تار نظر : ایک جائزہ

پروفیسر اختر یوسف
’’تار نظر‘‘ جناب وہاب عندلیب کے مختلف ادبی نوعیتوں کے مضامین ؍ مقالات کا ایک اہم مجموعہ ہے ۔
ہجوم غم سے یہاں تک سرنگونی مجھ کو حاصل ہے
کہ تار دامن و تار نظر میں فرق مشکل ہے
انتساب والے صفحے کے بعد غالبؔ کا درج شعر موجود ہے ۔ اب میں جناب وہاب عندلیب کی خدمت میں غالبؔ کا یہ شعر نذر کرتا ہوں۔
حیرت فروش صد نگرانی ہے اضطرار
ہر رشتہ چاک جیب کا تار نظر ہے آج
بہرحال ۔ مضامین کا مجموعہ ’’تار نظر‘‘ وہاب صاحب کی ناقدانہ صلاحیتوں پہ دال ہے ۔ مجموعے میں مختلف عنوانات کے تحت نگارشات کی درجہ بندی کی گئی ہے جیسے الف (ادب) ، مطالعے ب: زبان تعلیم و تدریس ج: تبصرے د: پیش نامے اور آخر میں حرف تشکر ہے ۔ مختلف اوقات میں یہ تحریریں نذر قرطاس کی گئی ہیں ۔ ان میں وزن ہے اور وقار جو یقیناً دعوت مطالعہ دیتی ہیں ۔ کوئی بھی باذوق اور سنجیدہ قاری یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہاب صاحب نے محض وقت گذاری کے لئے انہیں قلم بند کیا ہے ۔ تحریروں میں چمک ہے ۔ مختصر مختصر میں مختلف ادبی موضوعات پہ اپنے قلم کا فوکس یوں انڈیلتے ہیں کہ ان کی تنقیدی کارگذاری فوراً عیاں ہوجاتی ہے۔ ’’اردو ادب کی تحریکیں: ایک جائزہ‘‘ کے تحت ایک مقام پر لکھتے ہیں:

’’ترقی پسندوں کی اس روش نے ، وہ ادباء اور شعراء جو مارکسزم کے حامی نہیں تھے ۔ اس تحریک سے الگ ہوگئے ۔ ترقی پسند ادب میں پروپگنڈہ ، تشہیر اور تبلیغ کا عنصر وافر مقدار میں شامل ہوا تو یہ تحریک زوال پذیر ہوئی ۔ سوویٹ یونین کے انتشار نے تو اس تنظیم میں آخری کیل ٹھونک دی ۔ اگر یہ تنظیم زندہ بھی ہے تو فعال نہیں‘‘ ۔ صفحہ 35
ترقی پسند تحریک کا یہ جائزہ یقیناً غیر جانبدارانہ ہے اور بالکل صحیح ہے۔
’’تار نظر‘‘ کے مطالعے کے دوران میں نے یہ محسوس کیا کہ وہاب صاحب کا قلم ہر دم رواں ہے ۔ اپنے مطالعے میں بھی وہ تابہ امروز ہیں ۔ قدیم سے لے کر جدید تک ان کے مطالعے میں شامل ہیں ۔ ’’تار نظر‘‘ کا پہلا مضمون ’’فیروز شاہ بہمن کے عہد میں دکنی ادب‘‘ اس لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے کہ صوفیائے کرام کی ادبی خدمات کو عندلیب صاحب نے بڑی محبت سے اجاگر کیا ہے ۔ خصوصاً حضرت بندہ نواز گیسو دراز کی نورانی شخصیت کو بزرگان چشت میں ہمہ جہت ہونے کی بابت انہوں نے تحقیق و جستجو سے کام لیا ہے ۔ ’’جنگ آزادی میں مولانا محمد علی جوہر کا حصہ‘‘ ایک خاصا مضمون ہے ۔ مولانا کو نذرانہ عقیدت بھی ہے اور ساتھ ساتھ ابنائے وطن کو یہ بھی یاد دہانی ہے کہ تمہارے بزرگوں نے اپنے وطن کے لئے بے مثال قربانیاں دی ہیں ۔ انہیں یاد کرو ۔ ان کے کارناموں سے تحریک حاصل کرو ۔ دیکھو ، ماضی کو گم نہیں کیا جاسکتا ۔ بلکہ تمہارے حال کا یقینی طور پر یہ محرک بھی ہے ۔

