تاریخ کا سبق … ایک مطالعہ

ناظم علی
تاریخ کا سبق ہندوستان میں مسلمانوں کا دور حکمرانی زوال کے اسباب اور مستقبل کیلئے لائحہ عمل ڈاکٹر محمد رفیع الدین فاروقی نے محنت و جانفشانی سے اور بڑی عرق ریزی کے بعد لکھا۔ اس کتاب کو ٹیپو سلطان ریسرچ سنٹر گلشن خلیل مانصاحب ٹینک حیدرآباد تلنگانہ اسٹیٹ نے شائع کیا ۔ مصنف نے ما ضی، حال اور مستقبل کا جائزہ پیش کیا ہے اور اس کا انتساب ان غیرت مند نوجوانوں کیلئے جو اپنے ما ضی سے باخبر رہ کر روشن مستقبل کی تعمیر کا عزم و حوصلہ رکھتے ہیں۔ کتاب تاریخ کا سبق بہت کچھ درس دیتا ہے ۔ مسلمان تاریخ سے شعور حاصل کریں کہ کیا تھے کیا ہوگئے اور تاریخ سے سبق لیں کہ ہم نے کیا کیا غلطیاں کی ہیں ، اس کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے ۔ ہندوستان میں مسلم حکمرانوں کی 900 سالہ تاریخ ہے لیکن ان بادشاہوں نے اپنی دولت ، حشمت ملک ملکیت پر جان دی ۔ بادشاہ یہ کوشش کرتا ہے کہ اس کی بادشاہت تا دیر قائم رہے اور ان بادشاہوں نے اپنے احکامات رعب دبدبہ سے اسلام کو نافذ نہیں کیا اور نہ کبھی زور و زبردستی کی ہے ۔ صرف اپنی بادشاہت کے نشے میں چور رہے، مستقبل کا شعور کا فقدان تھا کہ کس طرح سے قوم و ملک کو سنواریں۔ ڈاکٹر محمد رفیع الدین فاروقی کی کتاب سے یہی سبق ملتا ہے کہ مسلمان ماضی میں کیا تھے اور کیا ہوگئے ۔ ہندوستان میں بے بسی و لاچاری کی زندگی گزارتے پر مجبور ہوگئے ۔ مصنف کتاب کے آغاز میں ہندوستان میں مسلمانوں کے پانچ ادوار اور حکمرانی کا پہلا دور محمد بن قاسم ، محمود غزنوی ، محمد غوری ، دوسرا دور غلامان ، خلجی ، تغلق ، سید اور لودھی ، تیسرا دور برید شاہی ، عادل شاہی ، عماد شاہی ، نظام شاہی ، قطب شاہی ۔ چوتھا دور بابر ، ہمایوں ، اکبر ، جہانگیر ، شاہ جہاں ، اورنگ زیب ، بہادر شاہ ظفر ، عہد برطانیہ جنگ پلاسی سے جنگ آزادی تک ہندوستان برطانوی سامراج کے تحت آزادی ہند کی تحریک اور تقسیم ملک۔ پانچواں دور آصف جاہی سلطنت آخری مسلم سلطنت کا سقوط ان پانچ دور کے مسلم بادشاہوں کی حکمرانی کا جائزہ اس کتاب میں ملتا ہے اور ان کی حکومت ، حکمرانی رعایا سے سلوک ، انتظامیہ وغیرہ پر روشنی پڑتی ہے۔ جب اتنے مسلم بادشاہوں نے ہندوستان پر حکومت کی ہے ، جب ان کے دور حکومت میں ہندو مسلم کی تعداد زیادہ تھی ، کہیں کوئی منافرت ، نفرت ، جانب داری کا احساس نہیں ملتا۔ رعایا سے اچھا سلوک ہوتا تھا ۔ ہندوؤں کو بھی اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونے کی مکمل آزادی تھی ۔ ہندوستان میں مسلمانوں کا ماضی حکومت و حکمرانی کا رہا لیکن 1857 ء کے بعد مسلمان حا کم سے محکوم بن گئے ۔ سب کچھ جاتا رہا ۔ حکومت گئی ، تجارت بھی گئی، سب کچھ ختم ہوگیا ۔ اب بے دست و پا زندگی گزار رہے ہیں۔ ما ضی میں ان بادشاہوں کو کیا کرنا تھا اور کیا نہیں کرنا تھا ۔ اس پر غور کی ضرورت ہے، جو قوم 900 برس تک ہندوستان پر حکومت کرتی رہی ، اچانک وہ محکوم بن جائے غور طلب امر ہے، اس کے اسباب و علل پر غور کرنا ضروری ہے۔ اب مسلمان ہندوستان میں بادشاہ گر کا موقف رکھتے ہیں تو پھر بادشاہ بننے کیلئے کیا کرنا چاہئے ۔ مصنف نے مستقبل کیلئے لائحہ عمل کی طرف اشارہ کیا ہے جو وقت کی پکار عنوان کے تحت ہے۔ ماضی کی غلطیوں کو دیکھتے ہوئے مستقبل کی تعمیر ایسی کرنی چاہئے کہ پھر ہمیں عزت اور تمکنت مل سکے ، انہوں نے ہندوستان میں مسلم اقلیت کی موجودہ صورتحال کا جائزہ بتلاتے ہوئے کہا کہ فرقہ وارانہ فسادات کا مسئلہ درپیش ہے، جھوٹے مقدمات کا مسئلہ ، مسلمانوں کے ساتھ عدم مساوات کا مسئلہ ، متناسب نمائندگی سے محروم کرنے کا مسئلہ ، حکمراں جماعتوں کے طرز عمل کا مسئلہ ، میڈیا کا مخالفانہ پروپگنڈہ ۔ ڈیموکریسی اور سیکولرازم کا غلط مفہوم ایسے مسائل سے مسلمان دو چار ہیں ، ان کا سدباب ضروری ہے لیکن مصنف نے مسلمانان ہند کے مستقبل کا لائحہ عمل میں اسلامی کردار ، تعلیم و تربیت، معاشی جدوجہد ، اتحاد ملت ، تحفظ شریعت ، سیاسی اتحاد ، تبلیغ اسلام ، ماضی کے آئینہ میں مستقبل کی صورت گری کرنا ہے تو مذکورہ صفات و خصوصیات ہم میں پیدا کرنا ضروری ہے ۔ تب ماضی کی کھوئی ہوئی ساکھ لوٹ کر آئے گی ۔ ماضی کا کھو یا ہوا مقام بنانے کیلئے ہمیں سیاسی ، تعلیمی ، معاشی طور پر خود مکتفی ہونا پڑے گا ۔ عالمی اور قومی سطح پر مسلمانوں کا سیاسی ، معاشی اتحاد قائم ہوسکتا ہے ۔ قومی سطح پر کبھی بھی ہمارا سیاسی محاذ نہیں بنا بلکہ مسلم طبقہ مختلف ریاستوں میں مختلف سیاسی مکاتب فکر کا حامل بن گیا ۔ ان میں کبھی بھی سیاسی اتحاد ملکی سطح پر قائم نہ ہوسکا۔ البتہ دور حاضر میں ملکی سطح پر سیاسی اتحاد قائم کرنا وقت کا تقاضہ ہے تاکہ مسلمانوں کی سیاسی قوت میں اضافہ ہوسکے ۔ تعلیم میں مسلمان پسماندہ ہیں ، عصری و ٹکنالوجی کی تعلیم سے بہت دور ہوگئے ہیں ۔ مسلمانوں کو عصری تعلیم ، اعلیٰ تعلیم سے بہرور کرنا ضروری ہے تاکہ سماج میں ان کی وقعت ہوسکے اور ملک کے پالیسی ساز اداروں میں ان کی وقعت ہوسکے اور ملک کے پالیسی ساز اداروں میں اہم رول ادا کرسکے۔ مسلمان اعلیٰ تعلیم میں دیگر قوموں سے پیچھے ہیں، اس لئے ملک کے سرکاری محکموں اور حکمرانی و انتظامیہ میں ان کا تناسب بہت کم ہوگیا ہے ۔ اعلیٰ تعلیم سے اس کمی کو پورا کیا جاسکتا ہے۔ مسلمان معاشی طور پر کمزور ہوگئے ، بنا دیئے گئے ہیں آزادی کے بعدان کی معاشی جڑیں مختلف وسیلوں و ذریعوں سے کاٹ دی گئی ہیں۔ وہ معاشی ترقی کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں لیکن ابھرنے نہیں پاتے۔ معاشی لحاظ سے مسلمانوں کو مستحکم ہونا ہے ۔ اپنے اسلامی کردار سے دوسر وں کو اپنا ہمنوا بنانا چاہئے تاکہ وہ متاثر ہوکر ہماری ترقی کیلئے جدوجہد کرے ۔
ڈاکٹر محمد رفیع الدین فاروقی کی کتاب تاریخ کا سبق تاریخی بھی ہے اور مسلمانوں کو عصری موقف سے آگاہ کرتی ہے اور مستقبل میں کیا کرنا ہے ، کیسے ترقی حاصل کرنا ہے ، اس سے آگہی ہوتی ہے ۔ بہرحال تعلیم سے ہی کسی بھی قوم کی ہمہ جہت ترقی ہوتی ہے، پوری مسلمہ قوم تعلیم سے بہرور ہوجاتی تو سماجی موقف معاشی موقف میں ترقی ہوسکتی ہے۔ اس کتاب کو نئی نسل پڑھے اور سبق حاصل کرے کہ کیسے ہمیں ترقی کرنا ہے ، ماضی میں کیا تھے ، اب کیا ہوگئے ، اس احساس کو اجاگر کیا گیا ہے ۔192 صفحات کی کتاب میں مسلمانوں کے تعلق سے ماضی ، حال اور مستقبل کے اشارے مل جائیں گے ۔ قوم کو بیدار کرنے کیلئے ایک اہم دستاویز ہے۔