب ہوگی۔
mriyaz2002@yahoo.com