’’سلیمان خطیب بحیثیت نثر نگار‘‘ میں خطیب صاحب کی ادبی شخصیت پہ خاص روشنی ڈالی گئی ہے ۔ خطیب صاحب قلندرانہ صفت کے حامل تھے ۔ روٹی کے لئے وہ اپنی طبیعت کو چھوٹی نہیں کرتے تھے ۔ بے حد خوددار شخص تھے ۔ مالی دشواریوں کو وہ ہمت سے جھیلنے کا فن جانتے تھے ۔ کس کے آگے دست طمع دراز نہیں کرتے ۔ عندلیب صاحب کا خطیب صاحب کی زندگی کے مذکورہ بیان کردہ احوال سے یہ یقینی طور پہ ظاہر ہوتا ہے کہ زندگی کرنے کی کڑی جد وجہد نے ان کے اندر کے ادیب کو جلابخشی ۔ انہیں ایک کامیاب ادیب کے رتبے سے نوازا ۔ ’’اردو کی ابتدائی تعلیم ۔ مسائل اور حل‘‘ کے تحت عندلیب صاحب نے اچھے اور کارآمد سجھاؤ دئے ہیں ۔ ارد کی حالت زار کی نشاندہی بھی کی ہے ۔ افسوس کہ اردو کی موجودہ صورتحال کے ذمہ دار خود اردووالے ہیں ۔ بیشتر حضرات اپنے ذہن کی کھڑکیاں مکمل طور پر بند کرکے اپنی فضیحت کو فضیلت سمجھتے ہیں ۔ مدرسوں میں مولوی حضرات کیا پڑھاتے اور لکھاتے ہیں یہ تو وہ جانیں ۔ مقام افسوس یہ بھی ہے کہ کالج اور یونیورسٹیوں کی تعلیم سے فارغ شدہ حضرات اردو کی دعاؤں سے محروم ہوتے ہیں ۔ عندلیب صاحب نے بالکل صحیح کہا ہے ۔’’معیار کی بہتری کے ضمن میں انتظامیہ کے علاوہ والدین اور اساتذہ کا بھی اہم رول ہوتا ہے ۔ جب تک ان تینوں میں ہم آہنگی اور باہمی ارتباط نہ ہو بہتر تعلیم کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔ خصوصیت کے ساتھ نظام تعلیم میں اساتذہ کا کردار مرکزی اہمیت کا حامل ہوتا ہے ۔

معلم کے لئے ضروری ہے کہ وہ خود مطالعہ کرے اور طلباء میں درسی کتب کے علاوہ رسائل معلومات عامہ اورکہانیوںکی کتب لائبریری سے حاصل کرے یا انہیں بازار سے خریدنے کی ترغیب دے ۔ تعلیم کے ساتھ طلباء کی تربیت بھی معلم کی اہم ذمہ داری ہے‘‘ ۔ (صفحہ 165)
یقیناً عندلیب صاحب نے خدا لگتی باتیں کہی ہیں ۔ معلم کے لئے ضروری ہے کہ وہ خود مطالعہ کرے ۔ ایسا مگر اب کم ہی ہوتا ہے ۔
عندلیب صاحب دریا کو کوزے میں بند کرنے کا فن جانتے ہیں ۔ ’’تبصرے‘‘ کے تحت مختلف کتابوں پہ تبصرے اپنے اختصار میں ۔ فنکاروں کی ذہنی ترجیحات کی نشاندہی کرتے ہیں ۔ انوکھی شادی اور فقیر کی تین لکیریں (بہمنی دور کے دو تاریخی ڈرامے) ۔ ڈرامہ نگار ریون سدیا اور سوامی مٹھ کا تعارف عندلیب صاحب کی جستجوئے تحقیق پہ دال ہے ۔ آج تو تاریخ کو مسخ کرنے کا کام کچھ لوگوں کا ایک مشن بن گیا ہے ۔ ایسے حالات میں ریون سدیا اور سوامی مٹھ کا مذکورہ ڈرامہ بند آنکھوں پہ آب گرم کا ایک چھینٹا ہے ۔

صدیقی انیسہ کی کتاب ’’سید مجیب الرحمن شخصیت اور افکار‘‘ یہ تبصرہ کرکے عندلیب صاحب نے یقیناً ایک کارخیر انجام دیا ہے کہ سید مجیب الرحمن جیسی عبقری شخصیت مرکز نظر سے دور نہیں رہ سکتے ۔ اتنی ہمہ جہت شخصیت پہ تحقیق کا کام انجام دے کے صدیقی انیسہ صاحبہ نے خود کو داد کا مستحق بنالیا ہے ۔ اردو والوں کی نبض کی مجیب صاحب نے بالکل صحیح گرفت کی ہے ۔ اہل اردو کی حالت زار پہ ان کا تجزیہ ایک آہنی چابک ہے ۔
’’آب فشار‘‘ پہ تبصرہ کے دوران عندلیب صاحب نے بڑی اہم خبر ہم تک پہنچائی ہے کہ سید احمد ایثار صاحب نے اقبال کا مکمل شعری کلام کا اردو میں ترجمہ کردیا ہے ۔ علامہ رومی ، عمر خیام اور سعدی کے ترجمے بھی اشاعت کے مرحلے پہ ہیں ۔ سچ پوچھئے تو ’’تار نظر‘‘ میں بہت کچھ ہے ۔ یہ ایک اہم کتاب اس لئے بھی بن گئی ہے کہ بہت ساری ادبی شخصیتیں اس کے توسط سے ہمارے روبرو ہیں۔ آخیر میں ، ڈاکٹر غضنفر اقبال سہروردی ستائش کے مستحق ہیں کہ انہوں نے وہاب عندلیب صاحب کے مضامین ؍ مقالات کی بہت کامیاب تلاش و جستجو کے بعدانہیں ’’تار نظر‘‘ کا روپ دیا ۔